ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پاکستان کا نائن الیون!
پاکستان کا نائن الیون!
کون جانتا تھا کہ ورسک روڈ پشاور کے ایک تعلیمی اِدارے پر دہشت گرد حملے سے
پوری قوم یوں متحد اور یک زبان ہوکر ’شدت پسندوں‘ سے اظہار بیزاری کرنے
اُٹھ کھڑی ہوگی۔ کراچی سے پشاور تک آنسوؤں سے غائبانہ غسل دینے والے نکل
کھڑے ہوں گے۔ گھر گھر اور شہر شہر دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔
کس کے وہم و گمان میں تھا کہ گذشتہ چار ماہ سے سیاسی اختلافات رکھنے والے
سراپا احتجاج رہنما بھی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے قریب
آجائیں گے یقیناً’سولہ دسمبر‘ کی صبح پشاور میں رونما ہونے والے سانحے نے
پوری قوم کو سوگوار‘ مغموم اور یک جان کر چھوڑا ہے۔ ملک کی سیاسی و فوجی
قیادت اور قانون نافذ کرنے والے جملہ ادارے بھی عسکریت پسندی کو جڑ سے
اُکھاڑنے کے لئے پہلے کبھی بھی اتنے پرعزم اور یک سو دکھائی نہیں دیئے تو
اِس موقع کو غنیمت جان کر کیوں نہ ایسے فیصلے کر لئے جائیں جس سے آنے والی
نسلیں ہماری غلطیوں کو درگزر کرتے ہوئے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی ذہانت اور
وسائل کا استعمال ملک و قوم کے بہتر مستقبل کے لئے کیا تھا۔ یہ فیصلے کی
گھڑی ہے کہ اگر ہم نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ تاریخ میں ’سولہ دسمبر‘ کے دن
پیش آئے واقعات پھر کبھی دُہرانے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا‘ اگر ہم
یہ چاہتے ہیں کہ ہر خاص و عام دہشت گردوں کے عتاب سے محفوظ رہے‘ تو پاکستان
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن (سربراہ) آصف علی زرداری کے دور صدارت (2008ء
سے 2013ء) میں معطل کی جانے والی ’پھانسی کی سزاؤں‘ پر فی الفور عمل
درآمد یقینی بنانا ہوگا۔
اَلمیہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ناقابل ضمانت اور ناقابل معافی اور کافی قوانین موجود ہیں‘ الگ سے عدالتیں موجود ہیں لیکن گرفتار اور اعتراف جرم کرنے والے دہشت گردوں کو ’موت کی سزا‘ نہیں دی جاتی یا پھر پھانسی کی سزا کا حکم تو دے دیا جاتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا ہوتا۔ وزیراعظم نے سترہ دسمبر کے دن ڈھلنے سے قبل اعلان کیا ہے کہ ’سزائے موت کے قانون کو فعال کیا جائے گا لیکن قوم کو اس پر عملدرآمد کا انتظار رہے گا۔ عجب ہے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کے دل عوام کے دکھ سے مغموم بھی تھے اور بیک وقت ظلم و بربریت کی انتہاء کرنے والوں کے لئے بھی اپنے دلوں میں نرم گوشہ بھی رکھتے تھے۔
ذاتی حفاظت‘ ذاتی مفادات اور اپنی ذات کے گرد گھومنے والی ترجیحات رکھنے والی قیادت کے فیصلوں کا شاخسانہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اُنیس سو اسی کی دہائی سے رقم ہونے والی اِس داستان کا اگرچہ ہر باب خونیں اور ہر سطر دل ہلا دینے والی ہے لیکن جس انداز میں قوم نے ’سولہ دسمبر‘ کا دُکھ محسوس کیا ہے‘ یقیناًیہ پاکستان کے لئے ’نائن الیون‘ جیسے دہشت گرد حملے کی مثل ہے‘جس کے بعد امریکہ نے نہ صرف اپنے دوستوں اور دشمنوں کی الگ الگ فہرستیں مرتب کیں بلکہ قومی سلامتی کے لئے داخلی معاملات بھی ازسرنوتشکیل دیئے‘ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد کیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ دہشت گردوں کو اُن کے آبائی مقامات تک محدود ہونے میں کامیاب اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے میں بڑی حد تک کامران ہو چکا ہے۔
