ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قومی لائحہ عمل اور عمل
قومی لائحہ عمل اور عمل
پاکستان کے کلیدی فیصلے ’اسلام آباد‘ سے ’راولپنڈی‘ منتقل ہوچکے ہیں‘ اِس
’نیم جمہوری طرز حکمرانی‘ سے خیر کے پہلو نکلنے کی قوئ اُمید رکھنے والے
سایہ دار شجر کی تلاش میں ہیں‘ جہاں انہیں دکھ کی دھوپ سے نجات مل سکے جہاں
بیٹھ کر اُن کے زخم مندمل ہوسکیں۔ سولہ دسمبر کے روز پشاور کے ’آرمی پبلک
سکول‘ کا سانحہ کسی بھی صورت معمولی واقعہ نہیں تھا‘ جسے دہشت گردی کی آئے
روز ہونے والی دیگر وارداتوں کے ساتھ شمار کرتے ہوئے بھلا دیا جائے۔ یہی
وجہ ہے کہ چوبیس دسمبر کے دن کم و بیش بارہ گھنٹے کے باہمی مشاورتی اجلاس
کے بعد ملک کی سیاسی قیادت جس اٹھارہ نکاتی نتیجے پر پہنچی‘ اُس ’قومی
لائحہ عمل‘ پر اگر ’عمل‘ ہو جاتا ہے تو اِس سے آئندہ نہ صرف پشاور جیسے
واقعات کے رونما نہ ہونے کی ضمانت مل جائے گی بلکہ عالمی سطح پاکستان کی
ساکھ بھی بہتر ہوگی اور امن و امان کی عمومی صورتحال بہتر ہونے کے ساتھ
داخلی سلامتی کے لئے ’خطرات‘ بھی بتدریج ختم ہوتے چلے جائیں گے۔ وزیراعظم
نے چوبیس دسمبر کی رات قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان بدل چکا ہے۔
سانحۂ پشاور نے پوری قوم کو غمزدہ اور ہلاکر رکھ دیا ہے۔ لہو کا حساب دینا
ہوگا اور جلد دینا ہوگا۔ہم دہشت گردی کی فکر اور سوچ کا بھی خاتمہ کریں
گے۔ قومی سیاسی رہنماؤں کا ’’متفقہ جامع ایکشن پلان‘‘ پر اتفاق ہوگیا ہے جس
کے تحت فوج کی قیادت میں عرصہ دو سال کے لئے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت
کرنے والی ’خصوصی عدالتیں‘ قائم کی جائیں گی۔‘‘
کیا سیاست دان واجب الادأ ذمہ داریوں و فرائض کا بوجھ فوج پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ (خدانخواستہ) کسی دیگر بڑے سانحے (جس کی وہ خود ہی پیشنگوئی کر چکے ہیں) کے لئے اُنہیں موردالزام نہ ٹھہرایا جاسکے؟ کیا وجہ ہے کہ قومی سلامتی کو لاحق ہر خطرے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں جیسی حیثیت دینے کے لئے پہلے سے مرتب اصلاحات پر غور نہیں کیا جاتا؟ پاک افغان سرحد پر آزادانہ آمدورفت روکنے اور سرحد پار ٹھکانوں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا؟
دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والوں کے مقدمات کا فوری فیصلہ کرنے کے لئے جن عدالتوں کے قیام پر ’سیاسی قیادت نے اتفاق‘ کیا ہے ماہرین کے مطابق اس سے ’’خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لیکن اگر آئین کے آرٹیکل 245کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوج طلب کرلیتی ہیں تو یہ ’زیادہ مفید‘ اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ درحقیقت مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کو آنسو رُلانے والوں کو فوری طور پر سزائیں نہیں ملتیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’’افرادی قابلیت و تکنیکی صلاحیت اور پیشہ ورانہ تربیت ومہارت‘‘ اِس قدر نہیں کہ وہ دہشت گردی جیسے پیچیدہ اساسی‘ نظریاتی‘ فکری و عملی تحریک کا قلع قمع کر سکے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مثال لیں جنہوں نے ’نائن الیون‘ واقعات کے بعد اپنا عدالتی نظام یا ملک فوج کے حوالے نہیں کیا بلکہ سخت گیر قسم کی نئی قانون سازی کی گئی‘ دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل اس کی منصوبہ بندی یا اسے عملی جامہ پہنانے والوں کو انجام تک پہنچانے کے عمل میں ’سرمایہ کاری‘ کی گئی اور سب سے بڑھ کر وفاقی سطح پر خفیہ ادارے کی صلاحیت و کردار میں اضافہ کیاگیا۔ امریکہ میں دہشت گردی کچلنے کے لئے صرف سخت قوانین ہی نہیں بنائے گئے بلکہ اُن قوانین پر بلاامتیاز سختی سے عمل درآمد کیا گیا حتیٰ کہ خود حکومتی اہلکاروں اور سیاسی قیادت کی نجی زندگیاں تک ٹٹول لی گئیں۔ ہمارے ہاں پوری توجہ‘ پوری سوچ اور پورے کا پورا ’زور‘ اِس بات پر ہے کہ جانی ومالی نقصانات کا مؤجب بننے والوں سے ’تیزرفتار معاملہ‘ ہونا چاہئے!
