ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کھیل ہی کھیل: ہاتھ ہی ہاتھ!
کھیل ہی کھیل: ہاتھ ہی ہاتھ!
امن و امان کی غیریقینی صورتحال سے دوچار خیبرپختونخوا میں صحت مند
سرگرمیوں کے فروغ اور نوجوانوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے لئے صوبائی
حکومت نے ایک جامع حکمت عملی مرتب کی ہے جس میں ہر تحصیل اور یونین کونسل
کی سطح پر کھیلوں کے میدان اور تربیت سے متعلق سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اس سلسلے میں مرحلہ وار حکمت عملی پر کام کا آغاز مالی سال 2013-14ء اور
2014-15ء کے دوران کرنے کے لئے 17 تعمیراتی و توسیعی منصوبوں کو ’سالانہ
ترقیاتی پروگرام (اے ڈی بی)‘ کا حصہ بنایا گیا ہے جس کے لئے مجموعی طور پر 6
ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے اور اس رقم سے ماضی میں شروع کئے
گئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ نئے منصوبے بھی شروع کئے جائیں گے۔
پاکستان ٹحریک انصاف کی جانب سے گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے
قبل جو ’لائحہ عمل‘ دیا گیا تھا‘ اُس انتخابی منشور میں یہ بات بھی شامل
تھی کہ صوبے کی ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیلوں کا میدان بنایا جائے گا
اور اُسی عہد کی تکمیل کے لئے تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا کی
صوبائی حکومت نے اَربوں روپے مختص کر دیئے ہیں۔ اس کے علاؤہ خیبرپختونخوا
کے جن علاقوں میں اَفغان مہاجرین رہتے ہیں وہاں اقوام متحدہ کے مالی تعاون
سے ’راہا (RAHA)‘ حکمت عملی کے تحت بھی کھیلوں کی سہولیات فراہم کی جائیں
گی اور اِس مقصد کے لئے الگ سے کم و بیش پانچ اَرب روپے مختص ہیں۔ اگر حسب
اعلانات خیبرپختونخوا میں 10 ارب سے زائد کے یہ ترقیاتی منصوبے مکمل ہوجاتے
ہیں تو قیام پاکستان سے آج تک ایسے ترقیاتی دور کی مثال نہیں ملے گی۔
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اینڈ یوتھ آفیئرز خیبرپختونخوا کیپٹن (ر) میاں عادل اقبال نے چھ دسمبر کے روز ہزارہ ڈویژن کے دورے کے دوران حویلیاں و ایبٹ آباد میں تحصیل کی سطح پر نئے سٹیڈیم تعمیر کرنے کے لئے مجوزہ مقامات کا دورہ کیا۔ ایبٹ آباد کے مشرق میں واقع یونین کونسل نواں شہر کے گاؤں ڈھوڈیال کے باسیوں نے چالیس کنال اراضی مفت حکومت کو دینے کی پیشکش کی ہے‘ جس پر سپورٹس سٹیڈیم کی تعمیر ہو گی۔ میاں عادل اِقبال کے ہمراہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر (ایبٹ آباد) محمد سلیم رضا بھی تھے‘ جنہوں نے گاؤں ڈھوڈیال کے مجوزہ مقام کو موزوں قرار دیا اور اہل علاقہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’رواں مالی سال کے دوران ڈھوڈیال سٹیڈیم کی تعمیر کا کام شروع اور اُمید ہے کہ مکمل بھی کر لیا جائے گا۔‘‘
خیبرپختونخوا حکومت کی ’سپورٹس پالیسی‘ درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ رواں مالی سال 4 کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت سے نئے گراؤنڈز کی تعمیر‘ 30کروڑ روپے سے سٹیڈیمز کی بحالی‘ 15 کروڑ سے سپورٹس اکیڈیمز کا قیام جس میں ضلعی سطح پر خواتین کے لئے 4 اور لڑکوں کے 3 اکیڈیمز قائم کی جائیں گی۔ 5 کروڑ روپے کھیلوں کے لئے سازوسامان کی خریداری کے لئے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس خطیر رقم سے ماضی کی طرح سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے 250 سے زائد ملازمین ہی مستفید ہوں! دودھ کا جلا ہوا چونکہ لسی بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لئے کہ ماضی میں ہمارے ہاں معزز وزیراعلیٰ کا تعلق جس ضلع سے ہوتا تھا تمام تر ترقیاتی فنڈز وہیں خرچ کئے جاتے رہے اور یہی وجہ تھی کہ چند ایک اضلاع کے علاؤہ ترقی کا کہیں بھی ’نام ونشان‘ نہیں ملتا۔ پشاور ہی کی مثال لیں جہاں کھیلوں سے متعلق انتظامی عہدوں‘ سہولیات اور ترقیاتی منصوبوں پر خاص طبقے کی ’حاکمیت‘ رہی جو سیاہ کو سفید اور سفید کا سیاہ کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ موجودہ صوبائی حکومت نے اگرچہ اربوں روپے کے مالی وسائل تو فراہم کر دیئے ہیں لیکن اگر احتساب کا طریقہ کار‘ سزأ و جزأ اور سرکاری ملازمین کے اثاثوں پر نظر رکھنے کا ’کڑا و شفاف نظام‘ وضع نہیں کیا جاتا تو اندیشہ ہے کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہراتی دکھائی دے گی اور اندیشہ یہ بھی ہے کہ کھیل و کھلاڑی کی سرپرستی کی بجائے اِس شعبے سے چپکے ہوئے افراد ہی کو خالص فائدہ ہو۔ سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت اور ترقیاتی حکمت عملیوں کے درپردہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کی سوچ بھی ابھی زندہ ہے‘ جس کی طبعی موت کا انتظار کرنے کی بجائے اِسے زندہ درگور کردینا چاہئے کیونکہ ترقی معکوس سے تو کہیں زیادہ اچھا یہ ہے کہ مالی وسائل بدعنوانیوں کی نذر نہ کئے جائیں۔ تجویز ہے کہ امریکی حکومت کی طرز پر خیبرپختونخوا صوبائی حکومت بھی ایسے فون نمبروں کا اجرأ کرے‘ جس کے ذریعے عوام سرکاری وسائل میں خردبرد کرنے والوں کے بارے میں اطلاع یا معلومات دے سکیں۔ یہی ہدف وزیراعلیٰ کے ’شکایات سیل‘ کو فعال کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علاؤہ ازیں قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کے لئے جس طرح لازم ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کی تفصیلات سالانہ بنیادوں پر ایک حلف نامے کے ذریعے جمع کرائیں‘ اسی طرح سرکاری ملازمین بالخصوص بڑے انتظامی عہدوں پر فائز شخصیات کی مالی حیثیت سے متعلق سالانہ کوائف باقاعدگی سے صوبائی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری ہونے چاہیءں۔ ہمیں کسی بھی سرکاری افسر کی نیت اور کردار پر شک نہیں لیکن جہاں بات اربوں روپے کی ہو‘ وہاں کروڑوں سے لاکھوں تک کے غبن کچھ مشکل نہیں ہوتے۔ موجودہ سیاسی حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ آئندہ عام انتخابات چاہے وسط مدتی ہوں‘ یا اپنی معیاد مکمل کرنے کے بعد دو ہزار اٹھارہ میں‘ ووٹرز افسرشاہی کا نہیں بلکہ اُن کا احتساب کریں گے اور کسی مالی یا انتظامی بدعنوانی کی صورت اُنہیں عوام اور ذرائع ابلاغ کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا‘ سیاسی بصیرت اور منطق یہی ہے کہ حال پر اکتفا کرنے کی بجائے مستقبل میں پیش آنے والے امتحان کی تیاری کی جائے کیونکہ یہ نہ ہو کہ کوئی کھیل ہی کھیل میں ایک مرتبہ پھر ہاتھ کر جائے۔ ’’ڈرتا ہوں میرے سر پہ ستارے نہ آ گریں: چلتا ہوں آسماں کی طرف دیکھتے ہوئے!‘‘
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اینڈ یوتھ آفیئرز خیبرپختونخوا کیپٹن (ر) میاں عادل اقبال نے چھ دسمبر کے روز ہزارہ ڈویژن کے دورے کے دوران حویلیاں و ایبٹ آباد میں تحصیل کی سطح پر نئے سٹیڈیم تعمیر کرنے کے لئے مجوزہ مقامات کا دورہ کیا۔ ایبٹ آباد کے مشرق میں واقع یونین کونسل نواں شہر کے گاؤں ڈھوڈیال کے باسیوں نے چالیس کنال اراضی مفت حکومت کو دینے کی پیشکش کی ہے‘ جس پر سپورٹس سٹیڈیم کی تعمیر ہو گی۔ میاں عادل اِقبال کے ہمراہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر (ایبٹ آباد) محمد سلیم رضا بھی تھے‘ جنہوں نے گاؤں ڈھوڈیال کے مجوزہ مقام کو موزوں قرار دیا اور اہل علاقہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’رواں مالی سال کے دوران ڈھوڈیال سٹیڈیم کی تعمیر کا کام شروع اور اُمید ہے کہ مکمل بھی کر لیا جائے گا۔‘‘
