ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بیداری بہ طرز اَفراتفری!
بیداری بہ طرز اَفراتفری!
محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کی جانب سے وضاحت سامنے آئی ہے کہ ’آرمی پبلک
سکول‘ پر ممکنہ دہشت گردی کے حملے سے متعلق موصول ہونے والی خفیہ اِداروں
کی اِطلاعات پر مذکورہ سکول سمیت سبھی تعلیمی اِداروں کو غیرمعمولی حفاظتی
انتظامات کرنے سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ
نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کی حفاظت کس طرح ممکن بنائی جاسکتی ہے جبکہ
وہاں ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور سینکڑوں کی تعداد میں نجی گاڑیوں کی ہر
روز آمدورفت ہوتی ہو؟ ایسے سکول بھی ہیں جن کے اندر ہاسٹلز (رہائشگاہوں)
میں طلباء وطالبات کل وقتی طور پر مقیم رہتے ہیں جبکہ مقامی بچے (ڈے بوڈرز)
درسگاہوں کے مقررہ اُوقات میں سہولیات سے الگ استفادہ کرتے ہیں اور اِس
قدر پرہجوم ماحول میں ہر آنے جانے والے پر نظر رکھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
کیونکہ ابھی سائنس نے اس حد تک ترقی نہیں کی اور ایسے الیکٹرانک آلات ایجاد
نہیں ہوئے‘ جو ’انسانی نیت‘ بھانپ سکیں‘ اِس لئے ہر کس و ناکس کو شک کی
نگاہ سے دیکھنے بناء چارہ نہیں۔
کیا ہمارے اَرباب اِختیار جاگ اُٹھے ہیں یا اَفراتفری کا شکار ہیں؟ نیا حکمنامہ سامنے آیا ہے کہ اب کے بعد‘ کسی بھی درجے کا سکول کھولنے کے لئے ضلعی انتظامیہ سے ’اِجازت نامہ (این اُو سی)‘ حاصل کرنے کو لازمی قرار دیاگیا ہے لیکن اگر یہی کام متعلقہ بورڈز کی سطح پر ’ایجوکیشن ریگولیٹری اِتھارٹی‘ کے سپرد کر دیا جاتا‘ جو پہلے ہی اُن کے دائرہ اختیار میں ہے اور قواعد کی رو سے اِس ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ ہی کو یہ کام کرنا چاہئے۔ قابل افسوس ہے کہ ہمارے ہاں سکول پہلے قائم ہوتا ہے اور اجازت نامہ بعد میں حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور ہی میں ایسے درجنوں سکول ہیں جن کے پاس اجازت نامے نہیں لیکن وہ گلی گلی فعال ہیں۔ کسی سکول کے قیام کے لئے کم از کم کمروں کی شرط اور دیگر ضروری بنیادی سہولیات کے ساتھ تدریسی عملے کی تنخواہوں اور تعلیمی قابلیت سے متعلق قواعد بھی عملی اطلاق چاہتے ہیں۔ عمومی رویہ یہی ہے کہ شہر کے کم آمدنی والے علاقوں میں قائم سکول چند ہزار روپے کے عوض خواتین معلمات کی خدمات حاصل کرکے دکانیں کھولے بیٹھے ہیں اور ایسے غیرمعیاری تعلیمی اداروں نے تو اپنی ایک عدد یونین بھی بنا رکھی ہے! سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے۔ تعلیمی ادارے ’مشرومز‘ کی طرح ’خودرو جھاڑیوں‘ جیسے ہیں‘ جن پر پھل پھولوں سے زیادہ خار دکھائی دے رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کے سانحے کے بعد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ گلی گلی اور محلے محلے فعال نجی تعلیمی اداروں کو کم سے کم معیار تعلیم اور حفاظتی انتظامات سے متعلق قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کیونکہ معاملہ ایک طرف ہمارے مستقبل کا ہے تو دوسری جانب قیمتی انسانی جانیں کاروباری ذہنیت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ سب سے پہلے تو ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو فعال کرنے یا بااختیار‘ خودمختار یا اہلیت کی بنیادوں پر اَزسرنو مرتب کیا جائے۔ سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ عملی طور پر نجانے کب ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں میں باہمی تعاون اور انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرنا میں نجانے کیا مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں‘ تاکہ دہشت گردی کے کسی ممکنہ خطرے‘ اندیشے یا حفظ ماتقدم کے طورپر ’بچاؤکی تدبیر‘ کی جاسکے۔ ضلعی اِنتظامیہ کو ’اِیجوکیشن ریگولیٹری اَتھارٹی‘ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور بجائے خود اِس معاملے میں ٹانگ اَڑانے اور ایک الگ حکومتی محکمے کے دائرہ اِختیار میں گھسنے سے الگ تدبیر اِختیار کرنی چاہئے تاکہ ’’گھی سیدھی اُنگلی‘‘ ہی سے نکل آئے۔ تیسری بات سرکاری تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے حوالے سے ہے۔