کیا ہم غاروں میں ہونے والی منصوبہ بندی سے غافل رہنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم شہروں میں سہولت کار بن کر حساس دفاعی و دیگر اہداف کے بارے میں معلومات جمع کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے سے خائف ہیں؟ کیا ہم دہشت گردوں کو سفری اور قیام وطعام کی سہولیات فراہم کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم نے خود پر اِس درجے کا ’تجاہل عارفانہ‘ طاری کر رکھا ہے کہ جیسے ہمیں ’سبب‘ مسبب اور علت‘ کے بارے میں واقعی کچھ علم ہی نہیں؟
صوبائی وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی کے بقول ’’خیبرپختونخوا کی مختلف جیلوں میں 193سزائے موت کے منتظر ہیں۔‘‘ محکمہ داخلہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں یہ تعداد صرف ایک قیدی کے فرق سے کم ہے تاہم اِن قیدیوں میں 10 ایسے ہیں جنہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے سزائے موت دے رکھی ہے لیکن اُن کے ’بلیک وارنٹس‘ تاحال جاری نہیں ہوئے کیونکہ اِن سزائے موت پانے والوں نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ’رحم‘ کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت سزائیں پانے والوں سے ’رحم کی درخواست اور آخری ملاقات‘ کرنے کا حق واپس لے لیا جائے‘ جنہوں نے پوری قوم کو رلایا‘ اُن کو نشان عبرت بنانے اور لاوارث دفن کرنا ہوگا کیونکہ فیصلہ چاہے تیزرفتار طریق سے ہو یا روائتی (سست رفتار) عدالت کرے‘ اصل مسئلہ تو سزا پر ’عمل درآمد‘ کا ہے۔ فوجی عدالتیں بھی اگر سزائیں دیں‘ جنہیں قانون کے مطابق سپرئم کورٹ میں ’نظرثانی‘ کے لئے پیش کردیا جائے پھر رحم کی درخواست دائر کرنے کا مرحلہ ہو اور یوں مجرم کی بجائے سزا ملنے کا معاملہ لٹکا رہے تو بات نہیں بنے گی۔ پشاور کی سنٹرل جیل میں سات‘ ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل میں چار‘ ہری پوری کی سنٹرل جیل میں ایک سو چالیس‘ بنوں کی سنٹرل جیل میں سولہ‘ تیمرگڑھ سنٹرل جیل (ملاکنڈ) میں چوبیس اور مانسہرہ کی سینٹرل جیل میں ایک قیدی ’موت کی سزا‘ پا چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 22 جیلیں ہیں جن میں چار سنٹرل جیل‘ دس ڈسٹرکٹ جیل‘ آٹھ سب جیل اور جوڈیشل لاک اپس ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے سزائے موت پانے والے سب سے زیادہ قیدی ’ہری پور سنٹرل جیل‘ میں ہیں لیکن وہاں ’پھانسی گھاٹ‘ نہیں! جن جیلوں میں سزائے موت پانے والوں کو رکھا گیا ہے‘ اُن کی حفاظت کے لئے غیرمعمولی اخراجات الگ سے برداشت کرنا پڑتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے تمام قیدیوں کو کسی ایک جیل میں اکٹھا‘ الگ اور غیراعلانیہ طور پر رکھا جائے؟ قانونی تقاضے و مراحل بھی نظرثانی چاہتے ہیں‘ کسی ملزم کو جب عدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو وہ ہائی کورٹ اور بعدازاں سپرئم کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور اگر سپرئم کورٹ بھی سزا برقرار رکھے تو مجرم صدر پاکستان کے نام ’رحم کی درخواست‘ کے ذریعے اُس وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک صدر پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہ آئے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت سے سزائے موت پانے والے (والوں) کو فوراً پھانسی نہیں دی جاسکتی! اگرچہ موجودہ صورتحال میں اِس بات کے اِمکانات کم ہیں کہ صدر پاکستان سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں کو عمرقید سے تبدیل کر دیں لیکن ’ایوان صدر‘ کو کسی واضح فیصلے پر پہنچنے میں نجانے مزید کتنا وقت لگے گا؟ دہشت گردی سے نجات کی راہ میں حائل آئینی تقاضے اُور رکاوٹیں (سپیڈبریکرز) عبور کرنے میں ’عملی تیزرفتاری‘ نجانے کب دیکھنے کو ملے گی؟
کیا سیاست دان واجب الادأ ذمہ داریوں و فرائض کا بوجھ فوج پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ (خدانخواستہ) کسی دیگر بڑے سانحے (جس کی وہ خود ہی پیشنگوئی کر چکے ہیں) کے لئے اُنہیں موردالزام نہ ٹھہرایا جاسکے؟ کیا وجہ ہے کہ قومی سلامتی کو لاحق ہر خطرے کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں جیسی حیثیت دینے کے لئے پہلے سے مرتب اصلاحات پر غور نہیں کیا جاتا؟ پاک افغان سرحد پر آزادانہ آمدورفت روکنے اور سرحد پار ٹھکانوں میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا؟
دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والوں کے مقدمات کا فوری فیصلہ کرنے کے لئے جن عدالتوں کے قیام پر ’سیاسی قیادت نے اتفاق‘ کیا ہے ماہرین کے مطابق اس سے ’’خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لیکن اگر آئین کے آرٹیکل 245کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوج طلب کرلیتی ہیں تو یہ ’زیادہ مفید‘ اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘ درحقیقت مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کو آنسو رُلانے والوں کو فوری طور پر سزائیں نہیں ملتیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’’افرادی قابلیت و تکنیکی صلاحیت اور پیشہ ورانہ تربیت ومہارت‘‘ اِس قدر نہیں کہ وہ دہشت گردی جیسے پیچیدہ اساسی‘ نظریاتی‘ فکری و عملی تحریک کا قلع قمع کر سکے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی مثال لیں جنہوں نے ’نائن الیون‘ واقعات کے بعد اپنا عدالتی نظام یا ملک فوج کے حوالے نہیں کیا بلکہ سخت گیر قسم کی نئی قانون سازی کی گئی‘ دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے سے قبل اس کی منصوبہ بندی یا اسے عملی جامہ پہنانے والوں کو انجام تک پہنچانے کے عمل میں ’سرمایہ کاری‘ کی گئی اور سب سے بڑھ کر وفاقی سطح پر خفیہ ادارے کی صلاحیت و کردار میں اضافہ کیاگیا۔ امریکہ میں دہشت گردی کچلنے کے لئے صرف سخت قوانین ہی نہیں بنائے گئے بلکہ اُن قوانین پر بلاامتیاز سختی سے عمل درآمد کیا گیا حتیٰ کہ خود حکومتی اہلکاروں اور سیاسی قیادت کی نجی زندگیاں تک ٹٹول لی گئیں۔ ہمارے ہاں پوری توجہ‘ پوری سوچ اور پورے کا پورا ’زور‘ اِس بات پر ہے کہ جانی ومالی نقصانات کا مؤجب بننے والوں سے ’تیزرفتار معاملہ‘ ہونا چاہئے!