آج کے امریکہ میں کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے یعنی قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی تو آخر ایسا کرنے سے ہمیں کس نے روک رکھا ہے؟ آج کے امریکہ میں ٹیکس چوری اور غیرقانونی‘ مشکوک یا نامعلوم ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی یا اثاثہ جات رکھنے والوں سے کسی قسم کی رعائت نہیں برتی جاتی تو آخر ایسا ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ آج کے امریکہ میں انتہاء پسندی کی طرف راغب کرنے والوں کوکھلی چھوٹ نہیں تو آخر ایسا ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ آج کے امریکہ میں تین قسم کا نصاب تعلیم اور درس وتدریس کے عمل پر طبقات کی اِجارہ داری نہیں تو آخر ہمیں کیوں فکری وذہنی طور پر محکوم بنا دیا گیا ہے؟ آج کے امریکہ میں شخصی انسانی آزادی تو بہت ہے لیکن جہاں بات قومی سلامتی کی ہو‘ وہاں بڑے سے بڑے حکومتی عہدیدار سے بھی رعایت نہیں کی جاتی تو آخر ہمارے ہاں قانون و انصاف سب کے لئے یکساں کیوں نہیں؟ سوچئے‘ کیا سولہ دسمبر کا دن پاکستان کے لئے بھی ’نائن الیون‘ جیسا ’فیصلہ کن‘ ثابت ہوگا؟ کیا ہماری فوجی و سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں کو دُہرانے کی بجائے مستقبل کو ایسا محفوظ بنانے پر توجہ دے گی‘ جس سے کسی ہمسائے یا دُور دراز ملک کو خطرہ نہ ہو؟
مسئلہ درست سمت میں پہلا قدم اُٹھانے کا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سولہ دسمبر کی شام جس انداز میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’پشاور کے سکول میں قتل ہونے والے ہر ایک بچے کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب لیا جائے گا‘‘ تو اِس سے غم زدہ قوم کو بڑا حوصلہ ملا ہے اور اُمید ہو چلی ہے کہ سیاسی قیادت روائتی انداز میں مل بیٹھنے کی بجائے بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی آبیاری کرنے والی سوچ‘ نظریات‘ عقائد‘ تعلیمات اور ان کے پرچار کرنے والوں سے غیرلچکدار انداز میں سخت گیر معاملہ کرے گی۔
حکومت شدت پسندوں کی طرح جرائم پیشہ منظم گروہوں کے زیرانتظام قبائلی و نیم علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے گی۔ دہشت گرد وارداتوں کے لئے دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے سے قبل ہمیں اپنے گھر (ملک) کی ’(داخلی) حفاظت‘ پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مزید قوانین‘ مذمتی قراردادوں‘ دکھ‘ اظہار افسوس‘ آہوں اُور آنسوؤں کی نہیں بلکہ کمال درجے کی بداخلاقی اور سنگ دلی سے اُن ’ننگ اِنسانیت کرداروں‘ سے دو دو ہاتھ کرنے کی ضرورت ہے‘ جن کے سینوں میں دل نہیں دھڑک رہے‘ جو کسی درجے کی ہمدردی اور سلوک کے نہیں‘ بلکہ صرف اور صرف (قرارواقعی) ’سزا‘ کے مستحق ہیں۔
اَلمیہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے ناقابل ضمانت اور ناقابل معافی اور کافی قوانین موجود ہیں‘ الگ سے عدالتیں موجود ہیں لیکن گرفتار اور اعتراف جرم کرنے والے دہشت گردوں کو ’موت کی سزا‘ نہیں دی جاتی یا پھر پھانسی کی سزا کا حکم تو دے دیا جاتا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا ہوتا۔ وزیراعظم نے سترہ دسمبر کے دن ڈھلنے سے قبل اعلان کیا ہے کہ ’سزائے موت کے قانون کو فعال کیا جائے گا لیکن قوم کو اس پر عملدرآمد کا انتظار رہے گا۔ عجب ہے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کے دل عوام کے دکھ سے مغموم بھی تھے اور بیک وقت ظلم و بربریت کی انتہاء کرنے والوں کے لئے بھی اپنے دلوں میں نرم گوشہ بھی رکھتے تھے۔
