ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
دفاع کے تقاضے!
دفاع کے تقاضے!
سیکورٹی خدشات اور دہشت گرد کارروائیوں کے امکانات و اندیشے اپنی جگہ موجود
لیکن اِس پوری صورتحال کو ’ضبط‘ میں کرنے کی کوششیں جس مستعدی اور منظم
انداز میں ’سولہ دسمبر‘ (آرمی پبلک سکول پر حملے) کے بعد سے ہو رہی ہیں‘
اگر قانون نافذ کرنے والے اِداروں کا ’طرز عمل‘ شروع دن سے ایسا ہی ہوتا تو
شاید یہ تحفظات بصورت اعتراضات سننے کو نہ ملتے کہ طاقت کا استعمال کسی
ایک تنظیم یا گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف ہو رہا ہے! یہ ایک باریک
نکتہ اور سوچ کا نازک مرحلہ ہے جو درحقیقت آگ سے کھیلنے جیسا خطرناک عمل ہے
کہ اگر سیکورٹی کے لئے خطرہ بننے والے مشتبہ افراد کے حامی یہ سوچ پھیلاتے
ہیں کہ صرف اُنہیں کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں تو اس سے ’خانہ جنگی‘
پھیلنے کا امکان ہے لہٰذاقانون نافذ کرنے والے اِداروں کو اِس سازش اور سر
اُٹھانے والے انتشاری عوامل کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ ہم اُس مقام
پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
سیکورٹی کی اَبتر صورتحال معمول پر لانے کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ اُنہیں احکامات اور ضوابط کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر ’بے بسی‘ کی کیفیت وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں کسی ضلع میں اعلیٰ و ادنیٰ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی میں وہاں کی منتخب سیاسی قیادت کا ہاتھ رہا ہو۔ ’احسان کا بدلہ احسان‘ ہو تو سکتا ہے لیکن وہاں نہیں جہاں ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہو! اِس لئے مشتبہ افراد کی سرپرستی کرنے والے جملہ سہولت کاروں اور عسکریت پسندی کی حمایت کرنے والے طبقات تک بھی یہ واضح پیغام پہنچنا ضروری ہے کہ آج کے بعد کسی بھی معتبر و نامعتبر ذات کا اثرورسوخ‘ حوالہ اور علم و دانش اجتماعی مفادات اور ریاست کے ’تابع فرمان‘ تصور ہوگا۔ چونکہ ملک کی سیاسی و دفاعی قیادت نے اصولی طورپر فیصلہ کر لیا ہے کہ آج کے بعد کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے قانون کے مطابق یکساں سلوک کیا جائے گا تو اِس پر اعتراض کرنے والوں کو سوچ سمجھ اور ناپ تول کر تحفظات کا اظہار کرنا ہوگا کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
پشاور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے چوبیس سے چھبیس دسمبر کے درمیان مختلف کارروائیوں میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا ہے‘ جن کے روابط بین الاضلاعی گروہوں سے بھی تھے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور ذرائع کے مطابق ’تفتیشی عمل میں مزید انکشافات کی توقع ہے۔‘ لیکن مسئلہ عوام کے اعتماد کا ہے جو اِس پورے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے کیونکہ ماضی میں پولیس کی کارکردگی ایسی مثالی جو نہیں رہی۔
پولیس کے اعلیٰ حکام سے سوال ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کا عام آدمی (ہم عوام) یقین رکھے کہ جملہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی ہوگی یا پولیس ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ کی تفریق کرتے ہوئے صرف اُن ’جرائم پیشہ گروہوں‘ کے خلاف کارروائی کرتی ہے جس سے متعلقہ تھانے یا حکام شناسائی نہیں رکھتے۔ یہ منفی تاثر اور درحقیقت ’وردی پر داغ‘ صفائی چاہتا ہے جس کے لئے دھلائی یعنی عملی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اَفغان مہاجرین کی وطن واپسی کے مراحل اتنے آسان نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ مالی لحاظ سے کمزور افغان مہاجرین کو باآسانی شناخت بھی کیا جاسکتا ہے اور اُن کے ٹھکانے بھی کچی بستیوں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں قائم ہیں لیکن اُن اَفغانوں کا کیا ہوگا‘ جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں؟ جن کی تین نسلیں بودوباش‘ زبان و ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ہم جیسی ہی ہیں؟ جن کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ہماری معیشت میں سینکڑوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری رکھتے ہیں۔ کیا ایسے سرمایہ دار افغانوں کے لئے ایک ’الگ (خصوصی) ویزہ پالیسی‘ تشکیل دے کر اُنہیں ’ایوان ہائے صنعت و تجارت‘ کے ذریعے مشروط قیام‘ جائیدادیں‘ گاڑیاں اور بینک اکاونٹس رکھنے کی اِجازت ہونی چاہئے لیکن اُن کی شہریت افغان ہی رہے اور اُن کا تشخص بھی عارضی شہریت رکھنے والوں جیسا ہی رہنا چاہئے؟ ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں مسلمان ممالک نے باوجود ’مسلکی اپنائیت‘ کے افغان مہاجرین کو اپنے شہروں سے الگ خیمہ بستیوں کے اردگرد‘ آہنی خاردار تاروں کے اندر معاشرت کرنے تک محدود رکھا۔ وجہ یہی تھی کہ اُنہیں اپنے ملک کا استحکام اور مفاد عزیز تھا لیکن ہمارے ہاں مہاجرین کو کھلی چھوٹ دی گئی اور اب جبکہ وہ ہر شہر و دیہی علاقے میں پائے جاتے ہیں تو اُنہیں نکال باہر کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی نہ تو مکمل طور پر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی اور نہ ہی اس سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے کیونکہ منظم جرائم‘ انتہاء پسندی یا عسکریت پسندی سے تعلق رکھنے والے بے سروسامان نہیں ہوتے۔ اندیشہ ہے کہ عام افغانوں کے لئے پاکستان میں زندگی بسر کرنا مشکل بنانے سے وہ ساکھ جاتی رہے گی جسے بنانے میں ہمیں چالیس برس سے زائد کا عرصہ لگا‘ وہ مہمان نوازی جسے ایثار کے ساتھ نبھانے میں ہم نے ملک کی سلامتی تک داؤ پر لگا دی‘ وہ سب نیکیاں اور کارخیر غرقاب ہو جائیں گی! اَفغان مہاجرین ہم سے خوش نہیں۔ اُن کے چہرے مرجھائے اور اُن کے بچے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم نے افغانوں کے وطن داخلے اور اُن کی آباد کاری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پہلے ادا کی ہوتیں تو اِس قدر بے یقینی کی فضاء میں ’ہنگامہ برپا‘ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اب اِس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ ہم عشروں سے مقیم اپنے مہمانوں‘ اپنے بھائیوں کو گلے لگا کر ’الوداع‘ کہیں اور اُنہیں خواہشات کے ساتھ سلامتی و خندہ پیشانی سے رخصت کریں۔ اُن کے سامنے اپنی مجبوریاں بیان کریں۔
محبت اور سچائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہتھیاروں کے ساتھ ہمیں یہ طاقت بھی آزمانا ہوگی کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
سیکورٹی کی اَبتر صورتحال معمول پر لانے کے لئے قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ اُنہیں احکامات اور ضوابط کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے اور سب سے بڑھ کر ’بے بسی‘ کی کیفیت وہاں محسوس ہوتی ہے جہاں کسی ضلع میں اعلیٰ و ادنیٰ پولیس اہلکاروں کی تعیناتی میں وہاں کی منتخب سیاسی قیادت کا ہاتھ رہا ہو۔ ’احسان کا بدلہ احسان‘ ہو تو سکتا ہے لیکن وہاں نہیں جہاں ملک و قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہو! اِس لئے مشتبہ افراد کی سرپرستی کرنے والے جملہ سہولت کاروں اور عسکریت پسندی کی حمایت کرنے والے طبقات تک بھی یہ واضح پیغام پہنچنا ضروری ہے کہ آج کے بعد کسی بھی معتبر و نامعتبر ذات کا اثرورسوخ‘ حوالہ اور علم و دانش اجتماعی مفادات اور ریاست کے ’تابع فرمان‘ تصور ہوگا۔ چونکہ ملک کی سیاسی و دفاعی قیادت نے اصولی طورپر فیصلہ کر لیا ہے کہ آج کے بعد کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے قانون کے مطابق یکساں سلوک کیا جائے گا تو اِس پر اعتراض کرنے والوں کو سوچ سمجھ اور ناپ تول کر تحفظات کا اظہار کرنا ہوگا کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
