Wednesday, December 10, 2014

Dec2014: Military Plan

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
پلان ’ایم‘
کیا پاکستان تحریک اِنصاف یہی چاہتی تھی کہ اُس کے خلاف طاقت کا غیرمحتاط استعمال کیا جائے؟ کیا فیصل آباد کی طرح ملک کے دیگر شہروں میں بھی سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے سے مشت وگریباں ہونے جا رہے ہیں؟ کیا انتخابی عمل میں دھاندلیوں کی تحقیقات‘ طرز حکمرانی کی اصلاح اور بے رحم احتساب ’خون خرابہ‘ ہوئے بغیر یہ مطالبات نہیں سنے جائیں گے؟ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں اُبھرنے والی ملک کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سیاسی انتشار کے ماحول میں تجاہل عارفانہ اختیار کئے ہوئے ہے؟ جماعت اسلامی پاکستان تحریک انصاف کے پلان سی اور ڈی کی بجائے پلان ’ایم‘ کو کامیاب ہوتا دیکھ رہی ہے؟

سیاست میں جانی قربانیوں کا فائدہ صرف اور صرف عام انتخابات میں ہوتا ہے اور اِس بات کو پیپلزپارٹی سے زیادہ اُور کون سمجھ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف طاقت کا استعمال جبکہ دوسری جانب مطالبات کا وزن ایک ٹانگ پر ڈالنے اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں قیادت کو اِس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کہ سیاسی افراتفری کے ماحول میں ’پاکستان‘ کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ جس حکمراں طبقے نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے ذاتی اثاثوں میں منتقل کئے اور اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح دی‘ کیا اُن سب کو معاف کر دینا چاہئے؟ اگر ہاں تو اِس کے لئے جنوبی افریقہ کی سیاسی جماعت ’افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی)‘ کے سربراہ رہے نیلسن منڈیلا (مادیبا) کا تخلیق کردہ ’نیشنل ری کنسیلی ایشن کمیشن‘ ایک بہترین مثال ہے‘ جس کا پاکستان کی صورتحال میں اطلاق یوں ہو سکتا ہے کہ وسائل لوٹنے والوں کو سپرئم کورٹ کے جج کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر ایک جرم کا اقبال کرنا ہوگا۔ اُس نے کتنی چوری کی اور کتنے وسائل بیرون ملک منتقل کئے۔ اعتراف جرم کے بعد آئین کے مطابق اُس کے خلاف فردجرم عائد کیا جائے اور پھر اُن تمام جرائم سے اُسے بری کرتے ہوئے ایک ایسی سند دی جائے جس میں جرائم کی تفصیلات درج ہوں۔ اِس طرح اگرچہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت تو واپس نہیں آئے گی اور نہ ہی خیانت و بددیانتی کرنے والوں کو سزائیں ہوں گی لیکن اِس سے فائدہ یہ ہوگا کہ ’مجرموں کی شناخت کا عمل مکمل ہو جائے گا۔‘ پھر اگر قانون ساز ایوان چاہے تو ایسے مجرموں پر تاحیات عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردے اور اگر چاہے تو اُن سے آئندہ چوری و خیانت نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ طلب کرے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ’قومی مفاہمت‘ کے نام پر بناء شخصیات کو ظاہر کئے اور بناء اُن کے جرائم کو افشاء کئے ’’معاف‘‘ کردیا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔ جنوبی افریقہ کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے مادیبا کا یہ طریقہ کس حد تک کارگر ثابت ہوا‘ اِس بات کا اندازہ جنوبی افریقہ کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ‘ اقتصادی ترقی اور غربت میں کمی کی رفتار کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جنوبی افریقہ میں پاکستان ہی کی طرح بجلی کا بحران پایا جاتا ہے اور سال 2008ء سے جاری اس بحران کی سبب 44.4 ارب ڈالر کے مساوی معیشت کو خسارہ ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ منفی اثر انجنینئرنگ اور لوہے کی صنعت کو ہوا ہے جس کا تخمینہ 520 ملین (باون کروڑ) ڈالر لگایا ہے لیکن وہاں مسئلہ پاکستان کی طرح سنگین نہیں کیونکہ ملک کے 32 بڑے صارفین 41 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں اور حکومت بجلی کے پیداواری شعبے کو وسعت دینے کے لئے اپنے وسائل سے سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے۔ چونکہ جنوبی افریقہ کے سفیدفام باشندوں لوٹ مار کی اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا اور جنہیں بعدازاں ’اے این سی‘ کی جانب سے معافی مل گئی لیکن ملک کا قبلہ درست کر لیا گیا اور اب مالی خیانت کرنے والوں کا جنوبی افریقہ کی موجودہ سیاسی فیصلہ سازی میں کوئی عمل دخل نہیں۔ یوں 1980ء میں 80ارب ڈالر کی معیشت کا حجم 2014ء میں 510 ارب ہو چکا ہے! ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی افریقہ اقتصادی ترقی کے لحاظ سے 33ویں پر جبکہ پاکستان 43ویں نمبر پر ہے! پاکستان کے نکتہ نظر سے یہ اعدادوشمار تشویشناک ہیں کیونکہ بھارت دنیا کے اُن سرفہرست دس ممالک میں شامل ہے‘ جن کی اقتصادی ترقی کا حجم ایک سو ستاسی ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی افریقہ کی کرنسی ’رینڈ‘ کے مقابلے پاکستان کرنسی کا شرح تبادلہ 8.82 ہے یعنی ایک رینڈ کے عوض 8.82 روپے ملتے ہیں۔

احتجاج کی سیاست جاری رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی خوش آئند ہے جس کا خیرمقدم کرتے ہوئے حکومت کو اِس نادر موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اگر تحریک انصاف کے قائدین اپنے بیانات اور وزیراعظم کے مستعفی ہونے جیسے دیرینہ مطالبے سے ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں تو حکومت بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے افہام وتفہیم کو آزمائے۔ بڑے شہروں کو بند کرنے اور بعدازاں ملک گیر سطح پر کاروباری سرگرمیاں معطل کرنے سے نہ تو تحریک انصاف کو کچھ حاصل ہوگا اور نہ ہی حکومت کے ہاتھ کچھ آئے گا بلکہ ہوسکتا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ملک کو محاذ جنگ بنانے والے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پاک فوج اِس پورے قضیے سے الگ نہ ہوتی تو ایک سو دس دن سے زائد جاری احتجاج کب کا تحلیل ہو چکا ہوتا‘ جیسا کہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری ’انقلاب مارچ‘ نامی احتجاج سے اعلانیہ طور پر علیحدہ ہوچکے ہیں لیکن اگر کسی کا یہ خیال ہے فوج خود کو زیادہ عرصے اِس پورے سیاسی معاملے سے الگ رکھ پائے گی‘ تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ پلان ایم (ملٹری) کے تحت پاکستان کے وسائل لوٹنے والوں کو بھی اُسی صف (لائن آف فائر) میں کھڑا کرنا چاہئے جس میں عسکریت پسندوں کو شمار کیا جارہا ہے۔ اقتصادی ومعاشی نقصانات‘ سیاسی و داخلی محاذوں پر اِنتشار‘ اختیارات کے استعمال سے لوٹ مار اور انتخابی عمل میں دھاندلی کے بارے میں برداشت کی بھی آخر کوئی نہ کوئی حد تو ’مقرر‘ ہونی چاہئے۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ فیصلہ بھی کر ہی لینا چاہئے کہ ظلم‘ جبر اور ناانصافیوں کس حد تک قابل قبول ہیں!

No comments:

Post a Comment