ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پشاور کی خیر!
پشاور کی خیر!
سوگواری سی سوگواری ہے۔ مصائب نے جس طرح ہمارے ہاں گھر کر رکھا ہے‘ اِس سے
نجات کے لئے چند ایسے عملی اقدامات ناگزیر حد تک ضروری ہوگئے ہیں جو بھلے
ہی بھلے معلوم نہ ہوں لیکن آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے سخت فیصلوں کی
گھڑی میں خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا وقت آ چکا ہے۔
ورسک روڈ پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے شہری علاقوں میں حساس نوعیت کی تنصیبات محفوظ نہیں۔ دور دراز‘ دیہی و مضافاتی علاقوں کی بات تو ہے ہی الگ لیکن اگر صوبائی دارالحکومت پشاور کے دل اور چھاؤنی جیسی محفوظ حدود کے قریب دہشت گرد حملہ کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں تو اس قسم کا واقعہ کسی دوسرے مقام پر زیادہ شدت سے پیش آ سکتا ہے۔ پشاور میں سولہ دسمبر کی صبح سے دن ڈھلے تک دہشت گردوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد اور ہدف تھا کہ وہ پاک فوج کے اہل خانہ کو غم و تکلیف میں مبتلا کر سکیں تاکہ ’ضرب عضب‘ اور ’خیبر ون‘ نامی فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ پاک فوج کے جوان اپنے اہل خانہ کے غم میں ہلکان ہو کر اُس کارروائی سے ہاتھ روک لیں‘ جو صرف پاکستان ہی کی حفاظت کی جدوجہد نہیں بلکہ عالم اسلام کے قلعہ اور جوہری صلاحیت رکھنے والے دنیا کے پہلے اسلامی ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے یقیناًبزدل دشمن کی تاک اور اہداف سے ایک اُور زخم لگا ہے لیکن اِس سے نہ تو افواج پاکستان اور نہ ہی اہل پشاور کے حوصلے پست ہوں گے۔ (انشاء اللہ)۔
دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو شکست دینے کے لئے انتہاء پسند نظریات کے پرچار کو روکنا ضروری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول بندوبستی علاقوں کی طرح نہیں کیا جاسکتا؟ قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ یا خیبرپختونخوا میں ضم کرکے وہاں بندوبستی علاقوں کی طرح قانون وانصاف کا نظام فعال نہیں کیا جاسکتا؟ آخر ہمارے ہاتھ کس مصلحت نے روک رکھے ہیں کہ ہم اپنے ہی وجود کے لئے خطرہ بننے والے محرکات کا ادراک کرنے سے بھی خود کو قاصر و معذور پاتے ہیں! انگریز بہادر نے اپنے ’راج‘ کو برقرار رکھنے کے لئے اگر قبائلی علاقوں کی تخلیق کی تھی تو اُسے گئے کامل ستاسٹھ برس چار ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم اپنے ہی ملک سے امتیازی قوانین کا خاتمہ نہیں کر پا رہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ذاتی و گروہی مفادات کو ملک کے وسیع ترمفاد پر قربان کیا جائے۔ افسرشاہی‘ سیاسی حکمراں طبقے اور چند گنتی کے نام نہاد رہنماؤں (ملک برادری) نے اپنی بقاء اور مفاد کے لئے جس بدنیتی سے قبائلی علاقوں کی الگ حیثیت کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے‘اس میں تبدیلی کے سوأ ظلم و جبر میں تبدیلی و بہتری کا رتی بھر امکان باقی نہیں رہا۔
انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ اِس کا پرچار کرنے اور اسلامی تعلیمات کی آڑ میں اس کی تشہیر کرنے کے جملہ وسائل پر پابندی عائد کی جائے۔ سعودی عرب کی طرح وفاقی حکومت کا ادارہ ہر مسجد کے لئے یکساں موضوعات پر خطبات جمعہ جاری کرے۔ مذہب اور مقدس آیات و احادیث کے استعمال کی کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی جماعت کو اجازت نہ ہو۔ مدارس ہوں یا سکول و کالج درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے خواندگی کی شرط‘ قابلیت اور غیرسیاسی ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرکے اپنی بات کہہ سکتا ہے لیکن سیاسی نظریات رکھنے والوں کو مذہب کے استعمال اور مذہب کی آڑ میں شکار کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔
سکول کالج جامعات اور مدارس کے ساتھ مسجد ومنبر‘ سیاسی وغیرسیاسی اجتماعات میں مذہب کے استعمال اور نظریات کا پرچار کرنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ اگر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ رویت ہلال کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ رمضان و عید کے تہوار شروع کئے جائیں تو آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ سعودی عرب ہی کی طرز پر مذہب کے سیاسی استعمال کی کسی کو اجازت نہ دی جائے؟