کیا ہم غاروں میں ہونے والی منصوبہ بندی سے غافل رہنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم شہروں میں سہولت کار بن کر حساس دفاعی و دیگر اہداف کے بارے میں معلومات جمع کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے سے خائف ہیں؟ کیا ہم دہشت گردوں کو سفری اور قیام وطعام کی سہولیات فراہم کرنے والوں کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتے؟ کیا ہم نے خود پر اِس درجے کا ’تجاہل عارفانہ‘ طاری کر رکھا ہے کہ جیسے ہمیں ’سبب‘ مسبب اور علت‘ کے بارے میں واقعی کچھ علم ہی نہیں؟
صوبائی وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی کے بقول ’’خیبرپختونخوا کی مختلف جیلوں میں 193سزائے موت کے منتظر ہیں۔‘‘ محکمہ داخلہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار میں یہ تعداد صرف ایک قیدی کے فرق سے کم ہے تاہم اِن قیدیوں میں 10 ایسے ہیں جنہیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے سزائے موت دے رکھی ہے لیکن اُن کے ’بلیک وارنٹس‘ تاحال جاری نہیں ہوئے کیونکہ اِن سزائے موت پانے والوں نے اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے ’رحم‘ کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت ’دہشت گردی‘ کے الزامات کے تحت سزائیں پانے والوں سے ’رحم کی درخواست اور آخری ملاقات‘ کرنے کا حق واپس لے لیا جائے‘ جنہوں نے پوری قوم کو رلایا‘ اُن کو نشان عبرت بنانے اور لاوارث دفن کرنا ہوگا کیونکہ فیصلہ چاہے تیزرفتار طریق سے ہو یا روائتی (سست رفتار) عدالت کرے‘ اصل مسئلہ تو سزا پر ’عمل درآمد‘ کا ہے۔ فوجی عدالتیں بھی اگر سزائیں دیں‘ جنہیں قانون کے مطابق سپرئم کورٹ میں ’نظرثانی‘ کے لئے پیش کردیا جائے پھر رحم کی درخواست دائر کرنے کا مرحلہ ہو اور یوں مجرم کی بجائے سزا ملنے کا معاملہ لٹکا رہے تو بات نہیں بنے گی۔ پشاور کی سنٹرل جیل میں سات‘ ڈیرہ اسماعیل خان کی سنٹرل جیل میں چار‘ ہری پوری کی سنٹرل جیل میں ایک سو چالیس‘ بنوں کی سنٹرل جیل میں سولہ‘ تیمرگڑھ سنٹرل جیل (ملاکنڈ) میں چوبیس اور مانسہرہ کی سینٹرل جیل میں ایک قیدی ’موت کی سزا‘ پا چکا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 22 جیلیں ہیں جن میں چار سنٹرل جیل‘ دس ڈسٹرکٹ جیل‘ آٹھ سب جیل اور جوڈیشل لاک اپس ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے سزائے موت پانے والے سب سے زیادہ قیدی ’ہری پور سنٹرل جیل‘ میں ہیں لیکن وہاں ’پھانسی گھاٹ‘ نہیں! جن جیلوں میں سزائے موت پانے والوں کو رکھا گیا ہے‘ اُن کی حفاظت کے لئے غیرمعمولی اخراجات الگ سے برداشت کرنا پڑتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے تمام قیدیوں کو کسی ایک جیل میں اکٹھا‘ الگ اور غیراعلانیہ طور پر رکھا جائے؟ قانونی تقاضے و مراحل بھی نظرثانی چاہتے ہیں‘ کسی ملزم کو جب عدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو وہ ہائی کورٹ اور بعدازاں سپرئم کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیتا ہے اور اگر سپرئم کورٹ بھی سزا برقرار رکھے تو مجرم صدر پاکستان کے نام ’رحم کی درخواست‘ کے ذریعے اُس وقت تک محفوظ رہتا ہے جب تک صدر پاکستان کی جانب سے کوئی جواب نہ آئے۔
سیدھی بات یہ ہے کہ عدالت سے سزائے موت پانے والے (والوں) کو فوراً پھانسی نہیں دی جاسکتی! اگرچہ موجودہ صورتحال میں اِس بات کے اِمکانات کم ہیں کہ صدر پاکستان سزائے موت پانے والوں کی سزاؤں کو عمرقید سے تبدیل کر دیں لیکن ’ایوان صدر‘ کو کسی واضح فیصلے پر پہنچنے میں نجانے مزید کتنا وقت لگے گا؟ دہشت گردی سے نجات کی راہ میں حائل آئینی تقاضے اُور رکاوٹیں (سپیڈبریکرز) عبور کرنے میں ’عملی تیزرفتاری‘ نجانے کب دیکھنے کو ملے گی؟
No comments:
Post a Comment