ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
فیصلے کی گھڑی
فیصلے کی گھڑی
سولہ دسمبر کے دن طلوع ہونے والا سورج غروب نہیں ہورہا۔ وہ ایک دن بہت طویل
ہو چکا ہے! دکھ کی ساعتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں اور پھول جیسے
بچوں کے جنازوں کو کندھا دینے والوں پر گزرنے والی قیامت صغریٰ کی شدت کم
نہیں ہورہی۔ انصاف کے متلاشیوں کی نظریں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور
حکومت پر لگی ہوئی ہیں جو اپنے فرض سے غافل نہیں۔ خیبرپختونخوا پولیس کے
سربراہ ’ناصر درانی نے آرمی پبلک سکول پر حملے کو انسانی تاریخ سب سے زیادہ
شرمناک اور اندوہناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بچوں کا خون ہم پر قرض
ہے اور اس قرض کو لازمی ادا کریں گے۔‘‘
پولیس سربراہ جس غم و غصے اور دکھ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں‘ اُس میں وہ تنہا نہیں۔ کراچی سے پشاور تک ہرباضمیر و دردمند انسان بلاتفریق رنگ و مذہب ’پشاور کے ساتھ اظہار یک جہتی‘ کر رہا ہے۔ عیسائی برادری کی جانب سے کرسمس تقریبات کے سلسلے میں روائتی جشن اور میلے ملتوی کرنے کا اعلان اپنی جگہ اہم اور اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کی لڑی میں سبھی مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا قومی سطح پر پائے جانے والے اِس ’اتفاق رائے‘ کو غنیمت جانتے ہوئے وہ مشکل فیصلے ہو پائیں گے‘ جنہیں کرنے کے لئے ملک کی سیاسی قیادت پر پہلی مرتبہ عوام کی جانب سے انتہائی کا دباؤ دیکھا جا رہا ہے؟
سردست سوال یہ ہے کہ ’’پشاور سانحے کے پس منظر میں کیا حکومت کو پھانسی کی سزا پر عائد پابندی اُٹھانے کا فیصلہ درست اقدام ہے؟‘‘ اِس حوالے سے ملک گیر سطح پر کئے گئے سروے کے نتائج حیرت انگیز طور پر واضح ہیں۔ 97.28فیصد نے ’ہاں‘ جبکہ 2.72فیصد پاکستانیوں نے ’نہیں‘ میں جواب دیا ہے لیکن پھانسیوں پر عائد پابندی اُٹھانے کا معاملہ اِس قدر آسان نہیں جتنا کہ عمومی طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی ہٹائے جانے کے بعد سات ہزار 135 قیدیوں کو سزائے موت دینے کی راہ ہموار ہو جائے گی تاہم قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ دہشت گردوں اور فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کے علاؤہ دیگر پر یہ نیا حکمنامہ اثر انداز نہیں ہو گا۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان کی جانب سے سپرئم کورٹ میں دائر درخواست پر یہ اعدادوشمار وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں جمع کرائے تھے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ سزائے موت کے منتظر وہ قیدی جو اٹھارہ سال کی سزا کاٹ چکے ہیں لہٰذا اُن سب کو رہا کر دیا جائے۔ تاہم آزاد اداروں کے اعدادوشمار حکومتی اعدادوشمار سے مختلف ہیں جہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 6 ہزار 424‘ سندھ میں 355‘ خیبر پختونخوا میں 183‘ بلوچستان میں 79اور گلگت بلتستان میں 15سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔
صوبہ پنجاب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو لاہور ہائی کورٹ میں سزائے موت کی دائر چار ہزار 981 درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پندرہ‘ سپرئم کورٹ میں 893جبکہ اسی طرح کی تین درخواستیں جنرل ہیڈکوارٹرز میں بھی التوأ کا شکار ہیں۔ اسی طرح صدر کے پاس بھی 463 سزائے موت کے مجرم قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جبکہ 69کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کی اعلیٰ عدلیہ ہائی کورٹ میں 266درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پانچ‘ سپرئم کورٹ میں 48جبکہ جی ایچ کیو میں تین درخواستیں جبکہ گورنر سندھ کے پاس بھی ستائیس قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جن میں سے چھ کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ’ایک سو دو‘ درخواستیں توجہ کی منتظر ہیں ان میں سے 49 سپرئم کورٹ جبکہ 29گورنر کو رحم کی اپیل کے ساتھ بھیجی گئی ہیں جبکہ تین مقدمات میں مجرموں کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں 29‘ وفاقی شرعی عدالت میں ایک اور سپرئم کورٹ اکتالیس درخواستیں ہیں جن میں سے 13 رحم کی اپیل کے ساتھ گورنر کو بھیجی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سزائے موت پر پابندی پیپلزپارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں لگائی گئی۔ سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کرنے والے بیرسٹر ظفراللہ خان کا خیال ہے کہ حکومت نے محدود پیمانے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ اسی لیے کیا تاکہ یورپی یونین میں جی ایس پی اسٹیٹس کو یقینی بنایا جا سکے۔تاہم دہشت گردی کے الزامات میں سزا پانے والے 170 قیدیوں کو اس کے باوجود بھی پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔
سزائے موت پر عمل درآمد کی راہ میں اگر آئینی رکاوٹیں حائل ہیں اور اس سلسلے میں غوروخوض جاری ہے تو یقیناًاس کا کوئی نہ کوئی حل بھی نکل ہی آئے گا لیکن سردست سوال پر تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اگر چند ایسے اقدامات بھی کر لئے جائیں جن سے پھلتی پھولتی انتہاء پسندی اور اسے جائز سمجھنے والوں سے معاملہ کر لیا جائے تو اس سے بڑی حد تک حالات پر قابو پانے کے ساتھ عوام کو تسلی و تشفی دلائی جا سکتی ہے۔
قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور انہیں بندوبستی علاقوں کے مساوی لانے کے لئے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ تحریری طور پر وفاقی و صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو آگاہ کر چکے ہیں۔ یقیناًاُن کا مکتوب فائلوں میں کہیں دبا پڑا ہوگا‘ گردوغبار سے اٹے ایسی بہت سی سفارشات پر بھی غوروخوض کرنے کی یہی موزوں گھڑی ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے!
پولیس سربراہ جس غم و غصے اور دکھ کی کیفیت سے گزر رہے ہیں‘ اُس میں وہ تنہا نہیں۔ کراچی سے پشاور تک ہرباضمیر و دردمند انسان بلاتفریق رنگ و مذہب ’پشاور کے ساتھ اظہار یک جہتی‘ کر رہا ہے۔ عیسائی برادری کی جانب سے کرسمس تقریبات کے سلسلے میں روائتی جشن اور میلے ملتوی کرنے کا اعلان اپنی جگہ اہم اور اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان کی لڑی میں سبھی مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ کیا قومی سطح پر پائے جانے والے اِس ’اتفاق رائے‘ کو غنیمت جانتے ہوئے وہ مشکل فیصلے ہو پائیں گے‘ جنہیں کرنے کے لئے ملک کی سیاسی قیادت پر پہلی مرتبہ عوام کی جانب سے انتہائی کا دباؤ دیکھا جا رہا ہے؟
سردست سوال یہ ہے کہ ’’پشاور سانحے کے پس منظر میں کیا حکومت کو پھانسی کی سزا پر عائد پابندی اُٹھانے کا فیصلہ درست اقدام ہے؟‘‘ اِس حوالے سے ملک گیر سطح پر کئے گئے سروے کے نتائج حیرت انگیز طور پر واضح ہیں۔ 97.28فیصد نے ’ہاں‘ جبکہ 2.72فیصد پاکستانیوں نے ’نہیں‘ میں جواب دیا ہے لیکن پھانسیوں پر عائد پابندی اُٹھانے کا معاملہ اِس قدر آسان نہیں جتنا کہ عمومی طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے سزائے موت پر عائد پابندی ہٹائے جانے کے بعد سات ہزار 135 قیدیوں کو سزائے موت دینے کی راہ ہموار ہو جائے گی تاہم قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ دہشت گردوں اور فوجی عدالت سے سزا پانے والوں کے علاؤہ دیگر پر یہ نیا حکمنامہ اثر انداز نہیں ہو گا۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان کی جانب سے سپرئم کورٹ میں دائر درخواست پر یہ اعدادوشمار وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ میں جمع کرائے تھے۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اپنی درخواست میں اپیل کی تھی کہ سزائے موت کے منتظر وہ قیدی جو اٹھارہ سال کی سزا کاٹ چکے ہیں لہٰذا اُن سب کو رہا کر دیا جائے۔ تاہم آزاد اداروں کے اعدادوشمار حکومتی اعدادوشمار سے مختلف ہیں جہاں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار سے زائد افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں 6 ہزار 424‘ سندھ میں 355‘ خیبر پختونخوا میں 183‘ بلوچستان میں 79اور گلگت بلتستان میں 15سزائے موت کے قیدی موجود ہیں۔
صوبہ پنجاب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو لاہور ہائی کورٹ میں سزائے موت کی دائر چار ہزار 981 درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پندرہ‘ سپرئم کورٹ میں 893جبکہ اسی طرح کی تین درخواستیں جنرل ہیڈکوارٹرز میں بھی التوأ کا شکار ہیں۔ اسی طرح صدر کے پاس بھی 463 سزائے موت کے مجرم قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جبکہ 69کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔ صوبہ سندھ کی اعلیٰ عدلیہ ہائی کورٹ میں 266درخواستیں التوأ کا شکار ہیں‘ وفاقی شرعی عدالت میں پانچ‘ سپرئم کورٹ میں 48جبکہ جی ایچ کیو میں تین درخواستیں جبکہ گورنر سندھ کے پاس بھی ستائیس قیدیوں کی رحم کی درخواستیں موجود ہیں جن میں سے چھ کی سزا کو برقرار رکھا گیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ’ایک سو دو‘ درخواستیں توجہ کی منتظر ہیں ان میں سے 49 سپرئم کورٹ جبکہ 29گورنر کو رحم کی اپیل کے ساتھ بھیجی گئی ہیں جبکہ تین مقدمات میں مجرموں کی سزا برقرار رکھی گئی ہے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں 29‘ وفاقی شرعی عدالت میں ایک اور سپرئم کورٹ اکتالیس درخواستیں ہیں جن میں سے 13 رحم کی اپیل کے ساتھ گورنر کو بھیجی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ سزائے موت پر پابندی پیپلزپارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں لگائی گئی۔ سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کرنے والے بیرسٹر ظفراللہ خان کا خیال ہے کہ حکومت نے محدود پیمانے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ اسی لیے کیا تاکہ یورپی یونین میں جی ایس پی اسٹیٹس کو یقینی بنایا جا سکے۔تاہم دہشت گردی کے الزامات میں سزا پانے والے 170 قیدیوں کو اس کے باوجود بھی پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے۔
سزائے موت پر عمل درآمد کی راہ میں اگر آئینی رکاوٹیں حائل ہیں اور اس سلسلے میں غوروخوض جاری ہے تو یقیناًاس کا کوئی نہ کوئی حل بھی نکل ہی آئے گا لیکن سردست سوال پر تمام توانائیاں خرچ کرنے کی بجائے اگر چند ایسے اقدامات بھی کر لئے جائیں جن سے پھلتی پھولتی انتہاء پسندی اور اسے جائز سمجھنے والوں سے معاملہ کر لیا جائے تو اس سے بڑی حد تک حالات پر قابو پانے کے ساتھ عوام کو تسلی و تشفی دلائی جا سکتی ہے۔
قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور انہیں بندوبستی علاقوں کے مساوی لانے کے لئے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ تحریری طور پر وفاقی و صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو آگاہ کر چکے ہیں۔ یقیناًاُن کا مکتوب فائلوں میں کہیں دبا پڑا ہوگا‘ گردوغبار سے اٹے ایسی بہت سی سفارشات پر بھی غوروخوض کرنے کی یہی موزوں گھڑی ہے اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے!
No comments:
Post a Comment