ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعمیری سوچ: عملی اظہار کے تقاضے
تعمیری سوچ: عملی اظہار کے تقاضے
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ہزارہ ڈویژن میں اپنی
جماعت منظم کرنے کے لئے ’ورکرز کنونشن‘ کا انعقاد کیا جو دیگر سیاسی
جماعتوں کی توجہ بھی ہزارہ کی جانب مبذول کرنے کا سبب بنے گی۔ پاکستان
عوامی تحریک پہلے ہی مانسہرہ میں اجتماع کا اعلان کر چکی ہے جبکہ پاکستان
مسلم لیگ (نواز) کی قیادت ہزارہ (برہان تا حویلیاں) موٹر وے منصوبے اور
زلزلہ سے متاثرہ پانچ اضلاع بشمول ہزارہ کے علاقوں میں درسگاہوں کی تعمیر
کے لئے چار ارب روپے کی فراہمی کا گرمجوشی سے ’پرچار‘ کر رہی ہے۔ پاکستان
تحریک انصاف کے جاری احتجاجی دھرنے کی بازگشت بھی ایبٹ آباد کے جاری خشک
موسم سرما میں ’لہو گرم رکھنے‘ کا کارگر حربہ ہے تاہم پاکستان پیپلزپارٹی
کی توجہ ابھی اِس جانب نہیں ہوئی تو ایسا ہونے کی بڑی وجہ پارٹی کی صوبائی
ومرکزی سطح پر پائی جانے والی گومگو کی کیفیت ہے اور کارکنوں کو اِس بنیادی
سوال کا جواب ہی نہیں مل رہا کہ پیپلزپارٹی کے اصل قائد کون ہیں۔ جناب آصف
علی زرداری یا بلاول زرداری جو اپنے نام کے ساتھ نانا کے قبیلے کا سابقہ
استعمال کرتے ہوئے اُس ہمدردی کے ’ووٹ بینک‘ سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر
رہے ہیں‘ جو اُن کے ننھیال کی قربانیوں اور سیاسی نظریئے کی بھاری قیمت ادا
کرنے سے ایستادہ ہے۔ اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو حقیقت یہی ہے کہ
آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بعد پیپلزپارٹی کو یکجا اور طویل عرصے تک داخلی
انتشار سے بچانے میں کوئی دوسری شخصیت کامیاب نہیں ہوسکی‘ جس کی بہت سی
وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑا محرک سیاسی بصیرت اور فیصلہ سازی میں اِحتیاط سے
کام لینے کی وہ خداداد صلاحیت ہے‘ جو ایک بہترین حافظے کے ساتھ آفتاب
شیرپاؤ کو حاصل ہے۔ اُمید ہے اپنے اثاثوں کی طرح وہ سیاسی سمجھ بوجھ اپنے
صاحبزادے میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوں گے‘ جو سیاسی تبدیلیوں کے دنوں
بیرون ملک ہیں حالانکہ اُنہیں یہاں ہونا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ وقت اپنے
والد کے ساتھ یا اُن کی رہنمائی میں سیاسی معاملات سمجھنے میں صرف کرنے
چاہیءں کیونکہ وہ صرف مالی اثاثوں کے وارث نہیں بلکہ اُنہیں ’سیاسی گدی‘
بھی سنبھالنی ہے اور یہی وہ موزوں وقت ہے جبکہ وہ بطور رکن صوبائی اسمبلی
ہوتے ہوئے خیبرپختونخوا میں حقیقی ’حزب مخالف‘ کا کردار اَدا کرسکتے ہیں۔
دیرآئید درست آئد‘ قومی وطن پارٹی نے کم و بیش ایک برس قبل ’سوشل میڈیا سیل‘ بھی بنایا ہے‘ جس کے معاملات کی دیکھ بھال ایک ماہر تعلیم و سماجی ترقی کے شعبوں پر گہری نگاہ رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی معراج ہمایوں خان کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ’سماجی رابطہ کاری (انٹرنیٹ) وسائل‘ سے استفادے کی ابتدأ جس انداز میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کر رہی ہے‘ اُس کا اگرچہ مقابلہ یا موازنہ تو ممکن نہیں لیکن ابتدأ کرنے والوں نے تیزرفتار مواصلاتی رابطوں کی اہمیت کو سمجھنا لیا ہے۔ سیاسی شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار وقت کے ساتھ مزید بڑھے گا‘ جس کی تیاری اور آمادگی دونوں ضروری ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا کہ بات ’پریس ریلیز کے ہمراہ تصویر‘ جاری کرنے سے کہیں زیادہ آگے نکل چکی ہیں۔ ماضی کے مقابلے صحافیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ بلکہ اِنتہائی تعلیم یافتہ ہے اور اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اُن کی توجہ ایک جیسے بار بار دُہرائے جانے والے بیانات سے اپنی جانب مبذول رکھی جاسکے۔ موبائل فونز پر ’تھری جی‘ اُور ’فور جی‘ ٹیکنالوجی متعارف ہونے کی وجہ سے اطلاعات و معلومات کے تبادلے میں تاخیر کا جواز باقی نہیں رہا۔
