ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سیکورٹی خدشات: الگ الگ تقاضے
سیکورٹی خدشات: الگ الگ تقاضے
پوری قوم ایک ’مشترکہ غم‘ سے گزر رہی ہے۔ سولہ دسمبر کے روز پشاور کے ایک
سکول پر حملے نے سیاسی وغیرسیاسی اور دفاعی ہی نہیں بلکہ اِجتماعی ’قومی
ترجیحات‘ کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ سارے مسائل ضمنی ہو گئے ہیں۔ توانائی سمیت
دیگر بحرانوں سے توجہ ہٹ گئی ہے اور یک زبان مطالبہ ہے کہ ’پاکستان کی
سلامتی کو لاحق داخلی خطرات سے مستقل بنیادوں پر نمٹا جائے۔‘ اس سلسلے میں
’’قومی سطح پر ’مشترکہ و متفقہ لائحہ عمل‘ کا اعلان ہونے والا ہے‘ جس سے
ایسے عملی اقدامات کی توقع رکھنے والے چاہتے ہیں کہ عام آدمی کو ’تحفظ‘
جبکہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کا احساس
ہو۔‘‘ ماضی کی طرح اب صرف دلاسہ دینے سے کام نہیں چلے گا اُور یہ بات ارباب
اختیار نے بھی سمجھ لی ہے کہ اُنہیں ذاتی و سیاسی مفادات و ترجیحات بالائے
طاق رکھتے ہوئے قوم کو ’مسلط عذاب‘ سے نجات دلانا ہوگی۔ آخر دنیا کے کس
ملک کی ایک سے زیادہ سرحدیں ہیں؟ ہماری ایک سرحد افغانستان سے ہے۔ دوسری
سرحد افغانستان سے متصل قبائلی علاقوں کے درمیان اور تیسری سرحد قبائلی و
بندوبستی علاقوں کے درمیان ہے!
صوبائی دارالحکومت پشاور تین اطراف سے قبائلی و نیم علاقوں میں ’پھنسا‘ ہوا ہے‘ اِس کے علاؤہ ’رنگ روڈ و چارسدہ روڈ‘ کے کئی علاقے ’نوگو ایریاز‘ بن چکے ہیں جہاں کے لئے ’امن لشکر‘ ترتیب دیئے گئے۔ ’کیمونٹی پولیسنگ‘ کا تجربہ ہوا لیکن صورتحال جوں کی توں کشیدہ اور پولیس کے بس میں نہیں۔ سولہ دسمبر سانحے کے بعد صوبائی کابینہ کے غیرمعمولی اجلاس نے خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ کو اختیار دیا کہ اگر وہ ضروری سمجھتے ہیں تو پانچ سے چھ سو جوانوں پر مشتمل خصوصی دستہ تشکیل دیں جو مخصوص اہداف کے خلاف ’چھاپہ مار کارروائیاں‘ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ اِس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ ’’فوج کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ کمانڈوز (اِسپیشل سروسیز گروپ ’اَیس اَیس جی)‘‘ کی خدمات حاصل کی جائیں جنہیں پچاس پچاس اَفراد کے دستے میں تقسیم کرکے ’سرچ اَینڈ کلیئر مشنز‘ سونپنے سے بہتر نتائج حاصل ہونے کے روشن اِمکانات ہیں۔ اِن خصوصی دستوں کو یہ اِختیار (مینڈیٹ) بھی حاصل ہونا چاہئے کہ ’’وہ بندوبستی و قبائلی علاقوں میں یکساں کارروائیاں کر سکیں۔‘‘ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ نے جس طرح اِجتماعی اَنداز میں اَپنی ذمہ داری کا اِحساس کرتے ہوئے ’اَمن وامان کی صورتحال‘ پر غوروخوض اور مشاورت کی ہے‘ بالکل اِسی طرح کی دردمندی کا مظاہرہ منتخب اَراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں کرنا ہوگا۔
سول سوسائٹی کے جملہ اَراکین بشمول علاقائی ذرائع ابلاغ کو مشاورتی عمل میں شریک کر کے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں درپیش مختلف نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک ضلع میں امن وامان کی صورتحال دوسرے ضلع جیسی نہیں اور نہ ہی کسی ایک علاقے میں امن وامان کے حوالے سے ضروریات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ الگ الگ تقاضوں کے لئے الگ الگ حکمت عملیاں اِختیار کئے بناء چارہ نہیں۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو ’بلاوجہ اور بلاضرورت ایسی بیان بازی‘ سے گریز کرنا چاہئے‘ جس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اُور اُن کی خالی نگاہیں اور اُنگلیاں صوبے سے مرکز یا مرکز سے صوبے کی جانب اُٹھ رہی ہیں۔
