Sunday, December 21, 2014

Dec2014: Cell phones and security

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
سیکورٹی خدشات: موبائل فون
خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات مشتاق احمد غنی کے بقول صوبائی کابینہ (مراد حکومت) نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’غیرقانونی موبائل فون کنکشنز بالخصوص افغانستان سے جاری کردہ موبائل فون سموں (SIMs) کے پاکستان میں استعمال (roaming) پر فوری پابندی عائد کی جائے۔‘‘ یہ مطالبہ اُن ایک درجن سے زائد مطالبات کا حصہ ہے جو سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پشاور پر ہوئے حملے کے بعد سرکاری طور پر سرکار ہی سے کئے گئے۔ صوبائی کابینہ کے غیرمعمولی اور ہنگامی اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر غوروخوض کے دوران ’افغان فون سموں‘ کی طرح ’افغان مہاجرین‘ کی وطن واپسی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا‘ بقول وزیراطلاعات ’’خیبرپختونخوا کے وسائل پر پندرہ لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ مزید برداشت کرنے کا جواز باقی نہیں رہا کیونکہ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے دس لاکھ سے زائد افراد بھی خیبرپختونخوا ہی میں قیام پذیر ہیں۔ ہم مطالبہ کر چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں کی الگ آئینی حیثیت ختم کرکے اسے یا تو بندوبستی علاقوں کا حصہ بنایا جائے یا پھر اِسے الگ صوبہ بنا دیا جائے کیونکہ قبائلی علاقوں سے متصل بندوبستی علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی جملہ کوششیں اُس وقت تک ادھوری ثابت ہوں گی‘ جب تک قبائلی علاقوں کا الگ حیثیت سے وجود باقی رکھا جائے گا۔‘‘

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو ورثے میں ملنے والے کئی ایک مسائل ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی شدت دوسرے سے زیادہ ہے۔ یوں تو قبائلی علاقے وفاقی حکومت کی براہ راست نگرانی میں آتے ہیں لیکن جہاں تک نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کی ضروریات کا تعلق ہے تو یہ ذمہ داری غیراعلانیہ طور پر صوبائی حکومت پر ڈال دی گئی ہے۔ وفاق کے پاس قبائلی علاقوں کے لئے الگ سے مالی وسائل ہوتے ہیں‘ جنہیں صوبائی حکومت کو منتقل نہ کرنے کے باعث خیبرپختونخوا کے خزانے پر بوجھ اب ناقابل برداشت حدوں کو چھو رہا ہے۔ صوبے میں ترقی کا عمل سست رفتار ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مالی وسائل دیگر ترجیحات کی نذر ہو رہے ہیں لیکن اس پورے منظرنامے میں سب سے اہم بات ’امن و امان‘ کی غیریقینی صورتحال کو معمول پر لانے کی ہے‘ جس کے لئے جملہ خطرات بشمول ’افغان سم‘ اور ’افغان مہاجرین‘ سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔

پشاور کے ایک تعلیمی ادارے پر حملہ کرنے والوں نے مجموعی طورپر گیارہ موبائل فون سمز اِستعمال کیں‘ جن میں سے ایک ’سم‘ ایسی بھی تھی جو میلوں دور رہنے والی خاتون کے نام جاری (رجسٹر) کی گئی تھی‘قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ’کمال مستعدی‘ سے خاتون اور اُس کے اہل خانہ کو شامل تفتیش تو کرلیا ہے لیکن ’انجان ناموں‘ پر موبائل فون کنکشن جاری کرنے کے ’دھندے‘ پر تاحال ہاتھ نہیں ڈالا۔ کیا دہشت گرد بیوقوف ہیں جو اپنے اصل ناموں اور کوائف سے موبائل فون کنکشن حاصل کرنے کے بعد اُنہی موبائل کنکشنوں کا استعمال ایسی وارداتوں کے لئے کریں‘ جن کی سنگینی کا اُنہیں بخوبی اندازہ ہے! جس ملک میں موبائل فون کمپنیوں کو محض اپنے منافع میں غرض ہو‘ جہاں ملٹی نیشنل (غیرملکی) موبائل فون کمپنیوں کے لئے قواعد و ضوابط اور انہیں پاکستان کے داخلی قوانین کا پابند بنانے کے لئے ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن اتھارٹی‘ نامی ادارہ تو موجود ہو لیکن اس کے باوجود جملہ قواعد وضوابط اور قوانین پر عمل درآمد کرنے کی عملی مثالیں نہ پائی جائیں‘ جہاں عدالت کے احکامات خاطر میں نہ لائے جائیں‘ جہاں قوانین میں موجود گنجائش اور رعائت کا فائدہ اُٹھانے کے لئے بھاری فیسوں کے عوض وکلاء کی خدمات سے استفادہ کرنے کی روایت موجود ہو‘ جہاں کے سیاسی و افسرشاہی کرداروں میں یہ رجحان پایا جائے کہ وہ (اِجتماعی طور پر) معاشرے کے لئے خطرات بننے والے محرکات کو محض ذاتی مفاد کے لئے نظراَنداز کردیں‘ جہاں غلط کوائف پر ’موبائل کنکشن‘ حاصل کرنا ’ناممکن‘ نہ رہا ہو‘ جہاں ’بائیو میٹرکس (انگوٹھے کے ذریعے) تصدیق کا نظام تو لازمی قرار دیا جا چکا ہولیکن ہر موبائل فون کنکشن کی ’ازسرنو تصدیق‘ کرانے کو ضروری نہ سمجھا جائے‘ جہاں تعلیمی اِدارے تو ہفتوں اور مہینوں بند کئے جا سکتے ہوں لیکن سیکورٹی کے لئے (یکساں طور پر زیادہ بڑے خطرے یعنی) موبائل فون کے کنکشنوں کو ایک دن کے لئے بھی بند کرنے اور ہر کنکشن کی ’اَزسرنو تصدیق و اجرأ‘ جیسی تجویز کو ناقابل عمل نہ سمجھا جائے وہاں رسمی اِقدامات و انتظامات سے دہشت گردی جیسی منظم و پیچیدہ فکری‘ نظریاتی اور عملی تحریک کو شکست دینا ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔

