Monday, December 15, 2014

Dec2014: Effective policing & wishes

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پولیس: نیک خواہشات کافی نہیں!
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ’اَمن و امان‘ کی صورتحال معمول پر لانے اور ’قانون کی بالادستی‘ بہرصورت قائم کرنے کے لئے ’مؤثرپولیسنگ‘ جیسے اہداف کا تعین کرنے کے بعد ’محکمہ پولیس‘ کو اَنواع و اقسام کی ذمہ داریاں سپرد تو کر دی گئی ہیں لیکن حساس مقامات‘ اہم شخصیت‘ تعلیمی اداروں‘ صحت کے مراکز‘ صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں کے اردگرد حفاظتی حصار‘ بارود اور نصب شدہ بموں کو ناکارہ بنانے‘ گلی گلی اور سڑک سڑک گشت‘ مسلح نگرانی‘ تھانہ جات کو فعالیت‘ ٹریفک کے بہاؤ کو سلجھانے‘ عمومی جرائم کے مرتکب افراد اور منظم جرائم کا ارتکاب کرنے والے گروہوں پر گرفت الغرض پیچیدہ نوعیت کے فرائض منصبی اور سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داریاں پولیس کو سونپ دی گئیں ہیں لیکن محکمۂ پولیس کی خاطرخواہ توسیع اور اِس فورس کو زمان و مکان کے مطابق مضبوط و توانا نہیں بنایا جا رہا یعنی پشاور کی آبادی کے تناسب سے پولیس کی افرادی قوت میں اضافہ اور مختلف قسم کے خطرات سے نمٹنے کے لئے درکار تکنیکی و حربی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔

پشاور میں پولیس کی کارکردگی پر اُٹھائے جانے والے سوالات کا تسلی سے جواب دیتے ہوئے ایک انتظامی نگران نے ’پولیس رولز 1939ء‘ کا حوالہ دیا‘ جسے اگر کسوٹی مان لیا جائے تو پشاور پولیس کی موجودہ نفری میں کم از کم 11 ہزار افراد کا اضافہ کرنا پڑے گا! یاد رہے کہ ’پولیس رولز 1939ء‘ کی شق (سیکشن 2.2) کے مطابق ہر 450 افراد ( کی آبادی) کے لئے 1 پولیس اہلکار ہونا چاہئے۔ 1998ء کی مردم شمار کے مطابق پشاور کی 38 لاکھ تھی جس میں پندرہ سال سے زائد عرصے کے دوران کم از کم 15 لاکھ نفوس کا اِضافہ ہو چکا ہے اُور اگر شورش زدہ قبائلی علاقوں اور افغان مہاجرین کے علاؤہ پشاور میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کو بھی شمار کیا جائے تو یہاں کی آبادی کسی بھی صورت 67 لاکھ سے زیادہ اور 70 لاکھ کے لگ بھگ ہو گی۔ اِس قدر آبادی کے تناسب پشاور پولیس کی موجودہ نفری ہر لحاظ سے کم یعنی (اَفرادی قوت) صرف 6 ہزار ہے‘جس میں کانسٹیبلز‘ ہیڈ کانسٹیلبز‘ اے ایس آئیز‘ ایس آئیز‘ اِنسپکٹرز‘ ڈی ایس پیز اُور ایس پیز شامل ہیں۔ اب اِن چھ ہزار پولیس اہلکاروں کو بسا اوقات چوبیس گھنٹے بھی ڈیوٹی کرنی پڑ جاتی ہے اور عمومی حالات میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی تو کہیں نہیں گئی۔ اِس قدر طویل اور اعصاب شکن ڈیوٹی مسلسل کرنے والوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ آپ کو مسکراتے ہوئے بھی ملیں۔ وہ مستعد بھی ہوں اور اُنہیں پشاوریوں سے زیادہ پشاور کو لاحق خطرات کے بارے میں تشویش ہو تو حقیقت کی دنیا میں ایسی توقعات رکھنا خودفریبی کہلاتی ہے!

