Thursday, December 11, 2014

Dec2014: US Senate Report

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ظلم و بربریت: حسن والوں کی سادگی نہ گئی!
امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد‘ وفاقی ادارہ برائے تحقیقات (سینٹرل انٹلی جنس ایجنسی‘ سی آئی اے) نے تفتیش کے دوران مشتبہ افراد کو اِنسانیت سوز اَنداز میں اَذیت کا نشانہ بنایا اور یہ طریقہ کار یا طرز عمل ’’امریکی اقدار کے منافی‘‘ تھا۔ امریکہ کے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی قائمہ کمیٹی برائے خفیہ اداروں کی مرتب کردہ یہ رپورٹ عالمی سطح بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والی حقوق انسانی کی تنظیمیں اپنی اپنی حکومتوں سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ ’پوچھ گچھ کا ظالمانہ طریقہ کار اختیار کرنے کا جواز کیا تھا؟‘ یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ ’’نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ سے کس ملک نے کتنا تعاون کیا؟‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’سی آئی اے‘ نے اُن قیدیوں کے ساتھ غلط سلوک برتا‘ جن پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور پوچھ گچھ کے لئے یا ’اضافہ شدہ تفتیش کے طریقوں‘ کے مؤثر ہونے کے بارے میں کانگریس اور امریکی عوام کو گمراہ بھی کیا گیا‘ جس میں قیدیوں کو چھوٹی کوٹھڑی میں بند رکھنا‘ نیند نہ کرنے دینا اور ’واٹر بورڈنگ‘ شامل ہے‘ جس میں انسان کو ڈوبنے کا احساس دلایا جاتا ہے۔ رپورٹ جاری کرتے ہوئے‘ سینیٹر ڈائن فائن سٹائن نے کہا کہ ’’تشدد کی اصطلاح کے عام معنی یہ ہیں کہ سی آئی اے نے قیدیوں کو ’’بے انتہاء اذیت‘‘ پہنچائی۔‘‘ بقول اُن کے‘ اِس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ایک دہائی قبل ’’سی آئی اے کے اختیار کردہ حربے‘ امریکی اقدار اور تاریخ پر دھبہ ہیں۔‘‘

امریکہ کے خفیہ ادارے نے جس انداز میں طاقت و اختیارات کا ’اَندھا دھند‘ استعمال کیا ہے‘ اُس میں صرف اُنہیں کو قصوروار ٹھہرانا جائز نہیں ہوگا۔ وہ سبھی اتحادی ممالک بشمول پاکستان کا نام بھی اُس فہرست میں شامل ہے جنہوں نے ’سی آئی اے‘ کے ایجنٹوں کو بلاروک ٹوک اپنے ملک میں مشتبہ افراد کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دے رکھی تھی۔ پاکستان نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر سفارتکار تک سی آئی اے حوالے کئے اور عافیہ صدیقی کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے‘ جس کی وجہ سے ہر باضمیر پاکستانی کا سر جھکا دکھائی دیتا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ مسلم ممالک امریکہ کے ساتھ اُن تمام ’جنگی جرائم‘ میں شریک ہیں‘ جن کا پردہ فاش ہو چکا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی ملک نے اپنے دفاع کے لئے اسلحہ لے کر سودے بازی کی‘ کسی کو اپنا اقتدار طویل کرنا عزیز تھا۔

 کسی ملک کی قیادت نے اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کرنے اور ڈالروں کے بھرے ہوئے بیگ وصول کئے اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے امریکہ کی محبت میں مسلم امہ کے اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔ آج امریکہ کے مظالم کے خلاف خود امریکہ ہی میں مذمت اور احتجاج ہو رہا ہے لیکن وہ سبھی ممالک خاموش ہیں‘ جن کے باشندوں کو اذیت دی گئی‘ جنہیں چن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا‘ اور حبس بیجا میں رکھنے والوں کو اس حد تک ذہنی و جسمانی اذیتیں دی گئیں کہ وہ یا تو اپنے حواس کھو بیٹھے یا پھر دم ہی توڑ گئے۔ امریکی سینیٹ کی ’سی آئی اے‘ سے متعلق حالیہ رپورٹ کی وجہ سے امریکی عوام کی بجائے اُس سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غم وغصے کا اظہار ہونا چاہئے‘ جنہوں نے خود امریکی قوانین اور اقدار کو پائمال کیا۔ امریکہ کے صدر باراک اوباما کی مذمت اُن کے بیان سے عیاں ہے جس میں اُنہوں نے ہے کہ ’’تفتیش کے یہ اِنتہائی سخت طریقے نہ صرف بحیثیت قوم ہمارے اقدار کے برخلاف تھے بلکہ انسداد دہشت گردی کی ہمارے وسیع تر کوششوں یا ہمارے قومی سلامتی کے مفادات کو بچانے میں اِن سے کوئی مدد نہیں ملی۔ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پھر کبھی ایسے طریقوں کو اختیار نہ کیا جائے۔‘‘

امریکی سینیٹ رپورٹ جاری ہونے کے بعد‘ سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر جان برینن نے تسلیم کیا ہے کہ ’’ایک عشرہ قبل مشتبہ دہشت گردوں سے تفتیش کے دوران ادارے نے اُن اعلیٰ اقدار کی پاسداری نہیں کی‘ جنہیں ہم نے بڑی جدوجہد کے بعد اپنے لئے معین کیا تھا۔‘‘ برینن کے بقول سی آئی اے نے ’’ایسی ہی غلطیوں سے سیکھا ہے۔‘‘ سال 2009ء میں عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد صدر اُوباما نے نام نہاد ’اضافہ شدہ تفتیشی طریقوں‘ کے اِستعمال پر پابندی عائد کی‘جن کی اُن کے پیش رو جارج ڈبلیو بش نے 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد اجازت دے رکھی تھی‘ یاد رہے کہ سات اکتوبر دو ہزار سے دنیا پر مسلط کی جانے والی جنگ کے ’’13 سال 2 ماہ اور 4دن‘‘ کے عرصہ میں عراق‘ اَفغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد دولاکھ بیس ہزار سے زیادہ ہے! امریکہ کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی جانب سے مذمت تو بہت کی گئی لیکن کسی نے تاحال ’معافی‘ نہیں مانگی ہے‘ کیا یہی امریکی اقدار ہیں کہ دو لاکھ سے زائد عام لوگوں کی ہلاکت‘ انسانیت سوز تشدد اور قتل جیسے جرائم کا ارتکاب‘ فساد کا ’’سبب‘‘ اور دنیا پر جنگ مسلط کرنے جیسے اعمال کے باوجود (رسمی طورپر) ’’SORRY‘‘ تک بھی نہ کہا جائے!

No comments:

Post a Comment