تجویز ہے کہ قومی وطن پارٹی سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا اِستعمال کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار بھی مرتب کرے۔ اِدارتی مضامین اور بحث و مباحثے پر مبنی ٹیلی ویژن پروگراموں میں بناء شمولیت بھی شمولیت رکھی جا سکتی ہے اور ایسے سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں جس سے فیصلہ سازوں کو رہنمائی اور طرز حکمرانی میں بہتری (گڈ گورننس) جیسے اہداف کا حصول ممکن ہو۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اُسے انٹرنیٹ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ تک رسائی کی ضرورت نہیں تو یہ ایک ایسی ’سنگین غلطی‘ ہوگی‘ جس کی آئندہ عام اِنتخابات میں بھاری قیمت اَدا کرنی پڑ سکتی ہے۔ جس اَنداز میں عام انتخابات بائیومیٹرکس سسٹم اور آن لائن طریق کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے بھی انٹرنیٹ پر تقیہ کئے بناء چارہ نہیں ہوگا۔ ویڈیو پیغامات‘ ایس ایم ایس پیغامات اور ایم ایم ایس پیغامات انتخابی مہمات میں پہلی مرتبہ نہیں بلکہ پہلی مرتبہ پورے اہتمام سے سبھی سیاسی جماعتیں کرنا چاہیں گی‘ جس کے لئے ابھی سے تیاری کرنا اور مرکزی و صوبائی سطح پر ’ہم خیالوں‘کی ایسی ٹیمیں تشکیل دینا بروقت اقدام ہوگا‘ جو کام کے دباؤ کی صورت مربوط و باہم متصل ہوں اور کام کو کام نہیں بلکہ مشن سمجھیں جیسا کہ ہمیں ’تحریک انصاف‘ کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
سال 2002ء میں تعلیم کے شعبے میں ’اعزاز فضیلت‘ پانے والی معراج ہمایوں خان خواتین کی مخصوص نشست پر خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکن ہیں۔ اُنہیں تین قائمہ کمیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے جس میں ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن‘ ایسٹیبلشمنٹ اور لاء ریفارمز‘ کنٹرول اور ذیلی قانون ساز کمیٹیاں شامل ہیں۔ 69 سالہ معراج ہمایون کی خدمات بالخصوص تعلیم کے شعبے میں نمایاں ہیں لیکن اُن کی سماجی خدمات اور اصلاح معاشرے کی لگن اور غربت و جہالت کے اندھیروں میں مشعل بردار ہونے کا کردار سیاسی جدوجہد سے کئی گنا بڑھ کر اُن کے قدکاٹھ میں اضافہ کر رہا ہے‘ اُمید کی جاسکتی ہے جس طرح اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل کی اہمیت کو سمجھا ہے‘ اِسی طرح تعلیم کے شعبے میں انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ کرنے پر غور کریں گی۔
خیبرپختونخوا کے کلاس رومز کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے اور ماہر اساتذہ کا بیک وقت ایک سے زیادہ سکولوں میں بیک وقت درس دینے‘ کلاس رومز میں طلباء و طالبات اور اساتذہ کی حاضری کا براہ راست مشاہدہ کرنے‘ اساتذہ کی آن لائن حاضری اور کارکردگی سمیت سرکاری سکولوں کے نتائج (معیار تعلیم) بہتر بنانے کے لئے اِنٹرنیٹ وسائل کا ’بے خوف و خطر‘ اور ’بے دریغ‘ استعمال ہونا چاہئے۔ کیا اِس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ بڑے بڑے اختیارات کے ساتھ بڑی بڑی ذمہ داریاں بھی جڑی ہوتی ہیں؟
دیرآئید درست آئد‘ قومی وطن پارٹی نے کم و بیش ایک برس قبل ’سوشل میڈیا سیل‘ بھی بنایا ہے‘ جس کے معاملات کی دیکھ بھال ایک ماہر تعلیم و سماجی ترقی کے شعبوں پر گہری نگاہ رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی معراج ہمایوں خان کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا ’سماجی رابطہ کاری (انٹرنیٹ) وسائل‘ سے استفادے کی ابتدأ جس انداز میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کر رہی ہے‘ اُس کا اگرچہ مقابلہ یا موازنہ تو ممکن نہیں لیکن ابتدأ کرنے والوں نے تیزرفتار مواصلاتی رابطوں کی اہمیت کو سمجھنا لیا ہے۔ سیاسی شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار وقت کے ساتھ مزید بڑھے گا‘ جس کی تیاری اور آمادگی دونوں ضروری ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہوگا کہ بات ’پریس ریلیز کے ہمراہ تصویر‘ جاری کرنے سے کہیں زیادہ آگے نکل چکی ہیں۔ ماضی کے مقابلے صحافیوں کی اکثریت تعلیم یافتہ بلکہ اِنتہائی تعلیم یافتہ ہے اور اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اُن کی توجہ ایک جیسے بار بار دُہرائے جانے والے بیانات سے اپنی جانب مبذول رکھی جاسکے۔ موبائل فونز پر ’تھری جی‘ اُور ’فور جی‘ ٹیکنالوجی متعارف ہونے کی وجہ سے اطلاعات و معلومات کے تبادلے میں تاخیر کا جواز باقی نہیں رہا۔
تجویز ہے کہ قومی وطن پارٹی سماجی رابطہ کاری کے وسائل کا اِستعمال کرتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار بھی مرتب کرے۔ اِدارتی مضامین اور بحث و مباحثے پر مبنی ٹیلی ویژن پروگراموں میں بناء شمولیت بھی شمولیت رکھی جا سکتی ہے اور ایسے سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں جس سے فیصلہ سازوں کو رہنمائی اور طرز حکمرانی میں بہتری (گڈ گورننس) جیسے اہداف کا حصول ممکن ہو۔ اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اُسے انٹرنیٹ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ تک رسائی کی ضرورت نہیں تو یہ ایک ایسی ’سنگین غلطی‘ ہوگی‘ جس کی آئندہ عام اِنتخابات میں بھاری قیمت اَدا کرنی پڑ سکتی ہے۔ جس اَنداز میں عام انتخابات بائیومیٹرکس سسٹم اور آن لائن طریق کی جانب بڑھ رہے ہیں‘ ووٹرز تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے بھی انٹرنیٹ پر تقیہ کئے بناء چارہ نہیں ہوگا۔ ویڈیو پیغامات‘ ایس ایم ایس پیغامات اور ایم ایم ایس پیغامات انتخابی مہمات میں پہلی مرتبہ نہیں بلکہ پہلی مرتبہ پورے اہتمام سے سبھی سیاسی جماعتیں کرنا چاہیں گی‘ جس کے لئے ابھی سے تیاری کرنا اور مرکزی و صوبائی سطح پر ’ہم خیالوں‘کی ایسی ٹیمیں تشکیل دینا بروقت اقدام ہوگا‘ جو کام کے دباؤ کی صورت مربوط و باہم متصل ہوں اور کام کو کام نہیں بلکہ مشن سمجھیں جیسا کہ ہمیں ’تحریک انصاف‘ کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
سال 2002ء میں تعلیم کے شعبے میں ’اعزاز فضیلت‘ پانے والی معراج ہمایوں خان خواتین کی مخصوص نشست پر خیبرپختونخوا اسمبلی کی رکن ہیں۔ اُنہیں تین قائمہ کمیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے جس میں ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن‘ ایسٹیبلشمنٹ اور لاء ریفارمز‘ کنٹرول اور ذیلی قانون ساز کمیٹیاں شامل ہیں۔ 69 سالہ معراج ہمایون کی خدمات بالخصوص تعلیم کے شعبے میں نمایاں ہیں لیکن اُن کی سماجی خدمات اور اصلاح معاشرے کی لگن اور غربت و جہالت کے اندھیروں میں مشعل بردار ہونے کا کردار سیاسی جدوجہد سے کئی گنا بڑھ کر اُن کے قدکاٹھ میں اضافہ کر رہا ہے‘ اُمید کی جاسکتی ہے جس طرح اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت کے لئے سماجی رابطہ کاری کے وسائل کی اہمیت کو سمجھا ہے‘ اِسی طرح تعلیم کے شعبے میں انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ کرنے پر غور کریں گی۔
خیبرپختونخوا کے کلاس رومز کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے اور ماہر اساتذہ کا بیک وقت ایک سے زیادہ سکولوں میں بیک وقت درس دینے‘ کلاس رومز میں طلباء و طالبات اور اساتذہ کی حاضری کا براہ راست مشاہدہ کرنے‘ اساتذہ کی آن لائن حاضری اور کارکردگی سمیت سرکاری سکولوں کے نتائج (معیار تعلیم) بہتر بنانے کے لئے اِنٹرنیٹ وسائل کا ’بے خوف و خطر‘ اور ’بے دریغ‘ استعمال ہونا چاہئے۔ کیا اِس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ بڑے بڑے اختیارات کے ساتھ بڑی بڑی ذمہ داریاں بھی جڑی ہوتی ہیں؟
No comments:
Post a Comment