Tuesday, December 9, 2014

Dec2014: Landmark of downfall

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
زوال کی نشانیاں
وفاقی اِدارہ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق چار دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے تک مہنگائی کی شرح کمی ہوئی ہے اور اگر چار دسمبر کے ہفتے کا موازنہ اگر گذشتہ ہفتے سے کیا جائے تو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کی مجموعی شرح 0.67 فیصد رہی۔ حکومتی اِدارے کا کہنا ہے کہ ’’چار دسمبر تک آلو‘ پیٹرول‘ ٹماٹروں‘ ڈیزل‘ مٹی کے تیل‘ پیاز‘ مائع گیس (ایل پی جی) سلینڈر‘ چینی‘ گھی‘ گڑ‘ انڈے‘ گندم کے آٹے‘ میدہ دالیں‘ کھانے کا تیل‘ باسمتی چاول‘ سرسوں کے تیل‘ گندم اور کیلے کی قیمت میں کمی جبکہ پکی ہوئی اشیائے خوردونوش‘ مسور کی دال‘ مرچ کے پاوڈر‘ جلانے کی لکڑی اور فارمی مرغی کی قیمتیں بڑھی ہیں اور باقی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا۔‘‘

حکومتی ادارے جب مہنگائی یا اشیاء و کارکردگی کے معیار کی بابت کوئی رپورٹ جاری کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رپورٹ مرتب کرنے والے کسی دوسرے ملک کے باسی ہوں یا وہ بیرون ملک بیٹھ کر ایسی رپورٹیں بنا رہے ہوں۔ کیا اُنہیں برسرزمین حقائق کا علم نہیں کہ مسئلے کا حل ’مہنگائی کے ایک فیصد سے بھی کم ہونے کا نہیں‘ بلکہ عام آدمی کی قوت خرید کا ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہے۔

حکومت کی جانب سے کم سے کم ماہانہ تنخواہ (اُجرت) مقرر تو کر دی گئی ہے لیکن اِس پر عمل درآمد کون کرائے گا‘ اِس بارے میں طریقۂ کار واضح نہیں۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اور جاگیردار عام انتخابات میں سرمایہ کاری کے ذریعے قانون ساز ایوانوں کے رکن منتخب ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد قانون و قواعد پر عمل درآمد اُن کی مرضی سے ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا قانون موجود نہیں جس میں یہ لکھا ہو اِس کا اطلاق صرف اور صرف غریب‘ بے اختیار اور معاشرے کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والوں پر ہوگا لیکن عمومی مشاہدہ ہے کہ کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی شکایت پر ’ایف آئی آر‘ تک درج نہیں ہوتی۔ دنیا کا کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں جہاں کے وفاقی و صوبائی سربراہان مملکت پر قتل اور دہشت گردی میں ملوث ہونے والی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہوں لیکن وہ نہ تو گرفتار ہوں‘ نہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی ہو اور نہ ہی وہ اخلاقی جواز کے طور پر اعلیٰ و ادنی انتظامی عہدوں سے علیحدہ ہوں۔ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ ’حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے لیکن ناانصافی سے نہیں۔‘

