Sunday, December 14, 2014

Dec2014: Fun in defeat

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شکست کے مزے!
ماہ دسمبر کا نصف سفر طے ہونا ابھی باقی ہے کہ سال دوہزار چودہ میں پولیو مرض کے پھیلنے سے متعلق تشویشناک حقائق بصورت اعدادوشمار سامنے آئے ہیں‘ چودہ دسمبر کے روز پولیو وائرس سے متاثرہ مزید چار بچوں کے سامنے آنے کے بعد ’وزیراعظم (انسداد) پولیو سیل‘ کا کہنا ہے کہ ’’رواں سال پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 280 ہوچکی ہے۔ سوات میں 13ماہ کے بچے ریحان‘ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں عیدگل اور خیبر ایجنسی میں دو بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔رواں برس قبائلی علاقوں میں پولیو کے 172‘ خیبر پختونخوا میں 61‘ سندھ میں 27‘ بلوچستان میں 17اور پنجاب میں تین کیسز سامنے آئے۔ یاد رہے کہ سال 2005ء کے دوران پاکستان میں کل 28 پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے جبکہ اِن میں کمی ہوتے ہوتے اچانک 2011ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کا تعداد 19‘ سال 2012ء میں 52 اُورسال 2013ء میں 72 پولیو کیسز کا اندراج ہوا۔ خود سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ ہرسال ہزاروں بچے پولیو سے بچاؤ کی ادویات لینے سے محروم رہ جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کی خراب صورتحال اور بعض اوقات خاندان کے افراد کی جانب سے انکار ہوتا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ رواں سال پاکستان میں دنیا کے سب سے زیادہ ’پولیو کیسیز‘ سامنے آچکے ہیں جبکہ جنگ زدہ افغانستان میں24‘ نائیجیریا میں 6‘ صومالیہ میں 5‘ عراق میں 2‘ کیمرون میں 5‘ شام اور کینیا میں ایک ایک پولیو سے متاثرہ کیس سامنے آیا ہے۔

پاکستان کے لئے نیک خواہشات اور عالمی سطح پر بچوں کو تمام عمر اپاہج و معذور بنا دینے والی پولیو بیماری کو شکست دینے کے خواہشمند مالی و تکنیکی امداد فراہم کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لے رہے۔ محکمہ صحت کے کئی ایک ایسے ملازمین جو اپنے محکمے سے ایک اور پولیو پروگرام سے ہر ماہ دوسری تنخواہ اور مراعات باقاعدگی سے وصول کرتے ہیں۔ غیرملکی دوروں پر جانے اور سرکاری خرچ پر تواضع طبع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے‘ اُن کے استری کئے ہوئے اُجلے ملبوسات اور چہروں پر اطمینان اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ انہیں اِس سے کوئی غرض ہی نہیں کہ برسرزمین حقائق تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غریب و متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے بچے پولیو کا شکار ہوتے ہیں اور آئندہ بھی صرف یہی بچے متاثر ہوتے رہیں گے وہ خام خیالی کا شکار اور خطرات سے کھیل رہے ہیں۔

عین ممکن ہے کہ اُن کے اپنے گھر یا خاندان میں یہی خفیہ طریقے سے وار کرنے میں ماہر بیماری ٹھکانہ کر لے۔ لہٰذا منہ سے گھنٹوں انگریزی کے پھول اگلنے والوں کو اپنی کارکردگی کا خود ہی احتساب کرنا ہوگا اور انسداد پولیو کی مہمات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا کیونکہ پاکستان کو پوری دنیا میں پولیو کا مرکز بنانا قابل فخر نہیں بلکہ قابل شرم بات ہے۔ جوہری صلاحیت‘ ناقابل تسخیر دفاع‘ ذہین ترین افرادی قوت‘ نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل افرادی قوت‘ ترقی کے لئے بہترین جغرافیائی محل وقوع‘ معدنی وسائل‘ زرخیز مٹی اور موسمی تنوع لیکن عالمی سفر کرنے والوں پر پابندی کہ وہ انسداد پولیو کی ادویات نوش فرما کر عزم سفر ہوں اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر پولیو کو شکست نہ دی گئی تو پاکستان پر مستقل سفری پابندی بھی عائد ہو سکتی ہے‘ جس کا نقصان اُس طبقے کو سب سے زیادہ ہوگا جو محنت مزدوری کے لئے بیرون ملک جاتا ہے۔

امن و امان کی غیریقینی صورتحال کو جس انداز میں ’انسداد پولیو‘ کی ذیل میں ناکامی سے جوڑا جاتا ہے‘ اُسی کو بنیاد بنا کر قبائلی علاقوں کی الگ و امتیازی حیثیت تبدیل کرنے کا یہی بہترین وقت اور موقع ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ قبائلی و نیم قبائلی علاقے پاکستان کا حصہ ہیں تو پھر وہاں یکساں قوانین اور انتظامی ڈھانچہ کیوں نافذالعمل نہیں یا نہیں ہوسکتا؟ اعدادوشمار کے مطابق پولیو وائرس صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ ملک کے وسطی بندوبستی علاقوں میں بھی پھیل چکا ہے اور اِس کی ایک بنیادی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار ہے کیونکہ ایک خاص طبقہ مانع پولیو ادویات کے بارے میں گمراہ کن نظریات پھیلاتا ہے۔ اِنتہاء پسندی پھیلانے والے ایسے عناصر سے نمٹنے کا یہی بہترین وقت اُور موقع ہے کہ اُن سے فیصلہ کن دو دو ہاتھ کر لئے جائیں۔

پولیو کو شکست دینے ہی میں پاکستان کی بھلائی ہے تو یہ اِس جاری جنگ میں ’شکست کے مزے‘ لوٹنے کی بجائے فتح کا ذائقہ چکھنے کی ہمت‘ نیت اور عملی اِقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی براہ راست زیرنگرانی اِنسداد پولیو کی کوششوں کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرنے کا یہی بہترین وقت اُور موقع ہے۔

No comments:

Post a Comment