نجی اِدارے تو اپنے وسائل بھی رکھتے ہیں اور اُن کے مالکان میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے بیمے کرانے کی سوچ بھی پائی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بچے چونکہ نجی تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے ہیں‘ اِس لئے سارا زور اُن سکولوں پر ہے‘ جہاں پہلے ہی چاردیواریوں کے اندر جھانکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیا کسی نے جی ٹی روڈ کنارے یا قبرستانوں میں قائم تعلیمی اداروں کے بارے میں سوچا ہے‘ جہاں ایک ایک جماعت میں ایک سے زیادہ کلاسیں لگی ہوتی ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت سرکاری سکولوں میں ابھی تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بیت الخلأ جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو بھلا کیونکر وہاں سی سی ٹی وی کیمرے‘ خاردار تاروں کی تنصیب اُور محافظوں کی تعیناتی ممکن ہو سکتی ہے۔ جس صوبے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد آبادی کے تناسب سے کم ہو‘ وہاں ہر سرکاری سکول کی حفاظت عملاً ممکن نہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اگر دہشت گرد کسی تعلیمی اِدارے یا سرکاری دفتر کو نشانہ بنانا چاہیں تو ایسا کرنے میں عجلت یا جلدبازی سے کام نہیں لیتے۔ یہ بات راز نہیں کہ عسکریت پسندی میں استعمال ہونے والے مالی وسائل یا تو منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے یا براہ راست بھتے کی صورت حاصل ہوتے ہیں اور اِس پورے عمل کے لئے قبائلی سرزمین استعمال ہوتی ہے۔ یہ گھڑی نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں کو اپنی اپنی حفاظت پر نظرثانی کرنے کی تلقین کرنے کی آڑ میں خفیہ اطلاعات کے نیٹ ورک کو مزید فعال کرنے کی ہے۔
غاروں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والوں سے زیادہ اُن کرداروں کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ جو چھوٹے بڑے شہروں اور قریبی دیہی علاقوں میں ’’سہولت کار‘‘بنے ہوئے ہیں‘ دہشت گردوں کی رہنمائی اور اُنہیں معلومات فراہم کرنے والے ’نیٹ ورک‘ ہماری ناک کے نیچے قائم ہیں۔ جب تک ہم ’نوگوایریاز (قبائلی و نیم قبائلی علاقے)‘ ختم نہیں کرتے‘ تب تک سیکورٹی کے حوالے سے یونہی سوچ کا ہر زاویہ‘ ہر احتیاط اور ہر تدبیر ناکام ثابت ہوتی رہے گی اور ہم یونہی پیاروں کی اموات اور اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہیں گے!
کیا ہمارے اَرباب اِختیار جاگ اُٹھے ہیں یا اَفراتفری کا شکار ہیں؟ نیا حکمنامہ سامنے آیا ہے کہ اب کے بعد‘ کسی بھی درجے کا سکول کھولنے کے لئے ضلعی انتظامیہ سے ’اِجازت نامہ (این اُو سی)‘ حاصل کرنے کو لازمی قرار دیاگیا ہے لیکن اگر یہی کام متعلقہ بورڈز کی سطح پر ’ایجوکیشن ریگولیٹری اِتھارٹی‘ کے سپرد کر دیا جاتا‘ جو پہلے ہی اُن کے دائرہ اختیار میں ہے اور قواعد کی رو سے اِس ’ریگولیٹری اتھارٹی‘ ہی کو یہ کام کرنا چاہئے۔ قابل افسوس ہے کہ ہمارے ہاں سکول پہلے قائم ہوتا ہے اور اجازت نامہ بعد میں حاصل کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور ہی میں ایسے درجنوں سکول ہیں جن کے پاس اجازت نامے نہیں لیکن وہ گلی گلی فعال ہیں۔ کسی سکول کے قیام کے لئے کم از کم کمروں کی شرط اور دیگر ضروری بنیادی سہولیات کے ساتھ تدریسی عملے کی تنخواہوں اور تعلیمی قابلیت سے متعلق قواعد بھی عملی اطلاق چاہتے ہیں۔ عمومی رویہ یہی ہے کہ شہر کے کم آمدنی والے علاقوں میں قائم سکول چند ہزار روپے کے عوض خواتین معلمات کی خدمات حاصل کرکے دکانیں کھولے بیٹھے ہیں اور ایسے غیرمعیاری تعلیمی اداروں نے تو اپنی ایک عدد یونین بھی بنا رکھی ہے! سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے۔ تعلیمی ادارے ’مشرومز‘ کی طرح ’خودرو جھاڑیوں‘ جیسے ہیں‘ جن پر پھل پھولوں سے زیادہ خار دکھائی دے رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کے سانحے کے بعد ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ گلی گلی اور محلے محلے فعال نجی تعلیمی اداروں کو کم سے کم معیار تعلیم اور حفاظتی انتظامات سے متعلق قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے کیونکہ معاملہ ایک طرف ہمارے مستقبل کا ہے تو دوسری جانب قیمتی انسانی جانیں کاروباری ذہنیت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ سب سے پہلے تو ’ایجوکیشن ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو فعال کرنے یا بااختیار‘ خودمختار یا اہلیت کی بنیادوں پر اَزسرنو مرتب کیا جائے۔ سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ عملی طور پر نجانے کب ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں میں باہمی تعاون اور انہیں ایک دوسرے سے مربوط کرنا میں نجانے کیا مصلحتیں آڑے آ رہی ہیں‘ تاکہ دہشت گردی کے کسی ممکنہ خطرے‘ اندیشے یا حفظ ماتقدم کے طورپر ’بچاؤکی تدبیر‘ کی جاسکے۔ ضلعی اِنتظامیہ کو ’اِیجوکیشن ریگولیٹری اَتھارٹی‘ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اور بجائے خود اِس معاملے میں ٹانگ اَڑانے اور ایک الگ حکومتی محکمے کے دائرہ اِختیار میں گھسنے سے الگ تدبیر اِختیار کرنی چاہئے تاکہ ’’گھی سیدھی اُنگلی‘‘ ہی سے نکل آئے۔ تیسری بات سرکاری تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے حوالے سے ہے۔
نجی اِدارے تو اپنے وسائل بھی رکھتے ہیں اور اُن کے مالکان میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے بیمے کرانے کی سوچ بھی پائی جاتی ہے۔ بڑے لوگوں کے بچے چونکہ نجی تعلیمی اداروں میں علم حاصل کرتے ہیں‘ اِس لئے سارا زور اُن سکولوں پر ہے‘ جہاں پہلے ہی چاردیواریوں کے اندر جھانکنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیا کسی نے جی ٹی روڈ کنارے یا قبرستانوں میں قائم تعلیمی اداروں کے بارے میں سوچا ہے‘ جہاں ایک ایک جماعت میں ایک سے زیادہ کلاسیں لگی ہوتی ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت سرکاری سکولوں میں ابھی تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور بیت الخلأ جیسی بنیادی سہولت فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تو بھلا کیونکر وہاں سی سی ٹی وی کیمرے‘ خاردار تاروں کی تنصیب اُور محافظوں کی تعیناتی ممکن ہو سکتی ہے۔ جس صوبے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد آبادی کے تناسب سے کم ہو‘ وہاں ہر سرکاری سکول کی حفاظت عملاً ممکن نہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اگر دہشت گرد کسی تعلیمی اِدارے یا سرکاری دفتر کو نشانہ بنانا چاہیں تو ایسا کرنے میں عجلت یا جلدبازی سے کام نہیں لیتے۔ یہ بات راز نہیں کہ عسکریت پسندی میں استعمال ہونے والے مالی وسائل یا تو منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے یا براہ راست بھتے کی صورت حاصل ہوتے ہیں اور اِس پورے عمل کے لئے قبائلی سرزمین استعمال ہوتی ہے۔ یہ گھڑی نجی و سرکاری تعلیمی اِداروں کو اپنی اپنی حفاظت پر نظرثانی کرنے کی تلقین کرنے کی آڑ میں خفیہ اطلاعات کے نیٹ ورک کو مزید فعال کرنے کی ہے۔
غاروں میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والوں سے زیادہ اُن کرداروں کو بے نقاب کرنے کی بھی ضرورت ہے‘ جو چھوٹے بڑے شہروں اور قریبی دیہی علاقوں میں ’’سہولت کار‘‘بنے ہوئے ہیں‘ دہشت گردوں کی رہنمائی اور اُنہیں معلومات فراہم کرنے والے ’نیٹ ورک‘ ہماری ناک کے نیچے قائم ہیں۔ جب تک ہم ’نوگوایریاز (قبائلی و نیم قبائلی علاقے)‘ ختم نہیں کرتے‘ تب تک سیکورٹی کے حوالے سے یونہی سوچ کا ہر زاویہ‘ ہر احتیاط اور ہر تدبیر ناکام ثابت ہوتی رہے گی اور ہم یونہی پیاروں کی اموات اور اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہیں گے!
No comments:
Post a Comment