ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
بامقصد یک جہتی
بامقصد یک جہتی
خیبرپختونخوا کی مسیحی برادری کا یہ جذبۂ واجب الاحترام ہے کہ اُنہوں نے
اپنی عید (کرسمس) کے تہوار کی جملہ تقریبات منسوخ کرتے ہوئے نئے سال کی آمد
کو اِس مرتبہ سادگی سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سانحۂ پشاور کی یاد میں ہر
دل مغموم ہے۔ بدقسمت پشاور کی اس سے بڑی خوش قسمتی اُور کیا ہوگی کہ آج کی
تاریخ میں ہر مذہب‘ قوم‘ قبیلے اور زبان سے تعلق رکھنے والوں کے دل ’پشاور
کے ساتھ دھڑک‘ رہے ہیں۔ ہر آنکھ پشاور کے ساتھ پرنم ہے اور ہر دل پشاور کے
ساتھ رو رہا ہے۔ ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ’مسیحی برادری‘ کے مغموم
نوجوان‘ بچے‘ بزرگ اور خواتین ایبٹ آباد کے مرکزی گرجا گھر میں جمع ہوئے۔
دعائیہ تقریب ہوئی‘ آنسوؤں‘سسکیوں اور آہوں میں آرمی پبلک سکول کے اُن
بچوں‘ اساتذہ اور عملے کا ذکر کیا گیا‘ جنہیں سولہ دسمبر کی صبح بے رحمی سے
قتل کرنے والے شقی القب حملہ آوروں نے بربریت کی انتہاء کر دی۔ حقیقت یہی
ہے کہ پشاور کی ایک درسگاہ میں ہونے والی ایک سو پچاس ہلاکتوں میں ہر شخص
کو اپنا اہل خانہ کی صورتیں دکھائی دے رہی ہیں‘ جس کی وجہ سے صبر نہیں آ
رہا۔ تسلی کے الفاظ تاثیر کھو چکے ہیں اور ضبط کی ہزارہا کوشش کے باوجود
بھی آنسو رُک نہیں پا رہے۔ ’’مائیں دروازے کو تکتی ہیں مگر اَب بچے۔۔۔سیدھے
سکول سے جنت کو چلے جاتے ہیں!‘‘ سانحۂ پشاور صرف قوم کے ضمیر کو ہی نہیں
جھنجوڑنے بلکہ فوجی و سیاسی قیادت کے جگانے کا باعث بھی بنا ہے۔ ایک طرف
پوری قوم یک جان و یک قالب ہے تو دوسری جانب قیام پاکستان جیسا جوش و جذبہ
اور ’بامقصد قومی و سیاسی یک جہتی‘ سے تعمیری پہلوؤں اُبھر کر سامنے آنے کے
آثار نمایاں ہیں‘ الغرض ہر کس و ناکس کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ ’پاکستان کی
سلامتی و استحکام کو لاحق اُن تمام داخلی خطرات سے پہلے نمٹا جائے۔‘‘
سانحۂ پشاور کی ’سنگینی‘ سے کسی کو انکار نہیں لیکن جس انداز میں الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے ادارے (بالخصوص نجی ٹیلی ویژن) اِس ’موقع‘ سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ افسوسناک ہے۔ وہ دلخراش مناظر جنہیں سولہ دسمبر کو دیکھنے کی سکت نہیں تھی‘ اُنہیں اُنیس دسمبر تک بار بار دکھائے جانے کی وجہ سے لاشعوری طور پر پوری قوم کو ایک مسلسل کرب کی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ ایک سیدھے سادے دہشت گردی کے واقعے کو غم زدہ گانوں اور موسیقی کے ساتھ نکھارنے اور اسے پرکشش بنا کر پیش کرنے میں ہر نیوز چینل دوسرے سے ایک قدم آگے ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نیوز ٹیلی ویژن جیسی حساس ملازمت کرنے والوں کے لئے کم سے کم کوئی تعلیمی قابلیت ہی شرط ہوتی۔ اُن کا اعصابی اور ذہنی طاقت و ذہانت کا امتحان ہوتا۔ صحافیانہ اقدار تو دور کی بات بطور انسان پیشہ ورانہ ذمہ داریاں‘ فرائض‘ حساسیت اور بالخصوص اچانک کسی سانحے کی صورت ’ردعمل‘ کیا ہونا چاہئے یہ ایک الگ موضوع ہے‘ جس پر جتنا غوروخوض اور بحث درکار ہے‘ اُس کے لئے ہمارے پاس بدقسمتی سے وقت نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے پیچھے سائے کی طرح لگے دکھائی دیتے ہیں جبکہ صحافیوں کی تنظیمیں اُور پریس کلب اپنی اپنی حیثیت میں اُن مالی وسائل کو ہضم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘ جو اُنہیں حکومتی و غیرحکومتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی تربیت کے لئے جب بیرون امداد آتی ہے تو اس سے بھی نام نہاد ’سینئر پیشہ ور‘ اور ’تجربہ کار معلم‘ ہی مستفید ہوتے ہیں۔ حرص کے ایک لامتناہی سلسلے اور سوچ ہی کا شاخسانہ ہے کہ ’’ذرائع ابلاغ کے ہاں نہ تو تعمیری تنقید ملتی ہے اور نہ ہی وہ ’خبرنگاری کی ذمہ داری خالصتاً اَدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ چال کی عمدہ مثالیں قائم کرتے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے پیشے و مقصد سے کتنا انصاف کر رہے ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خود سے پوچھنا ہوگا کہ اگر اموات اُن کے اپنے عزیزوں کی ہوتیں تو کیا وہ اُن کا بھی اسی قسم کا تماشا و تشہیر کرتے؟ کیا وہ اپنی ماؤں بہنوں اور غم سے نڈھال بیٹیوں کے ننگے سروں کی پوری دنیا میں نمائش کرنا پسند کرتے؟ اگر ایک ظلم حملہ آوروں نے کیا تو شریک جرم قاتل وہ بھی ہیں جو خبر سے خبر کا آخری قطرہ کشید رہے ہیں۔ ’’قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں: اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے!‘‘
آخر یہ حق کسی بھی ٹیلی ویژن یا کیمرہ مین (فوٹوجرنلسٹس) کو کس نے دیا ہے کہ وہ کسی سانحے کا شکار ہونے والے متاثرین کے آنسوؤں اور فرط جذبات میں چیخ و پکار کو اپنی سوچ کے مطابق جب تک چاہے استعمال کرے؟ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قواعد وضوابط میں ’حساس نوعیت‘ کے اُن سوالات کو شامل نصاب کیوں نہیں کیا جاتا جن کا تعلق ذہنی و فکری افراتفری پھیلانے سے ہے؟ مادرپدر آزادی دینے کا مقصد سوائے انتشار پھیلانے کے کیا کچھ اُور بھی ہے؟ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ غیرملکی ہم عصر اداروں سے سنجیدگی کیوں نہیں سیکھتے‘ جن کا لب و لہجہ زبان و بیان بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہماری سوچ ہمارے عمل اور اَلفاظ کی طرح واضح نہیں۔ ایک طرف ’گھوڑے اور گھاس‘ نے دوستی کر رکھی ہے اور دوسری طرف محض مالی مفاد (ratings) کے لئے پوری قوم کو ’ذہنی مریض‘ بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اَخبارات میں شائع ہونے والے ہر لفظ کی طرح ’الیکٹرانک میڈیا‘ کا ہر منٹ و سیکنڈ کہیں نہ کہیں اَثر کر رہا ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اُن بیرون ملک پاکستانیوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جنہیں ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ تو دکھایا جاتا ہے لیکن ذرائع ابلاغ اُن کے حل تجویز کرنے یا قومی مفاہمت کے لئے ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ المیہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینل دائیں اور بائیں بازو کے دھڑوں میں تقسیم ہیں اور یہ تقسیم اِس قدر واضح ہے کہ اب تو کسی جماعت کا نکتۂ نظر معلوم کرنے کے لئے مخصوص چینلوں کو دیکھا جاتا ہے۔ اِس قسم کی چھاپ ایک وقت تک انفرادی حیثیت میں صحافیوں تک محدود تھی اور اب بھی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا نے تو صحافتی بددیانتی کی ایک ایسی تاریخ رقم کرنا شروع کر رکھی ہے جس سے ہمیں پاکستان کا صحافتی ماضی ’درخشاں‘ دکھائی دینے لگا ہے۔
سانحۂ پشاور کی ’سنگینی‘ سے کسی کو انکار نہیں لیکن جس انداز میں الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے ادارے (بالخصوص نجی ٹیلی ویژن) اِس ’موقع‘ سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ افسوسناک ہے۔ وہ دلخراش مناظر جنہیں سولہ دسمبر کو دیکھنے کی سکت نہیں تھی‘ اُنہیں اُنیس دسمبر تک بار بار دکھائے جانے کی وجہ سے لاشعوری طور پر پوری قوم کو ایک مسلسل کرب کی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ ایک سیدھے سادے دہشت گردی کے واقعے کو غم زدہ گانوں اور موسیقی کے ساتھ نکھارنے اور اسے پرکشش بنا کر پیش کرنے میں ہر نیوز چینل دوسرے سے ایک قدم آگے ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نیوز ٹیلی ویژن جیسی حساس ملازمت کرنے والوں کے لئے کم سے کم کوئی تعلیمی قابلیت ہی شرط ہوتی۔ اُن کا اعصابی اور ذہنی طاقت و ذہانت کا امتحان ہوتا۔ صحافیانہ اقدار تو دور کی بات بطور انسان پیشہ ورانہ ذمہ داریاں‘ فرائض‘ حساسیت اور بالخصوص اچانک کسی سانحے کی صورت ’ردعمل‘ کیا ہونا چاہئے یہ ایک الگ موضوع ہے‘ جس پر جتنا غوروخوض اور بحث درکار ہے‘ اُس کے لئے ہمارے پاس بدقسمتی سے وقت نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ادارے چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے پیچھے سائے کی طرح لگے دکھائی دیتے ہیں جبکہ صحافیوں کی تنظیمیں اُور پریس کلب اپنی اپنی حیثیت میں اُن مالی وسائل کو ہضم کرنے کی فکر میں رہتے ہیں‘ جو اُنہیں حکومتی و غیرحکومتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی تربیت کے لئے جب بیرون امداد آتی ہے تو اس سے بھی نام نہاد ’سینئر پیشہ ور‘ اور ’تجربہ کار معلم‘ ہی مستفید ہوتے ہیں۔ حرص کے ایک لامتناہی سلسلے اور سوچ ہی کا شاخسانہ ہے کہ ’’ذرائع ابلاغ کے ہاں نہ تو تعمیری تنقید ملتی ہے اور نہ ہی وہ ’خبرنگاری کی ذمہ داری خالصتاً اَدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھیڑ چال کی عمدہ مثالیں قائم کرتے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنے پیشے و مقصد سے کتنا انصاف کر رہے ہیں؟ الیکٹرانک میڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو خود سے پوچھنا ہوگا کہ اگر اموات اُن کے اپنے عزیزوں کی ہوتیں تو کیا وہ اُن کا بھی اسی قسم کا تماشا و تشہیر کرتے؟ کیا وہ اپنی ماؤں بہنوں اور غم سے نڈھال بیٹیوں کے ننگے سروں کی پوری دنیا میں نمائش کرنا پسند کرتے؟ اگر ایک ظلم حملہ آوروں نے کیا تو شریک جرم قاتل وہ بھی ہیں جو خبر سے خبر کا آخری قطرہ کشید رہے ہیں۔ ’’قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں: اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے!‘‘
آخر یہ حق کسی بھی ٹیلی ویژن یا کیمرہ مین (فوٹوجرنلسٹس) کو کس نے دیا ہے کہ وہ کسی سانحے کا شکار ہونے والے متاثرین کے آنسوؤں اور فرط جذبات میں چیخ و پکار کو اپنی سوچ کے مطابق جب تک چاہے استعمال کرے؟ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قواعد وضوابط میں ’حساس نوعیت‘ کے اُن سوالات کو شامل نصاب کیوں نہیں کیا جاتا جن کا تعلق ذہنی و فکری افراتفری پھیلانے سے ہے؟ مادرپدر آزادی دینے کا مقصد سوائے انتشار پھیلانے کے کیا کچھ اُور بھی ہے؟ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ غیرملکی ہم عصر اداروں سے سنجیدگی کیوں نہیں سیکھتے‘ جن کا لب و لہجہ زبان و بیان بڑے سے بڑے حادثے کی صورت میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ ہماری سوچ ہمارے عمل اور اَلفاظ کی طرح واضح نہیں۔ ایک طرف ’گھوڑے اور گھاس‘ نے دوستی کر رکھی ہے اور دوسری طرف محض مالی مفاد (ratings) کے لئے پوری قوم کو ’ذہنی مریض‘ بنا دیا گیا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اَخبارات میں شائع ہونے والے ہر لفظ کی طرح ’الیکٹرانک میڈیا‘ کا ہر منٹ و سیکنڈ کہیں نہ کہیں اَثر کر رہا ہوتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اُن بیرون ملک پاکستانیوں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جنہیں ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ تو دکھایا جاتا ہے لیکن ذرائع ابلاغ اُن کے حل تجویز کرنے یا قومی مفاہمت کے لئے ڈائیلاگ کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ المیہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینل دائیں اور بائیں بازو کے دھڑوں میں تقسیم ہیں اور یہ تقسیم اِس قدر واضح ہے کہ اب تو کسی جماعت کا نکتۂ نظر معلوم کرنے کے لئے مخصوص چینلوں کو دیکھا جاتا ہے۔ اِس قسم کی چھاپ ایک وقت تک انفرادی حیثیت میں صحافیوں تک محدود تھی اور اب بھی ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا نے تو صحافتی بددیانتی کی ایک ایسی تاریخ رقم کرنا شروع کر رکھی ہے جس سے ہمیں پاکستان کا صحافتی ماضی ’درخشاں‘ دکھائی دینے لگا ہے۔
No comments:
Post a Comment