Sunday, December 7, 2014

Dec2014: Silence & libraries

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سناٹے کا شور!
مہذب معاشروں میں تو اِس بات کا تصورہی نہیں کیا جاسکتا لیکن ترقی پذیر ممالک میں بھی کسی سماج کا کتاب سے رشتہ ٹوٹنا ’المیے‘ سے کم ’سانحہ‘ تصور نہیں ہوتا کیونکہ علوم و فنون اور فکر و تحقیق کے شعبوں میں زوال پذیری کی اِن علامات کو دیکھتے ہوئے متعلقہ ماہرین جس مرض کی تشخیص کرتے ہیں اُسے ’موت‘ کہا جاتا ہے! کیا ہمیں ماحول پر مسلط خاموشی محسوس نہیں ہو رہی! اور اگر آپ کو اپنی سماعتوں پر شک ہو تو عجائب گھر اور اراکین صوبائی اسمبلی کے سرکاری رہائشگاہوں (ایم پی اے ہاسٹلز) کے درمیان قائم پشاور کی ’آرکائیوز اینڈ پبلک لائبریری‘ کا دورہ کریں‘ جہاں داخل ہوتے ہی موت جیسی خاموشی آپ کا استقبال کرے گی۔ عمارت میں ملازمین کی اکثریت ملے گی جہاں ایک لاکھ بیس ہزار کتب کے ذخیرے سے استفادہ کرنے والوں کو اُنگلیوں پر گنا جا سکے گا اُور بسا اوقات تو اِس زحمت کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوگی!

شیرشاہ سوری (گرینڈ ٹرنک) روڈ کی ابتدأ بھی اِسی لائبریری کے قریب سے ہوتی ہے۔ یہ اہم شاہراہ پورے (خطے) وسط ایشیائی ممالک سے بھارت تک کو آپس میں ملاتی ہے‘ جس کے کنارے سینکڑوں تہذیبیں اور ثقافتیں آج بھی آباد ہیں اور اِن میں سے جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہوگئیں اُنہوں نے بھی دیواروں پر تحریریں اور نقوش چھوڑ دیئے تاکہ اُنہیں ’جاہل‘ نہ سمجھا جائے‘ اُنہیں اپنے گردوپیش سے لاتعلق نہ سمجھا جائے گویا علوم و فنون سے مسلسل رابطہ زندگی کا تسلسل اور اِنہیں کسی خاص مقصد کے لئے منقطع کردینا موت جیسی حالت کے مسلط کرنے کا سبب ہوتا ہے! 1946ء میں قائم ہونے والی ’پشاور آرکائیوز اینڈ پبلک لائبریری‘ کی ابتدأ آٹھ ہزار کتب سے ہوئی اور آج یہ فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے‘ جس سے نظریں ہٹانے کو جی نہیں چاہتا لیکن اگر اِس کی تصویر ہی پشاور کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے طالبعلموں کو دکھائی جائے تو شاید اکثریت اِسے پہچان بھی نہ پائے۔ معزز اساتذہ کرام میں بھی ایسے عالی نفوس ملیں گے‘ جن کے پاس کسی لائبریری کی رکنیت نہیں ہوگی اور یہی حال تدریسی عملے کا بھی ہو تو مزید کچھ کہنے‘ سننے کی گنجائش صرف کم نہیں بلکہ بہت کم اور بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔

خیبرپختونخوا میں قائم ہونے والے اِس پہلے کتب خانے کی درودیوار پر چھائی خاموشی‘ استفادہ کرنے والوں سے خالی راہداریاں‘ ہو کا عالم اور کتابوں سے بھرے ہوئے ’بک شیلف‘ ہماری عمومی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تعلیم کو نصاب تک محدود کرنے والے اپنی کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ علم ملازمت کے حصول کی سیڑھی بن چکا ہے۔ کردار‘ سیرت‘ اخلاق اور علم کی طلب‘ لگن‘ جستجو جیسے خواص باقی نہیں رہے۔ تعلیم پر زور اور تربیت سے ہاتھ روک لئے گئے ہیں۔ مادہ پرستی عام کر دی گئی ہے۔ دوسروں کی تقلید اور اپنے ماضی و حال پر غور کرکے مستقبل کے چینلجز سے نمٹنے کی ترغیب دینے والے نہیں رہے۔ مقام افسوس ہے کہ خیبرپختونخوا کی پہلی اور چند بڑی لائبریوں میں شمار ہونے والی سہولت سے استفادہ کرنے والے باقاعدہ اراکین کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کم ہے۔ یہی آج کا سچ ہے کہ پچاس لاکھ آبادی کے شہر میں زندہ دلوں کا شمار صرف پانچ ہزار‘ جی ہاں پانچ ہزار ہے! اِس لائبریری سے زیادہ تر استفادہ کرنے والے اخبارات کا مطالعہ کرنے آتے ہیں اور ایک وقت تھا جب یہ عمارت کھچا کھچ بھری ملتی تھی۔ نئی شامل ہونے والی کتب حاصل کرنے کے لئے اپنا نام فہرست میں لکھوانا اور سفارش کرانی پڑتی تھی۔ لائبریری میں روشنی کم ہونے کی شکایات سننے کو ملتی تھیں لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔

مطالعہ تو دور کی بات تحقیق کرنے والوں کی ضرورت بھی شاید انٹرنیٹ سے پوری ہو جاتی ہے‘ اِس لئے گردوغبار سے اَٹی کتابوں کی ورق گردانی کو ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ شاید اِس کی جگہ ’ایڈوب کے پورٹیبل ڈاکیومنٹ فارمیٹ (پی ڈی ایف)‘ نے لے لی ہے!

 خودفریبی یا خوش خیالی کی بہت سی اشکال و جواز ہو سکتے ہیں لیکن کسی کتب خانے کے سناٹے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور اِس سلسلے میں غوروخوض و سنجیدہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ آرکائیوز لائبریری کا ایک حصہ بچوں (اطفال) و خواتین کے لئے بھی مخصوص ہے جس کے بارے میں معلومات عام کرنے اور رغبت دلانے کے لئے سرکاری و نجی تعلیمی اِداروں کے لئے ہفتہ وار مطالعاتی دوروں کے اہتمام سے خاطرخواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ عام لوگوں کے لئے سالانہ رکنیت فیس ایک ہزار روپے‘ طالبعلموں کے لئے پچاس روپے اور بچوں کے لئے بیس روپے مقرر ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ پیسے تو بچے موبائل فون کے ایزی لوڈز یا کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ کر دیتے ہیں اور اگر والدین سے لائبریری رکنیت فیس کا تقاضا کیا جائے تو اکثریت بخوشی اداکرنے کے لئے آمادہ ہو جائے گی۔

آرکائیوز لائبریری میں کتب کی دیکھ بھال اور بار بار استعمال ہونے کے سبب کئی ایک کتابیں بوسیدہ حالت کو چھو رہی ہیں۔ عمارت میں ہوا کے آزادانہ آمدواخراج اور پانی کی نکاسی کا نظام الگ سے توجہ چاہتا ہے‘ جس کا منفی اثر کتابوں کے ذخیرے پر پڑتا ہے۔ عمومی طورپر کتاب کی عمر پندرہ سے بیس سال ہوتی ہے اور اگر کتابوں کی دیکھ بھال وقت کے ساتھ ہوتی رہے‘ اُنہیں نئے نسخوں سے تبدیل نہ کیاجائے تو اُن کی عمر کم ہوتی رہتی ہے۔ اس کے کئی ایک حل موجود ہیں جن میں کتابوں کے الیکٹرانک ورژنز کی تیاری اور لائبریری کی کمپیوٹرائزیشن کرنے سے اِس کی کشش میں اِضافہ کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں ایسی کسی لائبریری کا تصور مذاق سمجھا جائے گا جہاں نہ تو اِنٹرنیٹ کی سہولت ہو اور نہ ہی غیرملکی کتابیں اور اخبارات خریدنے کے لئے لائبریری کے پاس خاطرخواہ مالی وسائل دستیاب ہوں! الیکٹرانک میڈیا کے لئے مانیٹرنگ روم‘ تیزرفتار اِنٹرنیٹ‘ شام کے اُوقات میں لائبریری کھلی رکھنے‘ لائبریری کے زیراہتمام علمی و ادبی بحث و مباحثوں اُور ایسی تقاریب کا باقاعدگی اِنعقاد ضروری ہے‘ جس سے نئی نسل کو لائبریری کا راستہ دکھایا جاسکے۔ ایکبار لائبریری کا منہ دیکھنے اور اس سے تعارف ہونے کے بعد کتاب کی اِہمیت منتقل کرنا زیادہ سہل و پائیدار ثابت ہوگا۔

No comments:

Post a Comment