خیبرپختونخوا حکومت کی ’سپورٹس پالیسی‘ درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ رواں مالی سال 4 کروڑ 70 لاکھ روپے کی لاگت سے نئے گراؤنڈز کی تعمیر‘ 30کروڑ روپے سے سٹیڈیمز کی بحالی‘ 15 کروڑ سے سپورٹس اکیڈیمز کا قیام جس میں ضلعی سطح پر خواتین کے لئے 4 اور لڑکوں کے 3 اکیڈیمز قائم کی جائیں گی۔ 5 کروڑ روپے کھیلوں کے لئے سازوسامان کی خریداری کے لئے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس خطیر رقم سے ماضی کی طرح سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے 250 سے زائد ملازمین ہی مستفید ہوں! دودھ کا جلا ہوا چونکہ لسی بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لئے کہ ماضی میں ہمارے ہاں معزز وزیراعلیٰ کا تعلق جس ضلع سے ہوتا تھا تمام تر ترقیاتی فنڈز وہیں خرچ کئے جاتے رہے اور یہی وجہ تھی کہ چند ایک اضلاع کے علاؤہ ترقی کا کہیں بھی ’نام ونشان‘ نہیں ملتا۔ پشاور ہی کی مثال لیں جہاں کھیلوں سے متعلق انتظامی عہدوں‘ سہولیات اور ترقیاتی منصوبوں پر خاص طبقے کی ’حاکمیت‘ رہی جو سیاہ کو سفید اور سفید کا سیاہ کرنے میں اپنی مثال آپ تھا۔ موجودہ صوبائی حکومت نے اگرچہ اربوں روپے کے مالی وسائل تو فراہم کر دیئے ہیں لیکن اگر احتساب کا طریقہ کار‘ سزأ و جزأ اور سرکاری ملازمین کے اثاثوں پر نظر رکھنے کا ’کڑا و شفاف نظام‘ وضع نہیں کیا جاتا تو اندیشہ ہے کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دہراتی دکھائی دے گی اور اندیشہ یہ بھی ہے کہ کھیل و کھلاڑی کی سرپرستی کی بجائے اِس شعبے سے چپکے ہوئے افراد ہی کو خالص فائدہ ہو۔ سرکاری اِداروں میں سیاسی مداخلت اور ترقیاتی حکمت عملیوں کے درپردہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کی سوچ بھی ابھی زندہ ہے‘ جس کی طبعی موت کا انتظار کرنے کی بجائے اِسے زندہ درگور کردینا چاہئے کیونکہ ترقی معکوس سے تو کہیں زیادہ اچھا یہ ہے کہ مالی وسائل بدعنوانیوں کی نذر نہ کئے جائیں۔ تجویز ہے کہ امریکی حکومت کی طرز پر خیبرپختونخوا صوبائی حکومت بھی ایسے فون نمبروں کا اجرأ کرے‘ جس کے ذریعے عوام سرکاری وسائل میں خردبرد کرنے والوں کے بارے میں اطلاع یا معلومات دے سکیں۔ یہی ہدف وزیراعلیٰ کے ’شکایات سیل‘ کو فعال کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ علاؤہ ازیں قانون ساز ایوانوں کی رکنیت رکھنے والوں کے لئے جس طرح لازم ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کی تفصیلات سالانہ بنیادوں پر ایک حلف نامے کے ذریعے جمع کرائیں‘ اسی طرح سرکاری ملازمین بالخصوص بڑے انتظامی عہدوں پر فائز شخصیات کی مالی حیثیت سے متعلق سالانہ کوائف باقاعدگی سے صوبائی حکومت کی ویب سائٹ پر جاری ہونے چاہیءں۔ ہمیں کسی بھی سرکاری افسر کی نیت اور کردار پر شک نہیں لیکن جہاں بات اربوں روپے کی ہو‘ وہاں کروڑوں سے لاکھوں تک کے غبن کچھ مشکل نہیں ہوتے۔ موجودہ سیاسی حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ آئندہ عام انتخابات چاہے وسط مدتی ہوں‘ یا اپنی معیاد مکمل کرنے کے بعد دو ہزار اٹھارہ میں‘ ووٹرز افسرشاہی کا نہیں بلکہ اُن کا احتساب کریں گے اور کسی مالی یا انتظامی بدعنوانی کی صورت اُنہیں عوام اور ذرائع ابلاغ کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دانشمندی کا تقاضا‘ سیاسی بصیرت اور منطق یہی ہے کہ حال پر اکتفا کرنے کی بجائے مستقبل میں پیش آنے والے امتحان کی تیاری کی جائے کیونکہ یہ نہ ہو کہ کوئی کھیل ہی کھیل میں ایک مرتبہ پھر ہاتھ کر جائے۔ ’’ڈرتا ہوں میرے سر پہ ستارے نہ آ گریں: چلتا ہوں آسماں کی طرف دیکھتے ہوئے!‘‘
No comments:
Post a Comment