Monday, December 22, 2014

Dec2014: Not sufficient security measures

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
حفاظتی انتظامات: نمائش ہی نمائش!
خیبرپختونخوا پولیس کو نئی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ گھر گھر جاکر رہائش پذیر خاندانوں کی تصدیق کرے اور جہاں کہیں بھی جائیداد کرائے یا کسی معاہدے کے تحت مالک کے زیراستعمال نہ ہو‘ تو ایسے تمام یونٹس کے کوائف مرتب کئے جاسکیں۔ درحقیقت تصدیق کا یہ پورا عمل ’خیبرپختونخوا کے ایک قانون کی اطلاقی شکل‘ ہے جسے منظور کرنے کا سہرا ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے سرجاتا ہے۔ ممکنہ دہشت گردی سے نمٹنے اور شہری و دیہی علاقوں میں روپوش ہونے والے سماج دشمن عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں اور ٹھکانے تلاش کرنے اور جائیداد کے مالکان کو کرائے داروں کے کوائف متعلقہ تھانہ جات میں جمع کرانے کی ہدایات ماضی میں بھی کئی مرتبہ دی جا چکی ہیں لیکن اس قانون پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہوا۔ اگر کسی کرائے والی جائیداد کے استعمال اور حیثیت کے بارے میں متعلقہ تھانے کو کوائف فراہم نہیں کئے جاتے تو یہ انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ناقابل ضمانت جرم ہے لیکن کیا دہشت گرد اتنے غریب ہو چکے ہیں کہ اُن کی اکثریت کرائے کے گھروں ہی میں مقیم ہوگی۔ اگر قانون سازی کے ذریعے حکومت نے ایک بے قاعدگی ختم کرنے کی کوشش کی ہے تو اس سے دوسری بلکہ زیادہ حساس و خطرناک نوعیت کی بے قاعدگی کی جانب دھیان نہیں دیا جارہا اور وہ یہ ہے کہ ’’جائیداد کے خریدار اِسے اپنے نام منتقل (رجسٹری) نہیں کرتے اور مختار ناموں پر جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں۔‘‘ اِس قانونی رعائت کا فائدہ دو قسم کے طبقات اُٹھا رہے ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جن کی آمدنی کے ذرائع مشکوک ہیں اور وہ جائیدادیں خرید تو رہے ہیں لیکن انہیں اپنے نام منتقل نہیں کرتے بلکہ جائیداد کسی نہ کسی مالک کے نام پر ہی رہتی ہے اور وہ صرف مختار نامے پر دستخط کروا کر قبضہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اِس قسم کا کاروبار کرنے والے ’عام لوگ‘ نہیں بلکہ تھانے اور کچہری کے معاملات سے آگاہ ہونے کے ساتھ اُن کے پاس ایسے افراد کے گروہ بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف کمزور لوگوں کی جائیدادیں قبضہ کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتے اور ایسی جائیدادیں قبضہ کرنے کے بعد اُونے پونے داموں خرید لیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کو بذریعہ قانون سازی توجہ دینا ہوگی کہ جائیداد کا ’مختار نامہ‘ صرف اور صرف ایک ماہ (چار ہفتوں) ہی کے لئے کارآمد ہو۔ شہری و دیہی علاقوں میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے والے ’سہولت کاروں‘ کی جانب سے تاحال توجہ نہیں دی جارہی جو قانون کی ناک کے نیچے نظروں سے اُوجھل ہیں۔

جائیدادوں کے کوائف جمع کرنے کے لئے اختیار کردہ طریقہ کار انتہائی غیرسنجیدہ اور غیرسائنسی ہے۔ پولیس کی ٹیمیں کسی محلے‘ کالونی یا علاقے میں جا کر گھر گھر دستک دیتی ہیں اور چونکہ یہ کام اُن اوقات میں کیا جاتا ہے جبکہ گھر کے مرد کاروبار یا ملازمت کے سلسلے میں گھر پر نہیں ہوتے اِس لئے خواتین سے نام اور موبائل نمبر پوچھ کر ’خانہ پُری‘ کر لی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں google map جیسی مفت سہولت اور gps جیسے آلات کا استعمال کیا جائے تو نہ صرف ’خانہ شماری‘ زیادہ پرمعنی اورجامع ہو سکے گی بلکہ کسی علاقے میں بننے والے نئے مکانات یا چاردیواریوں سے متعلق بھی سال بہ سال رپورٹ بنانا ممکن ہوگی۔ اس کے علاؤہ متعلقہ تھانہ ہر گھر‘ دکان‘ ہوٹل‘ فلیٹ‘ پلازے‘ مارکیٹ یا کسی بھی چاردیواری (یونٹ) کو الگ شناختی نمبر دے سکے گا اور اگر سروے کرنے والا پولیس عملہ تبدیل بھی ہو جائے تو نئے آنے والوں کو ماضی میں کئے گئے سروے کو سمجھنا آسان ہوگا۔ ٹیکنالوجی کو اختیار کئے بناء چارہ نہیں اور المیہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز ٹیکنالوجی کے استعمال سے خائف رہتے ہیں۔

گھر گھر کوائف جمع کرنے کی مہم کے دوران موبائل فون سموں کی جانچ پڑتال بھی ممکن ہے جبکہ بائیومیٹرکس کے ذریعے خاندان کے سربراہ اور دیگر اراکین کے انگوٹھوں کے نشانات بھی لئے جا سکتے ہیں۔ اِس عمل سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہے جنہوں نے ’کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی)‘ حاصل نہیں کررکھے اور اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پر اُنہوں کون کون سی دیگر دستاویزات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔ علاؤہ ازیں اگر جعلی دستاویزات پر افغان مہاجرین نے شناختی کارڈز حاصل کر بھی رکھے ہیں‘ تو ان کے کوائف کی ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سے تصدیق کرائی جا سکتی ہے یعنی ایک تیر سے دوشکار ممکن ہیں۔

موبائل فون کے ذریعے ہر ایک شناختی کارڈ پر جاری ہونے والے فون کنکشنز کی تعداد‘ نمبروں اور دیگر کوائف کی تصدیق کہیں سے بھی کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس کے لئے ٹیکنالوجی کے اپنانے اور اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اَفغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے ساتھ بہت سا ایسا الیکٹرانک سازوسامان مارکیٹ میں دستیاب ہے‘ جو حساس نوعیت کے ہیں اور دہشت گرد وارداتوں کی منصوبہ بندی میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ جیسا کہ ’فون سگنلز منقطع (جام)‘ کرنے کے آلات‘ اَندھیرے یا کم روشنی میں دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی دوربینیں‘ فوجی مقاصد کے لئے تیار کی گئیں GPS ڈیوائسیز‘ وی ایچ ایف اور جی ایس ایم فریکونسی پر کام کرنے والے وائرلیس آلات‘ گیس ماسک‘ بلٹ پروف جیکٹس اور فوجی وردیاں وغیرہ۔ ایسی بہت سی دیگر چیزیں بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن کا ذکر یہاں نہیں کیا جارہا لیکن اُن کی کھلے عام فروخت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کرنے والے آلات کی کھلے عام فروخت اور گھر بیٹھے ایسی مصنوعات چند ہزار روپے کے عوض خریداری اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے عزم تو کر رکھا ہے لیکن عملی طور پر جذباتی و نمائشی اقدامات سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے۔

No comments:

Post a Comment