Wednesday, December 24, 2014

Dec2014: Remembering love-ones

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پیاروں کی یاد!
ایک ماں کا حوصلہ دیکھئے کہ ’’میں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کا دفن کیا ہے‘ روح کو نہیں۔‘‘ ایک باپ کی اُمید دیکھئے کہ ’’میرے لخت جگر کا خون کرنے والوں سے نرمی نہیں برتی جائے گی۔‘‘ ایک بہن چاہتی ہے کہ ’’اُس کے بھائی کی طرح کسی کا بھی اِیسا انجام نہ ہو۔‘‘ ایک بھائی کی خواہش ہے کہ اُس کے گھرانے کی ’’قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے۔‘‘ جہاں درس و تدریس سے وابستہ افراد پہلے سے زیادہ پرعزم دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ ’’علم کے نور سے ظلمت کے اندھیروں کو مٹانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔‘‘ جہاں گلی محلے اور عزیزواقارب کے لئے یہ ساعتیں ذاتی غم جیسی ہوں‘ جہاں کے رہنے والوں کو شہید ہونے والے ہر بچے میں اپنے لخت جگر کے خدوخال دکھائی دیتے ہوں۔ یہی جذبات و احساسات اور تشویش ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کی اکثریت میں بھی پائی جاتی ہے جو ’خاطرخواہ اقدامات و انتظامات‘ کی صورت ایک ایسی جامع حفاظتی حکمت عملی کا نفاذ چاہتے ہیں جس کے بعد ’’سانحہ پشاور جیسے واقعات پھر سے نہ دُہرائے جا سکیں۔‘‘ سولہ دسمبر سے ’آرمی پبلک سکول‘ کے طالب علموں کے جنازوں کو کندھا دینے والے ’اہل پشاور‘ کے حوصلے پست دکھائی نہیں دے رہے‘ وہ خود کو کمزور نہیں بلکہ متحد اور پہلے سے زیادہ توانا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ جس محاذ پر انہیں ’حالات‘ نے لاکھڑا کیا گیا ہے‘ اُن کا مقابلہ کرنے میں وہ نہ تو مصلحتوں کا شکار ہیں اور نہ ہی مزید کسی قربانی سے دریغ کی سوچ رکھتے ہیں۔ ایک ہی ہفتے میں ایک سو پچاس سے زائد قبریں کھودنے والے بھی خود پر تھکان غالب نہیں آنے دے رہے‘ کیونکہ جہاں مقصد اور جذبہ عظیم ہو وہاں موت اجسام کے لئے زندگی بن جاتی ہے۔ تیئس دسمبر کی شام ’محمد ابرار‘ کے جنازے میں شرکت کرنے والوں میں اُن بچوں کے والدین اور عزیزواقارب بھی شریک ہوئے‘ جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلے ہی روز شہید ہو گئے تھے۔ محمد ابرار چند روز تک ’کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ)‘ میں زیرعلاج رہا اور منگل (تئیس دسمبر) کی شام شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کے بعد سپردخاک کر دیا گیا! ’’تھی جس سے روشنی‘ وہ دیا بھی نہیں رہا: اب دل کو ’اعتبارِ ہوا‘ بھی نہیں رہا ۔۔۔ تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے: تو کھو گیا تو‘ اپنا پتہ بھی نہیں رہا۔‘‘ (اِعتبارساجد)۔
پیاروں کی یاد میں دُکھ کا اِظہار کرنے والوں کا اسلوب کہیں آنسو‘ آہیں اور سسکیاں ہیں تو کہیں الفاظ کے ذریعے دلی جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے تاہم چونکہ خیبرپختونخوا کے سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ’درسگاہوں میں بچوں کو نصاب کی کتب سے زیادہ جانب علم مائل نہیں کیا جاتا۔‘ مثال کے طور پر کتب بینی اور ڈائری (اپنی مصروفیات‘ سوچ یا گردوپیش ہونے والے واقعات کے حوالے سے یاداشتیں) لکھنے کی عملی طور پر ترغیب نہیں دی جاتی۔ ’بزم ادب‘کے نام سے سوسائٹیاں فعال نہیں کی جاتیں جن کی بدولت طلباء وطالبات میں اپنی ذات‘ سوچ اور محسوسات کو بیان کرنے کا سلیقہ و اسلوب آ جاتا ہے۔ شاید اِس کی بڑی وجہ یہ بھی ہو کہ ہمارے والدین کی اکثریت بچوں کو ڈاکٹر و انجنیئر (سائنسی علوم کا ماہر) بنانا چاہتی ہے جس کی وجہ سے علم و ہنر خصوصاً فنون لطیفہ سے اُن کا تعلق ماہ وسال (عمر) کے بڑھنے کے ساتھ کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہم بچوں کے خیالات اور اُن کے محسوسات جاننے سے خوفزدہ نہیں تو یقیناًاِس گھڑی ہمیں اپنے بچوں کو باقاعدگی سے ’ڈائری‘ لکھنے کی طرف مائل کرنا ہوگا۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے میں شہید ہونے والے ایک طالب علم اَرحم کے بڑے بھائی ’شہیرکی ڈائری‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجئے‘ جس کے جملوں سے ٹپکنے والی سنجیدگی اور بیان کی تہہ میں چھپا دکھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ’’میرے پیارے ارحم‘ اُس دن جب تم سکول جارہے تھے تو مجھے تمہارے چہرے پر پھیلی شناسا مسکراہٹ یاد ہے‘ تم ہر صبح کا خیرمقدم اِسی طرح ہشاش طبیعت سے کیا کرتے تھے۔ میں تمہاری اُس مسکراہٹ کو بہت یاد (miss) کرتا ہوں۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اُس دن (سولہ دسمبر) کی صبح جب تم ہمارے ساتھ گاڑی میں سکول جا رہے تھے۔ سفر کے دوران ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے تم میرے ساتھ نوک جوک کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے جب ابو نے گاڑی سکول کے سامنے روکی اور تم حسب معمول مستعدی (تیزی) سے اپنا بستہ (سکول بیگ) اُٹھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ تم توانائی سے بھرپور تھے۔ تم ہمیشہ دوسروں سے اچھا برتاؤ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ تمہیں ہم سب کی تاریخ پیدائش یاد ہوتی اور ہمیں ’برتھ ڈے‘ کی یاددہانی کے ساتھ ایک دن قبل ہی تحفہ دے کر مسرور و حیران کر دیا کرتے تھے۔ ہم سب بھی تمہیں یکساں چاہتے تھے۔ امی کہہ رہی تھیں کہ اُس آخری رات (سولہ دسمبر) سے قبل جب ہم سب سو گئے تو تم نے دبے پاؤں آ کر ہمیں دیکھا تھا۔ اُو میرے چھوٹے بھائی! تمہیں جو ویڈیو گیمز (141video games) پسند تھیں‘ آج میں وہی بار بار کھیل رہا ہو! میں تمہارے سکول کی اُس کلاس (جماعت) میں بھی گیا‘ جہاں تم پڑھتے تھے۔ وہاں خالی کرسیاں اور بستے (بیگ) پڑے ہوئے تھے۔ سکول انتظامیہ نے ہر بیگ پر اُس کے بچے کا نام (tag) لکھ کر لگا رکھا تھا۔ تمہاری ٹیچر رو پڑی جب اُس نے مجھے تمہارا نشست اور بیگ دکھایا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ تم اگلی قطار میں اُن کے بالکل سامنے والی نشست پر بیٹھا کرتے تھے۔ ارحم‘ وہ تم سے واقعی میں بہت پیار کرتی تھی۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کیونکہ اگرچہ وہ بہت رو چکی تھی لیکن غم سے نڈھال اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی قطاریں تمہارے ذکر پر پھر سے جاری ہو گئیں تھیں۔ ارحم! تم سے ہر کوئی پیار کرتا تھا کیونکہ تم بھی سب سے پیار کرتے تھے۔ میں جانتا ہوں‘ تم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے پاس ہو اور بہت خوش بھی ہو۔ میں ہر روز نماز پڑھنے کے بعد اللہ سے التجا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں میرے خواب میں آنے اور مجھ سے باتیں کرنے کی صرف ایک بار ہی اجازت عطا فرمائیں۔ صرف ایک ہی مرتبہ‘ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے بات کر لو۔ اگرچہ ہم سب جانتے ہیں کہ تم ٹھیک ہو لیکن امی‘ ابو اور ہم سب چاہتے ہیں کہ تم سے ایک مرتبہ بات ہو جائے۔ اچھا‘ تم جہاں بھی ہو‘ وہاں اپنے دوستوں کا خیال رکھنا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ جنت کا ماحول کتنا خوشگوار اور معطر ہوگا۔ میں تصور کرسکتا ہوں کہ تمہاری روشنی سے وہاں کا آسمان کتنا منور ہو گا۔ اپنا خیال رکھنا اَرحم (take care Arham) اور برائے مہربانی (please) مجھ سے خواب میں ایک مرتبہ ضرور ملنا۔ پلیز ایک مرتبہ۔ تم ایسا کرنے کی ایک مرتبہ کوشش تو کر ہی سکتے ہو؟ ہمیشہ کے لئے تمہارا بھائی‘ شہیر۔ ہاں یاد آیا‘ (PS): ’’تم نے انٹرنیٹ پر جو ویڈیو گیم ڈاؤن لوڈ (download) کرنے کے لئے لگائی تھی‘ وہ مکمل ڈاؤن لوڈ ہو چکی ہے!‘‘

No comments:

Post a Comment