انتہاء پسندی کو شکست فاش دینے کے لئے حساس نوعیت کے اِن موضوعات بارے کلام کئے بناء چارہ نہیں رہا۔ پشاور کے غم میں دنیا کا ہر صاحب دل شریک ہے۔ اہل پشاور دعاگو ہیں کہ اُنہیں ایسے مزید دکھ نہ ملیں۔ ’’میری جاں‘ میرے پشاور‘ میرے گلزار کی خیر!‘‘
پورا منظرنامہ دھندلا ہے۔ ہر آنکھ رو رہی ہے۔ ہر دل تڑپ رہا ہے۔ پشاور کو لگنے والے اِس تازہ زخم کا مداواہ شاید کبھی ممکن ہی نہ ہو۔ سولہ دسمبر کی صبح ورسک روڈ پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے دہشت گرد حملے اور سہ پہر چار بجکر پچاس منٹ تک 130 افراد کی ہلاکتیں‘ ایک سو تیس سے زائد زخمیوں پر کروڑوں دل خون کے آنسو رو رہے ہیں! اِس لمحے ہر خاص و عام اُس انتہاء پسندی سے نجات چاہتا ہے‘ جس میں معصوم اور بے قصور بچوں کے قتل تک کو جائز سمجھا جاتا ہے یقیناًہم ایک ایسی مسلط کردہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے قریب آ چکے ہیں‘ جس میں دشمن بزدلانہ وار کرنے پر اُتر آیا ہے‘ یہ وقت قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کے مظاہرے اور یک زبان ہو کر ’دہشت گردی و انتہاء پسندی‘ سے اظہار بیزاری کا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھول جیسے نازک و معصوم اور بے قصور بچوں کی ارواح کے درجات بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کے لواحقین کو صبر جمیل و اجر عظیم عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کے دشمنوں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے عزائم خاک میں ملائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ظالم کی مذمت کرنے کا حوصلہ‘ توفیق اور جرأت عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ اللہ تعالیٰ ماضی میں اختیار کی جانے والی غیردانشمندانہ حکمت عملیوں پر کف افسوس ملنے اور اصلاح احوال کرنے کی فکر عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ملک کے دفاع کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں کے حوصلے بلند اور ان کی مشکلات و خطرات کم کرے۔
ورسک روڈ پشاور کے ایک سکول پر دہشت گردوں کا حملہ اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارے شہری علاقوں میں حساس نوعیت کی تنصیبات محفوظ نہیں۔ دور دراز‘ دیہی و مضافاتی علاقوں کی بات تو ہے ہی الگ لیکن اگر صوبائی دارالحکومت پشاور کے دل اور چھاؤنی جیسی محفوظ حدود کے قریب دہشت گرد حملہ کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں تو اس قسم کا واقعہ کسی دوسرے مقام پر زیادہ شدت سے پیش آ سکتا ہے۔ پشاور میں سولہ دسمبر کی صبح سے دن ڈھلے تک دہشت گردوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد اور ہدف تھا کہ وہ پاک فوج کے اہل خانہ کو غم و تکلیف میں مبتلا کر سکیں تاکہ ’ضرب عضب‘ اور ’خیبر ون‘ نامی فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ پاک فوج کے جوان اپنے اہل خانہ کے غم میں ہلکان ہو کر اُس کارروائی سے ہاتھ روک لیں‘ جو صرف پاکستان ہی کی حفاظت کی جدوجہد نہیں بلکہ عالم اسلام کے قلعہ اور جوہری صلاحیت رکھنے والے دنیا کے پہلے اسلامی ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے یقیناًبزدل دشمن کی تاک اور اہداف سے ایک اُور زخم لگا ہے لیکن اِس سے نہ تو افواج پاکستان اور نہ ہی اہل پشاور کے حوصلے پست ہوں گے۔ (انشاء اللہ)۔
دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کو شکست دینے کے لئے انتہاء پسند نظریات کے پرچار کو روکنا ضروری ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قبائلی علاقوں کا کنٹرول بندوبستی علاقوں کی طرح نہیں کیا جاسکتا؟ قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ یا خیبرپختونخوا میں ضم کرکے وہاں بندوبستی علاقوں کی طرح قانون وانصاف کا نظام فعال نہیں کیا جاسکتا؟ آخر ہمارے ہاتھ کس مصلحت نے روک رکھے ہیں کہ ہم اپنے ہی وجود کے لئے خطرہ بننے والے محرکات کا ادراک کرنے سے بھی خود کو قاصر و معذور پاتے ہیں! انگریز بہادر نے اپنے ’راج‘ کو برقرار رکھنے کے لئے اگر قبائلی علاقوں کی تخلیق کی تھی تو اُسے گئے کامل ستاسٹھ برس چار ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہم اپنے ہی ملک سے امتیازی قوانین کا خاتمہ نہیں کر پا رہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ذاتی و گروہی مفادات کو ملک کے وسیع ترمفاد پر قربان کیا جائے۔ افسرشاہی‘ سیاسی حکمراں طبقے اور چند گنتی کے نام نہاد رہنماؤں (ملک برادری) نے اپنی بقاء اور مفاد کے لئے جس بدنیتی سے قبائلی علاقوں کی الگ حیثیت کو قائم و دائم رکھا ہوا ہے‘اس میں تبدیلی کے سوأ ظلم و جبر میں تبدیلی و بہتری کا رتی بھر امکان باقی نہیں رہا۔
انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے یہ بات بھی ضروری ہے کہ اِس کا پرچار کرنے اور اسلامی تعلیمات کی آڑ میں اس کی تشہیر کرنے کے جملہ وسائل پر پابندی عائد کی جائے۔ سعودی عرب کی طرح وفاقی حکومت کا ادارہ ہر مسجد کے لئے یکساں موضوعات پر خطبات جمعہ جاری کرے۔ مذہب اور مقدس آیات و احادیث کے استعمال کی کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی جماعت کو اجازت نہ ہو۔ مدارس ہوں یا سکول و کالج درس و تدریس سے وابستہ افراد کے لئے خواندگی کی شرط‘ قابلیت اور غیرسیاسی ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ جس نے سیاست کرنی ہے وہ سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرکے اپنی بات کہہ سکتا ہے لیکن سیاسی نظریات رکھنے والوں کو مذہب کے استعمال اور مذہب کی آڑ میں شکار کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔
سکول کالج جامعات اور مدارس کے ساتھ مسجد ومنبر‘ سیاسی وغیرسیاسی اجتماعات میں مذہب کے استعمال اور نظریات کا پرچار کرنے پر پابندی ہونی چاہئے۔ اگر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ رویت ہلال کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ رمضان و عید کے تہوار شروع کئے جائیں تو آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ سعودی عرب ہی کی طرز پر مذہب کے سیاسی استعمال کی کسی کو اجازت نہ دی جائے؟
انتہاء پسندی کو شکست فاش دینے کے لئے حساس نوعیت کے اِن موضوعات بارے کلام کئے بناء چارہ نہیں رہا۔ پشاور کے غم میں دنیا کا ہر صاحب دل شریک ہے۔ اہل پشاور دعاگو ہیں کہ اُنہیں ایسے مزید دکھ نہ ملیں۔ ’’میری جاں‘ میرے پشاور‘ میرے گلزار کی خیر!‘‘
پورا منظرنامہ دھندلا ہے۔ ہر آنکھ رو رہی ہے۔ ہر دل تڑپ رہا ہے۔ پشاور کو لگنے والے اِس تازہ زخم کا مداواہ شاید کبھی ممکن ہی نہ ہو۔ سولہ دسمبر کی صبح ورسک روڈ پشاور کے ’آرمی پبلک سکول‘ پر ہوئے دہشت گرد حملے اور سہ پہر چار بجکر پچاس منٹ تک 130 افراد کی ہلاکتیں‘ ایک سو تیس سے زائد زخمیوں پر کروڑوں دل خون کے آنسو رو رہے ہیں! اِس لمحے ہر خاص و عام اُس انتہاء پسندی سے نجات چاہتا ہے‘ جس میں معصوم اور بے قصور بچوں کے قتل تک کو جائز سمجھا جاتا ہے یقیناًہم ایک ایسی مسلط کردہ جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کے قریب آ چکے ہیں‘ جس میں دشمن بزدلانہ وار کرنے پر اُتر آیا ہے‘ یہ وقت قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کے مظاہرے اور یک زبان ہو کر ’دہشت گردی و انتہاء پسندی‘ سے اظہار بیزاری کا ہے۔ اللہ تعالیٰ پھول جیسے نازک و معصوم اور بے قصور بچوں کی ارواح کے درجات بلند کرے۔ اللہ تعالیٰ مرحومین کے لواحقین کو صبر جمیل و اجر عظیم عطافرمائے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کے دشمنوں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کے عزائم خاک میں ملائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ظالم کی مذمت کرنے کا حوصلہ‘ توفیق اور جرأت عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ اللہ تعالیٰ ماضی میں اختیار کی جانے والی غیردانشمندانہ حکمت عملیوں پر کف افسوس ملنے اور اصلاح احوال کرنے کی فکر عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ملک کے دفاع کے لئے قربانیاں پیش کرنے والوں کے حوصلے بلند اور ان کی مشکلات و خطرات کم کرے۔
No comments:
Post a Comment