پشاور پولیس کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اِس فورس کو ’دہشت گردی اور عسکریت پسندی جیسے جرائم سے نمٹنے کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا۔‘ وہ سبھی جرائم جن کا تعلق خصوصی نظریات اور اُن کے پرچار سے ہوتا ہے اور معاشرے کو تہہ در تہہ کچھ اِس انداز سے متاثر کرتے ہیں کہ نفرتوں کے اثاثے نئی نسل کو منتقل ہوتے رہیں تو ایسی سوچ‘ فکر اور تقلید کا مقابلہ عمومی تربیت و سلیقے اور طرز عمل سے نہیں کی جاسکتی۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پر فوج کشی کی اور وہاں سے عسکریت پسندوں نے جان بچانے کے لئے پاکستان کے قبائلی و بندوبستی علاقوں کا رخ کیا تو یہی وہ وقت تھا جب ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے تحت ملنے والی امداد سے پشاور پولیس کی افرادی قوت اور تکنیکی شعبوں کی معاونت کرتے ہوئے استعداد میں اضافہ کیا جاتا۔ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے الگ شعبہ بنایا جاتا اور پاکستان کی سرزمین خود پاکستان اور دیگر ممالک کے خلاف استعمال کرنے والوں کا مقابلہ نظریاتی محاذ پر بھی کرتے ہوئے‘ اُنہیں پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا موقع نہ دیا جاتا‘ لیکن بدقسمتی سے ترجیحات کا تعین کرنے میں دانستہ بھول کی گئی۔ بدقسمتی یہ بھی رہی کہ ماضی میں خیبرپختونخوا پولیس کی قیادت کرنے والوں نے اسلحہ و دیگر سازوسامان کی خریداری میں امانت و دیانت کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اگرچہ قومی احتساب بیورو اِس سلسلے میں ملزموں پر گرفت رکھے ہوئے ہے لیکن بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے اُس وقت کے سیاسی کردار آج بھی آزاد ہیں۔ قوانین کے اطلاق میں مجبوریاں اور حائل مصلحتیں اور اِداروں میں سیاسی مداخلت کے ثمرات سب کے سامنے ہیں!

محکمۂ پولیس پشاور کے اِنتظامی نگرانوں کو کریدا جائے تو وہ زیادہ سہولیات یا مراعات نہیں چاہتے بلکہ معصومانہ خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں موٹروے پولیس ہی کی طرح مراعات دی جائیں۔ جن کی گاڑیاں ہر ایک لاکھ کلومیٹر فاصلہ طے کرنے پر تبدیل کر دی جاتی ہیں‘ جنہیں گشت کے لئے جدید گاڑیاں دی جاتی ہیں۔ جنہیں آرام کرنے کے لئے باسہولت‘ صاف ستھرے ریسٹ ہاؤسیز کی سہولیات میسر ہیں۔ جنہیں کھانے پینے کی اشیاء موٹروے پر قیام و طعام کے مراکز سے خریدنے پر ’ساٹھ فیصد‘ رعائت ملتی جبکہ اُن کی تنخواہیں و مراعات محکمۂ پولیس کے مقابلے زیادہ بہتر ہیں۔

کیا پشاور کی سڑکوں پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک اہلکاروں کو ’ریسٹ ہاؤسیز‘ میسر ہیں؟ دھوپ‘ بارش‘ سردی گرمی‘ آندھی طوفان اور گردوغبار میں ڈیوٹی دینے والوں کو کسی قسم کا خصوصی الاؤنس دیا جاتا ہے؟ بم (بارودی مواد کی کھوج اور اُسے) ناکارہ بنانے والوں کو جان پر کھیلنے کے عوض کیا ملتا ہے؟ خلاصۂ کلام وہ عمومی تاثر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی نسبت پشاور پولیس پر زیادہ مالی وسائل خرچ ہو رہے ہیں لیکن اِن کی کارکردگی مثالی نہیں‘ یہ فورس منظم نہیں‘ یہ فورس وانتظامی طورپر بدعنوان ہے وغیرہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ ماہانہ تنخواہوں کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے‘ جس کی وجہ سے باوجود ضرورت و خواہش‘ اِس فورس کی پیشہ ورانہ تربیت و استعداد بڑھانے یا وسائل میں اضافہ نہیں ہو پاتا۔

پشاور کے کئی ایک تھانے‘ چوکیاں اور چیک پوسٹیں ایسی ہیں‘ جن کی چھتیں بوسیدہ اُور فرش اُکھڑے ہوئے ہیں یا جہاں بنیادی سہولیات کا معیار قابل ذکر نہیں۔ جہاں طبعی عمر پوری کرنے والی چارپائیوں پر کم اَزکم بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اَدا کرنے والے جب آرام فرما ہوتے ہیں‘ تو شاید پشاور کے بہت سے لوگ اُن بستروں‘ اُن سیم زدہ کمروں اُور اُن تاریک چھتوں تلے بخوشی آرام کرنا کبھی نہیں چاہیں گے!‘‘

No comments:

Post a Comment