ذاتی حفاظت‘ ذاتی مفادات اور اپنی ذات کے گرد گھومنے والی ترجیحات رکھنے والی قیادت کے فیصلوں کا شاخسانہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اُنیس سو اسی کی دہائی سے رقم ہونے والی اِس داستان کا اگرچہ ہر باب خونیں اور ہر سطر دل ہلا دینے والی ہے لیکن جس انداز میں قوم نے ’سولہ دسمبر‘ کا دُکھ محسوس کیا ہے‘ یقیناًیہ پاکستان کے لئے ’نائن الیون‘ جیسے دہشت گرد حملے کی مثل ہے‘جس کے بعد امریکہ نے نہ صرف اپنے دوستوں اور دشمنوں کی الگ الگ فہرستیں مرتب کیں بلکہ قومی سلامتی کے لئے داخلی معاملات بھی ازسرنوتشکیل دیئے‘ قوانین پر بلاامتیاز عمل درآمد کیا اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ آج کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ‘ دہشت گردوں کو اُن کے آبائی مقامات تک محدود ہونے میں کامیاب اور اپنے ملک کو محفوظ بنانے میں بڑی حد تک کامران ہو چکا ہے۔
آج کے امریکہ میں کسی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے نام بدل کر اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے یعنی قانون کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی تو آخر ایسا کرنے سے ہمیں کس نے روک رکھا ہے؟ آج کے امریکہ میں ٹیکس چوری اور غیرقانونی‘ مشکوک یا نامعلوم ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی یا اثاثہ جات رکھنے والوں سے کسی قسم کی رعائت نہیں برتی جاتی تو آخر ایسا ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ آج کے امریکہ میں انتہاء پسندی کی طرف راغب کرنے والوں کوکھلی چھوٹ نہیں تو آخر ایسا ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ آج کے امریکہ میں تین قسم کا نصاب تعلیم اور درس وتدریس کے عمل پر طبقات کی اِجارہ داری نہیں تو آخر ہمیں کیوں فکری وذہنی طور پر محکوم بنا دیا گیا ہے؟ آج کے امریکہ میں شخصی انسانی آزادی تو بہت ہے لیکن جہاں بات قومی سلامتی کی ہو‘ وہاں بڑے سے بڑے حکومتی عہدیدار سے بھی رعایت نہیں کی جاتی تو آخر ہمارے ہاں قانون و انصاف سب کے لئے یکساں کیوں نہیں؟ سوچئے‘ کیا سولہ دسمبر کا دن پاکستان کے لئے بھی ’نائن الیون‘ جیسا ’فیصلہ کن‘ ثابت ہوگا؟ کیا ہماری فوجی و سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں کو دُہرانے کی بجائے مستقبل کو ایسا محفوظ بنانے پر توجہ دے گی‘ جس سے کسی ہمسائے یا دُور دراز ملک کو خطرہ نہ ہو؟
مسئلہ درست سمت میں پہلا قدم اُٹھانے کا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سولہ دسمبر کی شام جس انداز میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’پشاور کے سکول میں قتل ہونے والے ہر ایک بچے کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب لیا جائے گا‘‘ تو اِس سے غم زدہ قوم کو بڑا حوصلہ ملا ہے اور اُمید ہو چلی ہے کہ سیاسی قیادت روائتی انداز میں مل بیٹھنے کی بجائے بڑھتی ہوئی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی آبیاری کرنے والی سوچ‘ نظریات‘ عقائد‘ تعلیمات اور ان کے پرچار کرنے والوں سے غیرلچکدار انداز میں سخت گیر معاملہ کرے گی۔
حکومت شدت پسندوں کی طرح جرائم پیشہ منظم گروہوں کے زیرانتظام قبائلی و نیم علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے گی۔ دہشت گرد وارداتوں کے لئے دوسروں کو موردالزام ٹھہرانے سے قبل ہمیں اپنے گھر (ملک) کی ’(داخلی) حفاظت‘ پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں شدت پسندوں سے نمٹنے کے لئے مزید قوانین‘ مذمتی قراردادوں‘ دکھ‘ اظہار افسوس‘ آہوں اُور آنسوؤں کی نہیں بلکہ کمال درجے کی بداخلاقی اور سنگ دلی سے اُن ’ننگ اِنسانیت کرداروں‘ سے دو دو ہاتھ کرنے کی ضرورت ہے‘ جن کے سینوں میں دل نہیں دھڑک رہے‘ جو کسی درجے کی ہمدردی اور سلوک کے نہیں‘ بلکہ صرف اور صرف (قرارواقعی) ’سزا‘ کے مستحق ہیں۔
No comments:
Post a Comment