پہلا منظرنامہ: پشاور کے ’تبلیغی مرکز‘ میں بم دھماکہ ہوا لیکن عمارت کے ایک حصے میں ’jammers‘ نصب ہونے کی وجہ سے دو عدد بم نہ پھٹ سکے۔ جب بم ناکارہ بنانے والے دستے نے بارودی مواد کو الیکٹرانک نظام سے الگ کیا تو معلوم ہوا کہ دو بموں پر 4 موبائل سمیں نصب تھیں اور نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جو ایک دھماکہ ہوا‘ اُس میں بھی موبائل سم ہی استعمال کی گئی ہو گی۔ یہ چاروں سمیں فعال (active) تھیں اور جعلی ناموں پر رجسٹرڈ پائی گئیں!

دوسرا منظرنامہ: 
پاکستان کے ایک موبائل نمبر سے کینیڈا کے صدر کو دھمکی آمیز فون کال کے بارے میں بھی تحقیقات سے یہی علم ہوا کہ وہ جعلی نام پر رجسٹرڈ تھی۔ تیسرا منظرنامہ: سولہ دسمبر کے سکول حملے سے کم و بیش ڈیڑھ برس قبل ’پشاور ہائی کورٹ‘ نے اِن غیرقانونی موبائل کنکشنوں کے بارے ’ازخودنوٹس (سوموٹو)‘ لیا تھا لیکن اٹھارہ ماہ میں دو چیف جسٹس بدل گئے اور سماعت خاطرخواہ منطقی نتیجے تک پہنچے بغیر جاری ہے! چوتھا منظرنامہ: جہاں ہر جرم میں ’غیرقانونی موبائل فون کنکشن‘ استعمال ہو رہا ہو‘ جہاں کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے مرتب کردہ اعدادوشمار یہ کہہ رہے ہوں کہ سات ہزار بم دھماکوں میں چار ہزار سے زائد دھماکے موبائل فون کنکشنوں کے ذریعے کئے گئے ہوں‘ وہاں یہ طرز عمل‘ یہ ’تجاہل عارفانہ‘ تعمیری نہیں بلکہ تخریبی سوچ کا عکاس ہے۔ کاش حب الوطنی کی تلقین اور اسے آئینی طورپر لازمی قرار دینے والے اپنے قول و فعل اور موبائل فون کمپنیوں کی حرص و طمع کا جائزہ لیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں موبائل فون‘ جائیداد اور گاڑیوں کی اپنے نام منتقلی کی بجائے دوسروں کے ناموں پر رجسٹرڈ کرکے استعمال کرنے کے (آئینی) امکانات موجود ہیں؟ ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں ’مختار نامہ‘ کے ذریعے جائیداد و گاڑی کی ملکیت رکھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا وقت دیا جائے اور اگر وہ اِس عرصے میں جائیداد یا گاڑی اپنے نام منتقل نہ کریں تو مختارنامہ ازخود منسوخ قرار دے دیا جائے۔ غیرقانونی ذرائع سے مالی وسائل حاصل کرنے والے جائیداد مختار ناموں کے ذریعے اپنی ملکیت میں رکھتے ہیں اور مختار ناموں ہی کے ذریعے خریدوفروخت کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ لامتناہی مدت تک مختارنامہ رکھنے کی قانونی اجازت موجود ہے۔ کیا اِس قانونی رعائت اور ’جائز‘ بے قاعدگی کا خاتمہ نہیں ہونا چاہئے؟

No comments:

Post a Comment