Friday, December 5, 2014

Dec2014: Environmet & agriculture

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ماحول: حد ہو گئی آخر!
بارشوں کے بغیر نومبر کے بعد دسمبر کی خشک سردی سے جہاں بیماریاں پھیل رہی ہیں وہیں زرعی شعبے سے وابستہ افراد فکرمند دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جس انداز میں ’موسمی تبدیلیاں‘ ظاہر ہورہی ہیں اس کے منفی اثرات پاکستان جیسی زرعی معیشت و معاشرت پر کہیں زیادہ اور گہرے مرتب ہوں گے۔ اِس سلسلے ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بدلتے ہوئے موسموں کی زد میں سب سے زیادہ آئیں گے اور فی الوقت بھی اِنہی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سب سے زیادہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ’کلائمنٹ چینج سیل‘ سے وابستہ ڈپٹی ڈائریکٹر اَفسرخان کے مطابق ’’جنوبی اِضلاع کرک اور ڈیرہ اِسماعیل خان کے علاؤہ شمال مغربی‘ بالائی و زیریں دیر کے علاقے موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کیا ہیں اور ان کی جانچ کس طرح ممکن ہے۔ اس سلسلے میں سیدھا سادا پیمانہ بارشوں کا ہے۔ موسم ربیع اور موسم خریف میں بارشیں ہوتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے ربیع میں بارشیں کم ہوں تو خریف میں اُس مقدار (حصے) کا پانی برسے گا اور اگر ایسا ہو یعنی گرمیوں کی بارشیں سردی اور سردی کی بارشیں گرمیوں میں ہونے یک بار ہونے لگیں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ زراعت ممکن ہی نہیں رہے گی۔ دریاؤں میں طغیانی آئے گی۔ زرخیز مٹی کی لہر موسلادھار بارشیں بہا لے جائیں گی۔ وقت پر بارشیں نہ ہونے سے خشک سالی اور قحط کا ماحول رہے گا۔ مقامی ضروریات کے لئے اجناس درآمد یا ترسیل کرنے پر لاگت کی سبب اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھیں گی۔ کاشتکار بیج بو کر منتظر رہیں گے اور اُنہیں خسارہ ایک طرف جبکہ فصل خاطرخواہ نہ ہونے سے اجتماعی نقصان الگ ہوگا۔ آبپاشی کے دیگر متبادل ذرائع پر انحصار کرنے سے زراعت کے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن سب سے بڑھ کر تشویشناک امر ’سورج سے آنے والی تابکاری‘ کے منفی اثرات ہیں‘ جس سے گرمی بڑھے گی‘ جلدی امراض میں اضافہ ہوگا اور ماحولیاتی تنوع میں بگاڑ کے سبب برفانی تودے تیزی سے پگھلیں گے۔ دریاؤں اور سمندر کی سطح بلند ہونا کسی بھی طرح ’ہم زمین‘ نفوس کے حق میں مفید نہیں ہوگی۔