بائیس دسمبر کو تحریک انصاف کے سربراہ پشاور پہنچے‘ انتہائی کم سیکورٹی میں سفر کیا اور ’آرمی پبلک سکول‘ سے تعلق رکھنے والے غم زدہ خاندانوں سے ملاقات کے بعد تین مطالبات دہرائے ’’وفاقی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے خیبرپختونخوا کو خصوصی مالی وسائل دے۔ فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) اہلکار واپس کئے جائیں اُور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے سہولیات جبکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست کیا جائے کیونکہ اندیشہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت وہ دہشت گردی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘ اِن مطالبات کے حوالے سے وفاقی حکومت کی وضاحت آچکی ہے۔ پہلی بات تو ’ایف سی‘ سے متعلق ہے جس کی کل پانچ سو پلاٹون میں سے دو سو ساٹھ خیبرپختونخوا کے پاس جبکہ ایک سو سینتیس ملک گیر سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور 80پلاٹون کی خدمات اہم تنصیبات و شخصیات کی حفاظت کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسری بات خصوصی مالی وسائل کی ہے تو وفاقی حکومت اعلان کر چکی ہے کہ خیبرپختونخوا کو 26ارب روپے دیئے جائیں گے جبکہ وفاقی خزانے سے نقل مکانی کرنے والوں کو سہولیات کی فراہمی پر اب تک 30ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں!
اُنیس دسمبر کو ہوئے خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ ’افغان مہاجرین کی وطن واپسی‘ کے حوالے سے تجویز پر کسی نے مخالفت نہیں کی بلکہ اراکین کی ایک تعداد تو ایسی بھی تھی‘جس نے خیبرپختونخوا کے وسائل پر افغان مہاجرین کا بوجھ فوری طورپر کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاہم بعدازمشاورت‘ غوروخوض اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اِختیار کرتے ہوئے ’ایک ماہ‘ کی مہلت دی گئی۔ صوبائی وزیراطلاعات مشتاق اَحمد غنی کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت اُن سبھی معاہدوں کی پابند ہے جو وفاقی حکومت نے کر رکھے ہیں اور اگر کسی عالمی معاہدے کے تحت افغان مہاجرین کی ’فوری وطن واپسی‘ ممکن نہیں تو خیبرپختونخوا مہاجرین کی نقل و حرکت شہروں یا مقامی آبادیوں سے الگ خیمہ بستیوں تک محدود کر سکتی ہے۔‘‘
خوش آئند ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کابینہ اِس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں‘ جس کی بنیاد پر اُنہوں نے بینک کھاتے (اَکاونٹس) کھول رکھے ہیں اُور کاروبار و جائیدادوں کے مالک ہیں۔ پشاور میں گھروں و جائیداد کے کرائے اور قیمتوں کی آسمان سے باتیں کرنے کی ایک وجہ اَفغان مہاجرین اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہیں‘ جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں۔ اَلمیہ ہے کہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی آمدنی‘ جمع پونجی کی حقیقت اور اِس تناسب سے اَدا کئے گئے‘ ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرے۔ مضحکہ خیز ہے کہ ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بندوبستی علاقوں میں جائیدادیں خریدنے اور اپنے کاروبار پھیلانے کی کھلی چھوٹ ہے‘ یہ کھلی چھوٹ دینے والے کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی مٹھیاں گرم کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں ہوں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ مشکوک قومی شناختی کارڈوں کی اَزسرنو جانچ اور اُن تصدیقی مراحل کی سائنسی و طبی طریقوں سے پڑتال کی جائے۔ پاکستان کی ’قومی شناخت برائے فروخت‘ بنانے والوں کا بھی کڑا و لازمی اِحتساب ہونا چاہئے‘ جن کی لالچ و حرص نے ملک کو داخلی خطرات سے دوچار کر دیا ہے!
