ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مستقبل نہیں ماضی چاہئے!
مستقبل نہیں ماضی چاہئے!
نواسہ رسول‘ سیدالشہدأ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا چہلم عالم اسلام کی
طرح پشاور میں بھی پوری عقیدت و احترام‘ روائتی مذہبی جوش و خروش اُور
اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ سترہ صفر سے اٹھائیس سفر (شہادت حضرت اِمام حسن
رضی اللہ عنہ) تک مختلف پشاور شہر‘ صدر اور مضافاتی علاقوں کی مساجد و
اِمام بارگاہوں میں اجتماعات کا انعقاد اُس معمول کا حصہ ہے‘ جو ایام
عزاداری (یکم محرم سے آٹھ ربیع الاوّل) کے لئے مخصوص ہیں۔ ہر سال سن اکسٹھ
ہجری کی دس محرم (یوم عاشور) پیش آئے واقعات کربلا کی یاد میں کامل 2 مہینے
8 دن گھر گھر دعائیہ مجالس اور پرسہ داری کے ماتمی جلوسوں کے ذریعے تازہ
کی جاتی ہے‘ تاہم 1992ء کے یوم عاشور سے پشاور میں ’امن و امان‘ کی خراب
صورتحال تاحال معمول پر نہیں آ سکی جس کی وجہ سے بالخصوص محرم کے پہلے دس
دن میں نکلنے والے 63 چھوٹے بڑے جلوسوں‘ اور مجالس کے ساتھ ’چہلم اِمام‘ کی
مناسبت سے اجتماعات کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ اس سلسلے
میں پشاور پولیس ’آٹھ ربیع الاوّل تک محرم سیکورٹی پلان‘ جبکہ اس کے بعد
’ربیع الاوّل سیکورٹی پلان‘ کے تحت شہر و چھاؤنی اور مضافاتی دیہی علاقوں
سمیت متعلقہ مقامات کے داخلی و خارجی راستوں پر گاڑیوں کی آمدورفت اور
معمول کی ٹریفک بند کر دی جاتی ہے‘ جس سے مقامی لوگوں کے علاؤہ کاروباری و
یومیہ مزدوری کرنے والے طبقات کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ
پشاور شہر کی حدود میں ’تھوک‘ کا کاروبار کرنے والی منڈیاں اور اجناس کے
گودام قائم ہیں‘ جن سے پورے صوبے کو مال کی ترسیل ہوتی ہے‘ اِس لئے
غیراعلانیہ طور پر کسی بھی ’سیکورٹی پلان (حفاظتی حکمت عملی)‘ کا اطلاق
مقامی و غیرمقامی افراد کے لئے یکساں پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ کسی بازار
کو بند کرنے سے پہلے ہمیں اُن یومیہ مزدوری کرنے والوں کا احساس ہونا
چاہئے‘ جو اگر ایک دن نہ کمائیں تو اُن کے کنبے کو شاید فاقے کرنے پڑتے ہوں
گے! اِس سلسلے میں تجویز ہے کہ محرم الحرام کے پہلے دس ایام‘ چہلم اور
ربیع الاوّل سمیت جملہ مذہبی ایام سے قبل ذرائع ابلاغ (ریڈیو‘ ٹیلی ویژن‘
اخبارات‘ موبائل فون ایس ایم ایس اور جابجا اشتہارات آویزاں کرنے) کے ذریعے
عوام الناس کو مطلع کیاجائے کہ آنے والے دنوں میں کون کون سے راستے کن کن
اُوقات میں بند رکھے جائیں گے۔
ہنگامی حالات کی صورت کن راستوں کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے مقامی افراد کو آمدورفت کی اجازت الگ سے ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں تاجربرادری کے نمائندوں سے اِنتظامیہ کی ملاقاتیں اور اَخبارات میں معمول کی تصاویر شائع کردینا کافی نہیں‘کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر تاجر اور دکاندار کسی نہ کسی تنظیم کا حصہ ہو اور وہ سبھی خریدار (صارفین) جو کہ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے پشاور آنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ تاجر رہنما اُنہیں پیشگی مطلع بھی کرتے ہوں یا کر سکیں۔ ’سیکورٹی پلان‘ کے حوالے سے تعلیمی اِداروں کی اِنتظامیہ اُور والدین کو بھی اِعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہے۔ جب کہیں کوئی ایک سڑک بھی بند کی جاتی ہے اور غیراعلانیہ طور پر ٹریفک کے لئے کسی متبادل سڑک کا استعمال شروع کیا جاتاہے تو معمول سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے افراتفری کا ماحول عام ہو جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے بے ہنگم رش کی وجہ سے دفاتر یا تعلیمی اداروں کو جانے اور واپس آنے والوں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے بالخصوص جن راستوں پر سکول کی بسوں کو چلنے کی اجازت ہو‘ اُسے دیگر ٹریفک کے بوجھ سے الگ رکھنے کی تدبیر و انتظام ہونا چاہئے۔ نجی تعلیمی ادارے اگرچہ ہر بچے سے ’ٹرانسپورٹیشن(آمدورفت)‘ کی مد میں ٹھیک ٹھاک وصولی کرتے ہیں اور گنجائش سے زیادہ بچے بھی گاڑیوں میں سوار کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جن میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب‘ ایمرجنسی کشادگی کے راستے (ایمرجنسی گیٹ) اور ’سیٹ بیلٹ‘ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ ایسی تمام سکول بسوں‘ سوزوکی وین‘ ویگنوں اور دیگر گاڑیوں میں ’ٹریفک قواعد‘ کے مطابق بنیادی ضروریات کی تنصیب‘ بچوں کو سیٹ بیلٹ کے استعمال کا شعور دلانے‘ سکول بسوں میں موسیقی بجانے پر پابندی عائد کرنے اور چھوٹے سائز کی‘ ماحول دوست (سوزوکی) وینز‘ (گرین) منی بسوں کے استعمال کی حوصلہ اَفزائی اور تلقین ہونی چاہئے جس میں زیادہ سے زیادہ دس سے بارہ یا بیس سے پچیس بچوں کے بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش ہو۔ بچوں کو مرغیوں کی طرح بسوں میں ٹھونسنے اور دھواں اگلتی (طبعی عمر پوری کرنے والی) دیوقامت بسوں سے پشاور کو کم از کم اُس وقت تو نجات دلائی جا سکتی ہے جب تک اندرون شہر کی سڑکیں ’موٹروے جتنی کشادہ‘ نہیں کردی جاتیں۔ جب تک بازاروں سے تجاوزات ختم نہیں ہوتیں۔ دکاندار رضاکارانہ طور پر اپنی اپنی حدود تک واپس نہیں ہوجاتے۔ تہہ بازاری اور ہتھ ریڑھیوں کے لئے مقامات مقرر نہیں ہوتے یا جب تک پارکنگ کے لئے جگہیں مخصوص نہیں ہوتیں۔ یہ ٹریفک کا مسئلہ اُس وقت تک نہیں سلجھے گا‘ جب تک ’ون وے ٹریفک‘ کے لئے اَندرون شہر کی سڑکیں الگ الگ زونز میں تقسیم نہیں کر دی جاتیں۔
پشاور میں ٹریفک پولیس کا محکمہ تو ’ماشاء اللہ‘ موجود ہے‘ لیکن ’ٹریفک انجنیئرنگ‘ کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ کئی ایک ایسے یورپی ممالک ہیں جن کے شہر پشاور سے زیادہ گنجان آباد اور جن کی سڑکیں پشاور سے کم کشادہ ہیں لیکن وہاں ٹریفک کا بہاؤ یوں متاثر یا مفلوج نہیں ہوتا اور اس کی بنیادی وجوہات میں ایک تو عمومی شعور‘ احساس ذمہ داری اور ٹریفک قواعد و جملہ قوانین پر ہر کس و ناکس کا مکمل عمل درآمد ہے۔ ہمارے ہاں ڈرائیونگ لائسینس سے لیکر انڈیکیٹرز تک کا استعمال حسب سہولت و منشاء تو کیا جاتا ہے لیکن لازمی طور پر ایسا کرنے کو شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے! بات بن سکتی ہے اگر ہم میں سے ہر ایک کے لئے ’ٹریفک قواعد و جملہ قوانین‘ ایک جیسے ہوں‘ کسی سیاست دان یا حکمران کے لئے ٹریفک بند نہ ہو اور نہ ہی احتجاجی مظاہرے یا جلسے جلوسوں سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے!