کرک سے ڈیرہ اسماعیل خان تک کے جنوبی علاقے اور دیر کے اضلاع میں موسمی سختیوں کے اثرات بخوبی دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ آنے والے سالوں میں اِن منفی اثرات کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ فصلوں کی بوئی کا وقت (سیزن) ہمارے ہاں سترہ نومبر سے شروع ہو جاتا ہے لیکن بارش ہونے کے اوقات میں تبدیلی کی وجہ سے آئندہ برس مقامی گندم بروقت منڈیوں میں نہیں آ سکے گی اور غالب گمان ہے کہ آئندہ برس گندم کی پیداوار بھی کم رہے جبکہ فصل کا معیار بھی وہ نہیں رہے گا جو کہ ہونا چاہئے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سے زرعی سائنسدانوں کا کردار شروع ہوتا ہے۔ اُنہیں ایسے بیج تیار کرنے ہیں جو کم بارشوں یا سخت سردی و گرمی کو برداشت کرسکیں۔ فی ایکڑ زیادہ پیداوار دیں اور اس طریق سے حاصل ہونے والی اجناس کی پیداوار کا معیار بھی بہتر ہی رہے لیکن روائتی انداز سے کاشتکاری کے مروجہ اصولوں میں سائنسی علوم کا دخل زیادہ نہیں۔ کاشتکاروں بالخصوص چھوٹے پیمانے کے کاشتکار جو کہ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں اُن کی رہنمائی کا نظام موجود نہیں۔ چند برس تک فعال رہنے والے ایک نجی زرعی ٹیلی ویژن کی نشریات بھی غائب ہو گئیں ہیں کیونکہ حکومت کی جانب سے اُس کی مالی سرپرستی نہیں کی گئی۔ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت نہ تو کھلاڑی ہے اور نہ ہی گانے بجانے کی صنعت کی وابستہ ہے۔ فنون لطیفہ سے محظوظ ہونے والے طبقے کی نمودونمائش بھی اکثریت کا خاصہ نہیں لیکن چوبیس گھنٹے فلمیں‘ گانے‘ بجانے‘ کھیل اور ہر قسم کی تفریح کے ٹیلی ویژن چینل فعال ہیں جو خوب منافع بھی کما رہے ہیں اور یہی وہ شعبہ ہے جو ہرگزرتے دن کے ساتھ سستا جبکہ روٹی اور خوراک ہر دن مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے۔

خوش آئند ہے کہ خیبرپختونخوا (صوبائی) سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں پرنگاہ رکھنے کے لئے ایک خصوصی شعبہ (کلائمنٹ چینج سیل) جون سے فعال کیا گیا ہے اور اس کا خالصتاً کام (وظیفہ) ہی یہ ہے‘ کہ گردوپیش پر نگاہ رکھے۔ موسمیاتی اعدادوشمار جمع کرے اور ان کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین کرنے والوں کی رہنمائی کرے۔ اب جبکہ ہم نے ’ماحول اور موسم‘ کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے تو اپنے اُٹھنے بیٹھنے‘ کھانے پینے اور رہن سہن کے دیگر طور طریقوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔ ماحول کے لئے مضر عوامل ترک کرنا ہوں گے۔ خود کو ماحول دوست بنانا ہوگا جس کے لئے ’نصاب تعلیم‘ سے زیادہ کسی دوسری حکمت عملی سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکیں گے۔ کیا آپ کسی ایسے ٹیلی ویژن پروگرام کا نام جانتے ہیں یا جانتی ہیں جس میں خیبرپختونخوا یا پاکستان میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہر عمر کے ناظرین و قارئین کی رہنمائی کی جاتی ہو؟ کیا ہمارے ہاں اَساتذہ کی تربیت میں ماحول کی اِہمیت کے بارے میں بھی پڑھایا جاتا ہے؟

سیاسی جماعتوں کے اِنتخابی منشوروں میں اگرچہ ’ماحول کا ذکر‘ ملتا ہے لیکن کیا آپ اُس حکومت کا نام جانتے ہیں جنہوں نے ماحول کے تحفظ‘ ترقی اور بقاء کے لئے وسائل ’متعلقہ اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں‘ سے بڑھ کر اَدا کئے ہوں؟ کیا ہم اپنے مسائل اور درپیش مشکلات کا ’کماحقہ اِدراک‘ رکھتے ہیں؟ کیا ماحولیاتی تبدیلیاں اور زرعی معیشت و معاشرت کو لاحق خطرات ہماری نظر میں ہیں؟ کیا زرعی پیداوار میں اِضافہ اور جدید خطوط پر زراعت سے متعلق علوم یا معلومات عام کرنے میں ذرائع ابلاغ سے خاطرخواہ استفادہ کیا جارہا ہے؟ کیا تحفظ خوراک کے حوالے سے ہمیں پریشانی لاحق ہے؟ کیا صنعتی ترقی‘ مواصلاتی رابطوں کی توسیع پر اربوں روپے خرچ کرنے والے فیصلہ سازوں کی نظر کھڑکی پر دستک دینے والے موسم پر بھی ہے؟

No comments:

Post a Comment