بجلی کی فی یونٹ قیمت‘ اَنواع و اقسام کے ٹیکس عائد کرنے کے بعد قابل برداشت نہیں رہتی اور اِس سلسلے میں کم یونٹ خرچ کرنے والے گھریلو صارفین سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں جنہیں ریلیف دینے کے لئے ہر حکومت متواتر اعلانات کرتی ہے لیکن عملی اِقدامات کون کرے گا۔ زندگی کا کوئی ایک ایسا شعبہ بھی نہیں‘ جس پر مہنگائی کے منفی اثرات حاوی نہ ہوں بلکہ قوت خرید کم ہونے کے سبب کم آمدنی والے طبقات شدید مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی لیکن اس کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچ سکے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور مال برداری میں اِستعمال ہونے والے اِیندھن کے مقابلے پرتعیش گاڑیوں کو رواں دواں رکھنے والی مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ کمی ہوئی! جب تک ہم اِس حقیقت کا ادراک نہیں کرتے کہ مسئلہ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام میں اُن گیارہ کروڑ نفوس کا ہے جو ’خط غربت سے نیچے‘ زندگی بسر کررہے ہیں اور اُن کی یومیہ آمدنی اِس حد تک کم ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بنیادی ضروریات بشمول کھانے پینے‘ تعلیم و علاج پر اُٹھنے والے اخراجات پورے نہیں کرسکتے‘ تب تک ہر حکمت عملی کے منفی اثرات زیادہ رونما ہوں گے۔ مثال کے طورپر حکومت کی جانب سے مالی امداد دینے کا ایک طریقہ کار موجود ہے‘ جس سے مستحق افراد میں نقد رقومات تقسیم کی جاتی ہیں لیکن اِس نظام میں سیاسی مداخلت اور مانگ کر ضروریات پوری کرنے والے ’پیشہ ور مداریوں‘ کی وجہ سے پورا نظام بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر سیاسی حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے نظریاتی ساتھیوں کی ضروریات پوری کرے۔ اس مقصد کے لئے حکمت عملیاں مرتب کی جاتی ہیں لیکن چونکہ اِن کا مقصد مخصوص طبقے کو نوازنا ہوتا ہے اِس لئے وہ پائیدار ثابت نہیں ہوتیں۔

ماضی میں ’اے ٹی ایم کارڈز‘ (بینکوں) کے خودکار نظام کے ذریعے مالی مدد دینے کی حکمت عملی وضع کی گئی‘ جسے موجودہ حکومت نے بھی جاری و ساری رکھا لیکن اِس حکمت عملی سے مستفید ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق ’حیرت انگیز طور پر‘ اُسی سیاسی جماعت سے ہے‘ جس نے یہ منصوبہ شروع کیا تھا۔ چونکہ ہمارے ہاں ’عجائبات‘ اور ’ذہانت‘ کی کمی نہیں تھی اِس لئے ایک ہی گھر اور خاندان کی ہر خاتون کو الگ الگ امداد ملنے لگی‘ جو سلسلہ آج بھی جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری خزانے سے ادائیگیاں کرکے سیاسی جماعتیں زندہ ہیں اور اُن کے رہنماؤں کے بارے میں یہ نعرے سننے کو ملتے ہیں کہ وہ بھی زندہ ہیں! اپنے گردوپیش پر نگاہ ڈالیں۔ ترقیاتی عمل اور اس کے معیار کو دیکھیں۔ وہ گلیاں‘ سڑکیں‘ نالے نالیاں اور تعمیرات جو کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئیں ایک بارش کا بہاؤ اور ہلکے سے زلزلے کے جھٹکے بھی نہیں سہہ پائیں۔ پاکستان کو مالی طور پر جس قدر نقصان جمہوریت کا لبادا اوڑھنے والوں نے پہنچایا ہے‘ اس کی مثل مثال اور جواز کہیں اور نہیں ملتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی طرح کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے لئے ’فوڈ اِسٹمپس‘ جاری نہیں کئے جاتے؟ شرح مہنگائی کے مقابلے قوت خرید بڑھانے کے لئے مزدور کی کم سے کم اُجرت کی اَدائیگی سے متعلق قانون پر عمل درآمد نہیں کیا ہو رہا۔ آخر کیا سبب ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو ملازمتوں کا تحفظ ہے اُور نہ ہی مزدور طبقے کی اَکثریت ’سماجی تحفظ (سوشل سیکورٹی)‘ کی چھتری تلے آتی ہے۔ پینشن کے لئے دفاتر کے دھکے کھانے والوں کا دُکھ اپنی جگہ اور قطار میں لگ کر پینشن حاصل کرنے والے پریشان حال اپنی جگہ خاموش ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب نے استحصال‘ تعصب اور اِداروں میں سیاسی مداخلت کی بنیاد پر ہونے والے امتیازات کو دل سے ’بہ رضا و رغبت‘ قبول کر لیا ہے‘ بس یہی اُن قوموں کے زوال کی کھلی نشانی ہوتی ہے‘ جنہیں اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہیں ہوتا۔

No comments:

Post a Comment