صوبائی دارالحکومت پشاور تین اطراف سے قبائلی و نیم علاقوں میں ’پھنسا‘ ہوا ہے‘ اِس کے علاؤہ ’رنگ روڈ و چارسدہ روڈ‘ کے کئی علاقے ’نوگو ایریاز‘ بن چکے ہیں جہاں کے لئے ’امن لشکر‘ ترتیب دیئے گئے۔ ’کیمونٹی پولیسنگ‘ کا تجربہ ہوا لیکن صورتحال جوں کی توں کشیدہ اور پولیس کے بس میں نہیں۔ سولہ دسمبر سانحے کے بعد صوبائی کابینہ کے غیرمعمولی اجلاس نے خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ کو اختیار دیا کہ اگر وہ ضروری سمجھتے ہیں تو پانچ سے چھ سو جوانوں پر مشتمل خصوصی دستہ تشکیل دیں جو مخصوص اہداف کے خلاف ’چھاپہ مار کارروائیاں‘ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ اِس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ ’’فوج کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ کمانڈوز (اِسپیشل سروسیز گروپ ’اَیس اَیس جی)‘‘ کی خدمات حاصل کی جائیں جنہیں پچاس پچاس اَفراد کے دستے میں تقسیم کرکے ’سرچ اَینڈ کلیئر مشنز‘ سونپنے سے بہتر نتائج حاصل ہونے کے روشن اِمکانات ہیں۔ اِن خصوصی دستوں کو یہ اِختیار (مینڈیٹ) بھی حاصل ہونا چاہئے کہ ’’وہ بندوبستی و قبائلی علاقوں میں یکساں کارروائیاں کر سکیں۔‘‘ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ نے جس طرح اِجتماعی اَنداز میں اَپنی ذمہ داری کا اِحساس کرتے ہوئے ’اَمن وامان کی صورتحال‘ پر غوروخوض اور مشاورت کی ہے‘ بالکل اِسی طرح کی دردمندی کا مظاہرہ منتخب اَراکین صوبائی و قومی اسمبلی کو اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں کرنا ہوگا۔
سول سوسائٹی کے جملہ اَراکین بشمول علاقائی ذرائع ابلاغ کو مشاورتی عمل میں شریک کر کے خیبرپختونخوا کے ہر ضلع میں درپیش مختلف نوعیت کے سیکورٹی چیلنجز سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک ضلع میں امن وامان کی صورتحال دوسرے ضلع جیسی نہیں اور نہ ہی کسی ایک علاقے میں امن وامان کے حوالے سے ضروریات ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ الگ الگ تقاضوں کے لئے الگ الگ حکمت عملیاں اِختیار کئے بناء چارہ نہیں۔ توجہ طلب امر یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو ’بلاوجہ اور بلاضرورت ایسی بیان بازی‘ سے گریز کرنا چاہئے‘ جس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اُور اُن کی خالی نگاہیں اور اُنگلیاں صوبے سے مرکز یا مرکز سے صوبے کی جانب اُٹھ رہی ہیں۔
بائیس دسمبر کو تحریک انصاف کے سربراہ پشاور پہنچے‘ انتہائی کم سیکورٹی میں سفر کیا اور ’آرمی پبلک سکول‘ سے تعلق رکھنے والے غم زدہ خاندانوں سے ملاقات کے بعد تین مطالبات دہرائے ’’وفاقی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے خیبرپختونخوا کو خصوصی مالی وسائل دے۔ فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) اہلکار واپس کئے جائیں اُور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کے لئے سہولیات جبکہ نوجوانوں کے لئے روزگار کا بندوبست کیا جائے کیونکہ اندیشہ ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت وہ دہشت گردی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔‘‘ اِن مطالبات کے حوالے سے وفاقی حکومت کی وضاحت آچکی ہے۔ پہلی بات تو ’ایف سی‘ سے متعلق ہے جس کی کل پانچ سو پلاٹون میں سے دو سو ساٹھ خیبرپختونخوا کے پاس جبکہ ایک سو سینتیس ملک گیر سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور 80پلاٹون کی خدمات اہم تنصیبات و شخصیات کی حفاظت کے لئے مخصوص ہیں۔ دوسری بات خصوصی مالی وسائل کی ہے تو وفاقی حکومت اعلان کر چکی ہے کہ خیبرپختونخوا کو 26ارب روپے دیئے جائیں گے جبکہ وفاقی خزانے سے نقل مکانی کرنے والوں کو سہولیات کی فراہمی پر اب تک 30ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں!
اُنیس دسمبر کو ہوئے خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ ’افغان مہاجرین کی وطن واپسی‘ کے حوالے سے تجویز پر کسی نے مخالفت نہیں کی بلکہ اراکین کی ایک تعداد تو ایسی بھی تھی‘جس نے خیبرپختونخوا کے وسائل پر افغان مہاجرین کا بوجھ فوری طورپر کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاہم بعدازمشاورت‘ غوروخوض اور لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک درمیانی راستہ اِختیار کرتے ہوئے ’ایک ماہ‘ کی مہلت دی گئی۔ صوبائی وزیراطلاعات مشتاق اَحمد غنی کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت اُن سبھی معاہدوں کی پابند ہے جو وفاقی حکومت نے کر رکھے ہیں اور اگر کسی عالمی معاہدے کے تحت افغان مہاجرین کی ’فوری وطن واپسی‘ ممکن نہیں تو خیبرپختونخوا مہاجرین کی نقل و حرکت شہروں یا مقامی آبادیوں سے الگ خیمہ بستیوں تک محدود کر سکتی ہے۔‘‘
خوش آئند ہے کہ ’’خیبرپختونخوا کابینہ اِس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ افغان مہاجرین نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈز حاصل کر رکھے ہیں‘ جس کی بنیاد پر اُنہوں نے بینک کھاتے (اَکاونٹس) کھول رکھے ہیں اُور کاروبار و جائیدادوں کے مالک ہیں۔ پشاور میں گھروں و جائیداد کے کرائے اور قیمتوں کی آسمان سے باتیں کرنے کی ایک وجہ اَفغان مہاجرین اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے ہیں‘ جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں۔ اَلمیہ ہے کہ کروڑوں روپے کی جائیدادیں خریدنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی آمدنی‘ جمع پونجی کی حقیقت اور اِس تناسب سے اَدا کئے گئے‘ ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرے۔ مضحکہ خیز ہے کہ ٹیکس اَدا نہ کرنے والوں کو بندوبستی علاقوں میں جائیدادیں خریدنے اور اپنے کاروبار پھیلانے کی کھلی چھوٹ ہے‘ یہ کھلی چھوٹ دینے والے کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی مٹھیاں گرم کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں ہوں۔ ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ مشکوک قومی شناختی کارڈوں کی اَزسرنو جانچ اور اُن تصدیقی مراحل کی سائنسی و طبی طریقوں سے پڑتال کی جائے۔ پاکستان کی ’قومی شناخت برائے فروخت‘ بنانے والوں کا بھی کڑا و لازمی اِحتساب ہونا چاہئے‘ جن کی لالچ و حرص نے ملک کو داخلی خطرات سے دوچار کر دیا ہے!
No comments:
Post a Comment