پشاور پولیس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے چوبیس سے چھبیس دسمبر کے درمیان مختلف کارروائیوں میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا ہے‘ جن کے روابط بین الاضلاعی گروہوں سے بھی تھے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور ذرائع کے مطابق ’تفتیشی عمل میں مزید انکشافات کی توقع ہے۔‘ لیکن مسئلہ عوام کے اعتماد کا ہے جو اِس پورے عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے کیونکہ ماضی میں پولیس کی کارکردگی ایسی مثالی جو نہیں رہی۔
پولیس کے اعلیٰ حکام سے سوال ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کا عام آدمی (ہم عوام) یقین رکھے کہ جملہ منظم جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کارروائی ہوگی یا پولیس ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ کی تفریق کرتے ہوئے صرف اُن ’جرائم پیشہ گروہوں‘ کے خلاف کارروائی کرتی ہے جس سے متعلقہ تھانے یا حکام شناسائی نہیں رکھتے۔ یہ منفی تاثر اور درحقیقت ’وردی پر داغ‘ صفائی چاہتا ہے جس کے لئے دھلائی یعنی عملی اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
اَفغان مہاجرین کی وطن واپسی کے مراحل اتنے آسان نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ مالی لحاظ سے کمزور افغان مہاجرین کو باآسانی شناخت بھی کیا جاسکتا ہے اور اُن کے ٹھکانے بھی کچی بستیوں کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں قائم ہیں لیکن اُن اَفغانوں کا کیا ہوگا‘ جن کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں؟ جن کی تین نسلیں بودوباش‘ زبان و ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے ہم جیسی ہی ہیں؟ جن کے کاروبار پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ہماری معیشت میں سینکڑوں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری رکھتے ہیں۔ کیا ایسے سرمایہ دار افغانوں کے لئے ایک ’الگ (خصوصی) ویزہ پالیسی‘ تشکیل دے کر اُنہیں ’ایوان ہائے صنعت و تجارت‘ کے ذریعے مشروط قیام‘ جائیدادیں‘ گاڑیاں اور بینک اکاونٹس رکھنے کی اِجازت ہونی چاہئے لیکن اُن کی شہریت افغان ہی رہے اور اُن کا تشخص بھی عارضی شہریت رکھنے والوں جیسا ہی رہنا چاہئے؟ ہمارے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں مسلمان ممالک نے باوجود ’مسلکی اپنائیت‘ کے افغان مہاجرین کو اپنے شہروں سے الگ خیمہ بستیوں کے اردگرد‘ آہنی خاردار تاروں کے اندر معاشرت کرنے تک محدود رکھا۔ وجہ یہی تھی کہ اُنہیں اپنے ملک کا استحکام اور مفاد عزیز تھا لیکن ہمارے ہاں مہاجرین کو کھلی چھوٹ دی گئی اور اب جبکہ وہ ہر شہر و دیہی علاقے میں پائے جاتے ہیں تو اُنہیں نکال باہر کرنے کی کوئی بھی حکمت عملی نہ تو مکمل طور پر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی اور نہ ہی اس سے خاطرخواہ نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے کیونکہ منظم جرائم‘ انتہاء پسندی یا عسکریت پسندی سے تعلق رکھنے والے بے سروسامان نہیں ہوتے۔ اندیشہ ہے کہ عام افغانوں کے لئے پاکستان میں زندگی بسر کرنا مشکل بنانے سے وہ ساکھ جاتی رہے گی جسے بنانے میں ہمیں چالیس برس سے زائد کا عرصہ لگا‘ وہ مہمان نوازی جسے ایثار کے ساتھ نبھانے میں ہم نے ملک کی سلامتی تک داؤ پر لگا دی‘ وہ سب نیکیاں اور کارخیر غرقاب ہو جائیں گی! اَفغان مہاجرین ہم سے خوش نہیں۔ اُن کے چہرے مرجھائے اور اُن کے بچے سہمے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ہم نے افغانوں کے وطن داخلے اور اُن کی آباد کاری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پہلے ادا کی ہوتیں تو اِس قدر بے یقینی کی فضاء میں ’ہنگامہ برپا‘ کرنے کی قطعی کوئی ضرورت پیش نہ آتی لیکن اب اِس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ ہم عشروں سے مقیم اپنے مہمانوں‘ اپنے بھائیوں کو گلے لگا کر ’الوداع‘ کہیں اور اُنہیں خواہشات کے ساتھ سلامتی و خندہ پیشانی سے رخصت کریں۔ اُن کے سامنے اپنی مجبوریاں بیان کریں۔
محبت اور سچائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہتھیاروں کے ساتھ ہمیں یہ طاقت بھی آزمانا ہوگی کیونکہ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں مزید انتشار برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
No comments:
Post a Comment