پشاور میں ٹریفک سگنلز فعال کرنے‘ سٹی سرکلر روڈ سے تجاوزات کا خاتمہ اور مختلف دروازوں سے سرکلر روڈ پر آنے والی ٹریفک کے لئے اُوور ہیڈ یا انڈر پاسیز کی تعمیر کے ساتھ نکاسی آب کے ایک جامع منصوبے کی کوہاٹ روڈ سے نشتر آباد تک ضرورت ہے۔
پشاور کے روحانی خدوخال‘ روایات‘ اقدار‘ خوبیاں‘ امتیاز اپنی جگہ اہم لیکن کسی ایک گروہ کی مذہبی عقیدت دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔ ماضی میں (اُنیس سو بانوے سے قبل) محرم الحرام یا چہلم کے مواقعوں پر نہ تو راستے بند کئے جاتے تھے اور نہ ہی ماتمی جلوسوں کی گزرگاہوں پر بازار اور معمولات زندگی متاثر ہوتے تھے۔ المیہ ہے کہ دنیا بہتر مستقبل جبکہ اہل پشاور اپنے شاندار‘ محبت و اخلاص اور مذہبی رواداری سے بھرپور ماضی کے پھر سے لوٹ آنے کا تقاضا‘ التجائیں‘ مناجات اور دعائیں کر رہے ہیں۔
ہنگامی حالات کی صورت کن راستوں کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ قومی شناختی کارڈ کے ذریعے مقامی افراد کو آمدورفت کی اجازت الگ سے ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں تاجربرادری کے نمائندوں سے اِنتظامیہ کی ملاقاتیں اور اَخبارات میں معمول کی تصاویر شائع کردینا کافی نہیں‘کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر تاجر اور دکاندار کسی نہ کسی تنظیم کا حصہ ہو اور وہ سبھی خریدار (صارفین) جو کہ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے پشاور آنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ تاجر رہنما اُنہیں پیشگی مطلع بھی کرتے ہوں یا کر سکیں۔ ’سیکورٹی پلان‘ کے حوالے سے تعلیمی اِداروں کی اِنتظامیہ اُور والدین کو بھی اِعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہے۔ جب کہیں کوئی ایک سڑک بھی بند کی جاتی ہے اور غیراعلانیہ طور پر ٹریفک کے لئے کسی متبادل سڑک کا استعمال شروع کیا جاتاہے تو معمول سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے افراتفری کا ماحول عام ہو جاتا ہے۔ ٹریفک پولیس کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے بے ہنگم رش کی وجہ سے دفاتر یا تعلیمی اداروں کو جانے اور واپس آنے والوں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے بالخصوص جن راستوں پر سکول کی بسوں کو چلنے کی اجازت ہو‘ اُسے دیگر ٹریفک کے بوجھ سے الگ رکھنے کی تدبیر و انتظام ہونا چاہئے۔ نجی تعلیمی ادارے اگرچہ ہر بچے سے ’ٹرانسپورٹیشن(آمدورفت)‘ کی مد میں ٹھیک ٹھاک وصولی کرتے ہیں اور گنجائش سے زیادہ بچے بھی گاڑیوں میں سوار کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جن میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب‘ ایمرجنسی کشادگی کے راستے (ایمرجنسی گیٹ) اور ’سیٹ بیلٹ‘ کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ ایسی تمام سکول بسوں‘ سوزوکی وین‘ ویگنوں اور دیگر گاڑیوں میں ’ٹریفک قواعد‘ کے مطابق بنیادی ضروریات کی تنصیب‘ بچوں کو سیٹ بیلٹ کے استعمال کا شعور دلانے‘ سکول بسوں میں موسیقی بجانے پر پابندی عائد کرنے اور چھوٹے سائز کی‘ ماحول دوست (سوزوکی) وینز‘ (گرین) منی بسوں کے استعمال کی حوصلہ اَفزائی اور تلقین ہونی چاہئے جس میں زیادہ سے زیادہ دس سے بارہ یا بیس سے پچیس بچوں کے بیک وقت بیٹھنے کی گنجائش ہو۔ بچوں کو مرغیوں کی طرح بسوں میں ٹھونسنے اور دھواں اگلتی (طبعی عمر پوری کرنے والی) دیوقامت بسوں سے پشاور کو کم از کم اُس وقت تو نجات دلائی جا سکتی ہے جب تک اندرون شہر کی سڑکیں ’موٹروے جتنی کشادہ‘ نہیں کردی جاتیں۔ جب تک بازاروں سے تجاوزات ختم نہیں ہوتیں۔ دکاندار رضاکارانہ طور پر اپنی اپنی حدود تک واپس نہیں ہوجاتے۔ تہہ بازاری اور ہتھ ریڑھیوں کے لئے مقامات مقرر نہیں ہوتے یا جب تک پارکنگ کے لئے جگہیں مخصوص نہیں ہوتیں۔ یہ ٹریفک کا مسئلہ اُس وقت تک نہیں سلجھے گا‘ جب تک ’ون وے ٹریفک‘ کے لئے اَندرون شہر کی سڑکیں الگ الگ زونز میں تقسیم نہیں کر دی جاتیں۔
پشاور میں ٹریفک پولیس کا محکمہ تو ’ماشاء اللہ‘ موجود ہے‘ لیکن ’ٹریفک انجنیئرنگ‘ کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ کئی ایک ایسے یورپی ممالک ہیں جن کے شہر پشاور سے زیادہ گنجان آباد اور جن کی سڑکیں پشاور سے کم کشادہ ہیں لیکن وہاں ٹریفک کا بہاؤ یوں متاثر یا مفلوج نہیں ہوتا اور اس کی بنیادی وجوہات میں ایک تو عمومی شعور‘ احساس ذمہ داری اور ٹریفک قواعد و جملہ قوانین پر ہر کس و ناکس کا مکمل عمل درآمد ہے۔ ہمارے ہاں ڈرائیونگ لائسینس سے لیکر انڈیکیٹرز تک کا استعمال حسب سہولت و منشاء تو کیا جاتا ہے لیکن لازمی طور پر ایسا کرنے کو شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے! بات بن سکتی ہے اگر ہم میں سے ہر ایک کے لئے ’ٹریفک قواعد و جملہ قوانین‘ ایک جیسے ہوں‘ کسی سیاست دان یا حکمران کے لئے ٹریفک بند نہ ہو اور نہ ہی احتجاجی مظاہرے یا جلسے جلوسوں سے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے!
پشاور میں ٹریفک سگنلز فعال کرنے‘ سٹی سرکلر روڈ سے تجاوزات کا خاتمہ اور مختلف دروازوں سے سرکلر روڈ پر آنے والی ٹریفک کے لئے اُوور ہیڈ یا انڈر پاسیز کی تعمیر کے ساتھ نکاسی آب کے ایک جامع منصوبے کی کوہاٹ روڈ سے نشتر آباد تک ضرورت ہے۔
پشاور کے روحانی خدوخال‘ روایات‘ اقدار‘ خوبیاں‘ امتیاز اپنی جگہ اہم لیکن کسی ایک گروہ کی مذہبی عقیدت دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہونی چاہئے۔ ماضی میں (اُنیس سو بانوے سے قبل) محرم الحرام یا چہلم کے مواقعوں پر نہ تو راستے بند کئے جاتے تھے اور نہ ہی ماتمی جلوسوں کی گزرگاہوں پر بازار اور معمولات زندگی متاثر ہوتے تھے۔ المیہ ہے کہ دنیا بہتر مستقبل جبکہ اہل پشاور اپنے شاندار‘ محبت و اخلاص اور مذہبی رواداری سے بھرپور ماضی کے پھر سے لوٹ آنے کا تقاضا‘ التجائیں‘ مناجات اور دعائیں کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment