Thursday, December 4, 2014

Dec2014: EOBI Performance

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِی اُو بی آئی: تحفظات و تجاویز
سرکاری و نجی اِداروں کے ملازمین کی بہبود کے حکومتی ادارے ’’ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیویشن (ای اُو بی آئی)‘‘ کو گزشتہ برس کے مقابلے رواں سال سات ارب روپے اضافی آمدنی ہوئی جبکہ ادارے میں رجسٹرڈ کمپنیوں اور کاروباری افراد کی تعداد میں 97 ہزار 61 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایک سال کے دوران ادارے کے اخراجات 34کروڑ روپے رہے جو گذشتہ مالی سال کے مقابلے 37فیصد کم ہیں۔ ادارے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے ’مینول نوٹسیز‘ کی جگہ ’’الیکٹرانک جنریٹیڈ ریکوری نوٹسیز‘‘ متعارف کرائے گئے ہیں‘‘ اور سہارا انشورنش کمپنی کے تحت پینشنرز کی رقم محفوظ بنانے کے لئے بھی طریقہ کار وضع کیا جارہا ہے۔ مجموعی طور پر ’ای و بی آئی‘ کو رواں برس اداروں کی کنٹری بیوشن سے 2 ارب جبکہ سرمایہ کاری کی مد سے پانچ ارب روپے اضافی آمدنی ہوئی۔ ای و بی آئی کے پاس کل رجسٹرڈ ملازمین کی تعداد 61 لاکھ سے زیادہ ہے تاہم 1 کروڑ 10لاکھ کا ہدف حاصل کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔

خیبرپختونخوا میں ’ای و بی آئی‘ کے ترجمان حبیب گل آفریدی نے اس عمومی تاثر اور شکایات کو گمراہ کن قرار دیا ہے جس میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں ’ای اُو بی آئی‘ کے رجسٹرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔ اُنہوں نے طریقہ کار واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’خیبرپختونخوا میں ملازمین کو EOBI ایکٹ 1976ء کے تحت باقاعدگی کے ساتھ پینشن کی ادائیگی جاری ہے تاہم جن ملازمین کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں اُس کی تکنیکی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ای و بی آئی کے قواعد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’سرکاری و نجی صنعتوں یا دفاتر کے ایسے ملازمین‘ جن کی مدت ملازمت پندرہ سال سے کم ہے اور جنہوں نے مدت ملازمت پوری کرنے کی شرط پوری نہیں کی اُور اُن کا ملازمتی دورانیہ مقررہ قواعد سے کم رہا‘ تو وہ پینشن حاصل کرنے کے حقدار نہیں۔ اسی طرح ایسے ملازمین جو ساٹھ برس کی عمر سے پہلے کم از کم پندرہ سال تک ملازم رہتے ہیں اُنہیں موجودہ شرح سے خاص رقم جمع کرانی ہوتی ہے جس میں مالک کا حصہ چارسو روپے اور ملازم سے کٹوتی کا حصہ 80 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ یہ شرح تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ پینشن کی حد کے مقابلے ’ای و بی آئی‘ تین ہزار چھ سو روپے پینشن دیتی ہے جبکہ اضافی رقم کے لئے وفاقی حکومت سے مالی وسائل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قواعد کی رو سے اگر ملازمت کے دوران کسی ملازم کو حادثہ پیش آئے اور وہ جسمانی کمزوری کی وجہ سے کام کام کے قابل نہ رہے جبکہ معذوری 65 فیصد سے زیادہ ہو تو ایسے ملازم کی مدت پوری نہ ہونے کے باوجود بھی اُسے ’ای اُو بی آئی‘ کی پینشن کے لئے حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ علاؤہ ازیں پندرہ سال سے کم ملازمت کی صورت ’اولڈ ایج گرانٹ‘ کی صورت بھی ایک خاص ادائیگی صرف ایک مرتبہ کی جاتی ہے۔ اگر پینشن وصول کرنے والا کوئی ملازم وفات پا جائے تو اس کی پینشن مرحومہ کو بیوی کو ادا کی جاتی ہے جسے ’سروائیل پینشن‘ کہا جاتا ہے اور اگر بیوی بھی فوت ہو جائے تو اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو پینشن کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔‘‘

یہاں تک تو بات درست ہے کہ ایک ایسا ادارہ اپنا وجود اور اجتماعی بہبود کی ذیل میں وسیع المعانی کردار ادا کر رہا ہے لیکن روائتی طرز معاملات کی اصلاح اور طریقہ کار کی توسیع کے امکانات موجود ہیں۔ ملازمین کو ’ای و بی آئی‘ کے طریقہ کار سمیت پشاور کا ریجنل ڈائریکٹریٹ آفس دور دراز مقام پر بنانے سے متعلق تحفظات ہیں‘ اس سلسلے میں سیکرٹریٹ پشاور میں نئے تعمیرات کر کے جملہ حکومتی اداروں کو خیبرروڈ کے مقام پر یکجا کیا جاسکتا ہے‘ جس سے رجوع کرنے والے ملازمین کو معاملہ کرنے میں آسانی ہوگی۔اِس کے علاؤہ موبائل فون کے مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) کے ذریعے رجسٹرڈ ملازمین سے رابطہ کاری اور اُن کے کوائف کی جانچ پڑتال کے مراحل کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ اِس عمومی تاثر کو زائل کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملازمین سے کٹوتی اور اداروں سے ملازمین کی بہبود کے نام پر وصولیاں باقاعدگی سے کی جاتی ہیں اور ادارہ ایسی وصولیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے لیکن جو ملازمین مقررہ کوائف پر پورا اُترتے ہوئے پینشن کا حصول چاہتے ہیں‘ اُنہیں اعصاب شکن مراحل سے واسطہ پڑتا ہے اور بسا اوقات فائل کو ’پہیے‘ بھی لگانا پڑتے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت ادارے عوام کی بہبود اور سہولت کے لئے بناتی ہے‘ اِن کا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ اربوں روپے کا منافع اُسی شرح سے رجسٹرڈ ملازمین میں تقسیم کیا جائے۔ مہنگائی کے دور میں چند ہزار روپے کی پینشن سے گھر کی کفالت تو دور کی بات ایک شخص کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ اِس سلسلے میں اگر ’یوٹیلٹی سٹورز‘ کے ساتھ مل کر ’فوڈ اسٹمپس‘ کا سلسلہ شروع کیا جائے اور اسے صرف پینشن وصول کرنے والے ملازمین کے لئے نہیں بلکہ دیگر ملازمین تک پھیلایا جائے تو اس سے ایک بڑی اور حقیقی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔

حکومت کی جانب سے کم سے کم تنخواہ ادا کرنے کے حکم پر نجی اداروں میں عمل درآمد نہیں ہوتا تو اِس سلسلے میں بھی ’ای اُو بی آئی‘ کو خصوصی اختیارات دیئے جا سکتے ہیں‘ جو ملازمین کے اوقات کار اور حالات کار پر بھی نظر رکھے اور تاکہ آئین کے مطابق مزدوروں کا استحصال کرنے والے محرکات کا تدارک (عملاً) ممکن بنایا جاسکے۔

No comments:

Post a Comment