Friday, December 12, 2014

Dec2014: Justified governance why not

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
منصفانہ طرز حکمرانی کیوں نہیں؟
حقیقت کچھ بھی ہو لیکن ’تحریک انصاف‘ کے اِس دعوے پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا صرف اور صرف اُنہیں کی مخالفت میں ہورہا ہے۔ بارہ دسمبر کے روز اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکے بعد دیگرے غیرمعمولی کمی کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی دوسری مرتبہ کم کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے‘ جس کا متوقع اعلان تحریک انصاف کے لاہور میں شٹرڈاؤن ہڑتال سے قبل کیا جائے گا تاہم اصولی فیصلہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے ایک غیرمعمولی اجلاس میں کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں ایک مبہم سا بیان وزیراعظم کے ترجمان اور مشیر برائے پانی و بجلی مصدق ملک کی طرف سے آیا ہے موصوف کہتے ہیں کہ ’’تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جناب من‘ تیل کی قیمتیں کم ہوئے تین ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اچانک بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا خیال کیسے آیا؟

 سینیٹ کی جس قائمہ کمیٹی نے بجلی کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے زائد قرار دی ہیں‘ کیا وہ اِس سے قبل ’ملک میں غریبوں کی آبادی‘ سے بے خبر تھی؟ اچانک ایسا کیا ہوگیا کہ حکومت کو غریب و متوسط طبقات کی یاد آ گئی ہے؟ کیا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کچھ اِس انداز سے کی گئی ہے کہ اِس سے عام آدمی کو زیادہ فائدہ ہو اور وہ لوگ جو لاکھوں روپوں کی گاڑیاں اور آسائش پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں‘ وہ اِس رعائت سے فائدہ نہ اُٹھا سکیں؟ اگر بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کی جاتی ہے تو کیا اِس سے اُن گھریلو صارفین کو فائدہ نہیں ہوگا جو کینالوں اور ایکڑوں پر پھیلے گھروں میں رہتے ہیں؟ آخر ایسی حکمت عملیاں مرتب کیوں نہیں کی جاتیں جس سے مرلہ کے گھر میں رہنے والے ہی مستفید ہوں اور وہ طبقات جو پہلے ہی ٹیکس چوری کرکے شاہانہ زندگی بسر کررہے ہیں اُن سے حسب حال بجلی و تیل کی پوری قیمت وصول کی جائے؟ المیہ تو یہ ہے کہ وہ طبقہ کہ جو تیل اور بجلی کی کوئی بھی (زیادہ سے زیادہ) قیمت ادا کرسکتا ہے‘ اُس پر بوجھ نہیں ڈالا جاتا اور جس کے پاس گن گن کر پس و پیش کرنے کو پائی تک باقی نہیں رہتی‘ اُس کی کمائی کا ایک ایک پیسہ حیلوں بہانوں (ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے) ’لوٹ‘ لیا جاتا ہے! بجلی کی فی یونٹ قیمت کب اور کتنی کم ہوگی‘ اس حوالے سے کسی نئے طریقہ کار (فارمولے یا سلیب) کے حوالے سے غوروخوض الگ سے جاری ہے اور بقول سرکار‘ مقصد یہ ہے کہ ’متوسط طبقے کو ریلیف دیا جائے! اور جو صارف پچاس یا اس سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں‘ اُنہیں نئی رعائت سے فائدہ نہ دینا بھی سفارشات کا حصہ ہے۔‘

اِس مرحلہ فکر پر ایک لمحے کے رُک جائیں۔ پاکستان میں ٹیکس اَدا نہ کرنے والا ایک طبقہ ایسا ہے جو اربوں روپے کی آمدنی میں سے چند لاکھ خرچ کرکے قانون ساز ایوان کے لئے ایسے نمائندے منتخب کراتا ہے جو اُس کے مستقل مفادات کے مستقل ضامن رہے۔ بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کہ جن کی آمدنی کا ذریعہ زراعت ہے‘ اُن کے لئے نئی حکمت عملیاں اور قانون سازی پریشانی کا باعث نہیں بنتی اور نہ ہی اُنہیں کسی خسارے کا ’خوف‘ رہتا ہے۔ جب تک پاکستان میں ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا جاتا اور اُن طبقات سے آمدنی‘ طرز رہائش و آسائش کے مطابق ٹیکس وصول نہیں کئے جاتے‘نہ تو فی یونٹ بجلی کی قیمت کم کرنے سے کچھ حاصل ہوگا اور نہ ہی پیٹرولیم مصنوعات سستی کرنے سے عام آدمی تک اس کے ثمرات منتقل ہوں گے۔مسئلہ ایک ایسے طبقے اور سوچ کی حاکمیت کا ہے جس نے سارے وسائل اور فیصلوں پر اختیار پانے کے بعد سرکاری اداروں میں کچھ انداز سے مداخلت کی ہے کہ احتساب کا قانون تو موجود ہے لیکن اس کی زد میں آنے والے تصفیہ کرکے گلوخلاصی کرالیتے ہیں۔

اربوں روپے لوٹنے والے لاکھوں روپے جرمانہ ادا کرکے باعزت طریقے سے معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ عام انتخابات میں بطور اُمیدوار حصہ لینے کے لئے اہلیت کی شرط اور قواعد موجود ہیں لیکن اُنہیں بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ منتخب اراکین اسمبلی اپنے اثاثوں کی تفصیلات حلفیہ جمع کراتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں‘ لیکن انہیں نااہل قرار نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اُن کے اثاثوں کی حیثیت کے بارے میں آزاد ذرائع سے تصدیق کرائی جاتی ہے۔ جس نے جو لکھ کر دے دیا‘ وہی من وعن سچ تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہمیں ایک طرف غیرجانبدار‘ آزاد اور فیصلہ سازی میں خودمختار ’الیکشن کمیشن‘ کی ضرورت ہے تو ساتھ ہی محصولات جمع کرنے والے ایک ایسے ادارے کی کمی بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو آمدنی و مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس وصولی کے طریقۂ کار پر عمل درآمد ممکن بنائے۔ عام آدمی کو ’لالی پاپ‘ تھمانے سے اُس کے منہ کا ذائقہ تو وقتی طور پر میٹھا کیا جاسکتا ہے لیکن اگر اکثریت کی زندگیوں سے گھل جانے والی تلخیوں کی کرواہٹ ختم کرنا ہے تو اس کے لئے ایک ’منصفانہ طرز حکمرانی‘ اختیار کرنا ناگزیر حد تک ضروری ہو چکا ہے۔

تبدیلی کی اُن آوازوں پر کان دھرنا کا آخری موقع غنمیت جانتے ہوئے سوئے ہوئے ضمیر جاگ اُٹھنے چاہیءں۔ بدعنوانی سے پاک‘ استحصال سے کنارہ کش‘ امتیازات سے بالاتر اور اقرباء پروری کی سرحدوں سے دور ایک ایسے ’نئے پاکستان‘ کا خواب تعبیر چاہتا ہے جہاں کے باسی مطمئن زندگی بسر ہوئے اپنے قول و فعل سے کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لئے خطرہ نہ ہوں لیکن اگر جمہوری نظام کی قدروں اور تقاضوں کا نہیں سمجھا جاتا تو جنہوں نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے لئے قلعہ نما گھروں اور محافظوں کے حصاروں میں پناہ لے رکھی ہے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ خونیں انقلاب اور احتساب سے قبل معاملات بہتر بنانے کا شاید یہی آخری موقع ہے۔

No comments:

Post a Comment