Wednesday, December 3, 2014

Dec2014: Education Crossroad

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
شعبہ تعلیم: اُلجھی ہوئی سطریں
خود فریبی کی حالت میں زندگی بسر کرنے والوں کو ’سب اَچھا‘ دکھائی دے تو اِس پر تعجب کااِظہار نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر حالات کی بہتری و اصلاح کے نام پر اقتدار جیسی ذمہ داری اُٹھانے والوں کو مجبور و لاچار دیکھا جائے تو ’نظام کی مضبوطی‘ اور ’اِرادوں کی کمزوری‘ عیاں ہوتی ہے‘ جس کا علاج کئے بناء ترقی کا چارہ نہیں۔ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اِداروں کی کارکردگی سے متعلق ایک غیرسرکاری تنظیم ’اَلف اِعلان‘ کی مرتب کردہ جائزہ رپورٹ اگر مکمل حقائق پر مبنی نہیں تو اِسے مکمل ’جھوٹ کا پلندہ‘ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اِسے ’وفاقی یا کسی صوبائی حکومت کے خلاف منظم سازش‘ قرار دے کر ’ردی کی ٹوکری‘ میں پھینکا جاسکتا ہے۔ سوفیصد نہ سہی بہت کچھ سچ کی صورت جمع کر دیا گیا ہے‘ جسے پیش کرنے کا مقصد فیصلہ سازوں کی رہنمائی کے سوأ اُور کیا ہوسکتا ہے تاکہ وہ ترقی کے اہداف کا تعین کرنے میں اِن فراموش پہلوؤں کو بھی نظر میں رکھیں۔ اَرباب اختیار کو بھی رپورٹ مرتب کرنے والوں کا شکرگزار ہونا چاہئے‘جنہوں نے ’کمال محنت و مہارت‘ سے شعبہ تعلیم کے مختلف پہلوؤں کی خوبیوں اور خامیوں کو ایک ایسے گلدستے کی صورت یکجا کر دیا ہے جس میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی۔ حیرت اَنگیز بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے 25 اَضلاع میں ’سرکاری سکولوں‘ کی درجہ بندی کے لحاظ سے صوبائی دارالحکومت پشاور 10ویں نمبر پرہے۔ ’’پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ رپورٹ 2014ء‘‘ نامی جائزہ میں ملک گیر سطح پر سرکاری تعلیمی اِداروں اور درس وتدریس کے عمل سے متعلق حقائق یکجا کئے گئے ہیں۔

دو سو چار صفحات پر مشتمل سالانہ رپورٹ اس سلسلے کی دوسری کوشش ہے قبل ازیں دو ہزار تیرہ میں بھی ایسی ہی ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی‘ جس سے متعلق اِنہی صفحات میں ذکر کرتے ہوئے دردمندی سے بہتری کے لئے دعائیں اور تجاویز دی گئیں اور اگر دونوں رپورٹوں کا موازنہ کیا جائے تو برسرزمین حقائق نہ تو پاکستان اور نہ خیبرپختونخوا کی سطح پر زیادہ تبدیل ہوئے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے وقت تھم سا گیا ہو کیونکہ ایک سال تو کیا ’سال ہا سال‘ سے سرکاری تعلیمی اِداروں کی کارکردگی میں خاطرخواہ بہتری نہیں آ رہی حالانکہ ہر سال شعبہ تعلیم کے لئے زیادہ مالی وسائل مختص اور خرچ بھی کئے جا رہے ہیں۔

پشاور کے سرکاری سکولوں میں جماعت پنجم (پرائمری سطح) میں زیرتعلیم بچوں کی تعداد ’سولہ فیصد‘ ہے جو اُردو زبان میں لکھی ہوئی کہانی نہیں پڑھ سکتے جبکہ چوبیس فیصد ایسے طالبعلم ہیں جو انگریزی میں لکھا ہوا ایک جملہ نہیں پڑھ سکتے‘ مطلب یہ ہے کہ اُردو کے مقابلے انگریزی زبان سے بچوں کی واقفیت زیادہ نکلی جس کے بارے سمجھ نہیں آ رہی کہ اِسے خوبی قرار دیا جائے یا خامی۔ اگر ہم گذشتہ برس (دو ہزار تیرہ) میں جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ سے موجودہ حقائق نامے کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قومی زبان اُردو سے واقفیت میں بائیس فیصد کمی جبکہ انگریزی زبان پڑھنے میں دو فیصد اضافہ ہوا ہے! سوچئے اُن ترجیحات کے بارے میں‘ اُس منزل کے بارے میں‘ اُس تقلید‘ اُس جستجو‘ اُس رجحان اور اُس سفر کے بارے میں جو ہمیں ایک ایسی منزل کی جانب لئے رواں دواں ہے‘ جہاں پہنچ کر ہماری آئندہ نسلیں اپنی زبان و ثقافت اور اقدار و روایات سے کتنا آشنا ہوں گی‘ یہ وضاحت کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔سرکاری سکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کا تناسب دو ہزار تیرہ کے مقابلے دو ہزار چودہ میں کم ہوا ہے۔ اِس کم ہوتے تناسب کی وجہ ’معاشی خوشحالی‘ بھی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے والدین ترجیح دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کسی نجی سکول بھیجیں یا پھر تعلیم کی اہمیت کو سمجھ کر متوسط و غریب خاندانوں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بچوں کو صرف تعلیم نہیں بلکہ ’معیاری تعلیم‘ ہی دلوائیں گے چاہے ایسا کرنے کے لئے اُنہیں اپنی دیگر ضروریات ہی کیوں نہ کم کرنی پڑیں۔

پرائمری سطح پر دی جانے والی تعلیم کے حوالے سے ’سال دو ہزار تیرہ‘ میں اسلام آباد‘ پنجاب‘ آزادجموں و کشمیر‘ گلگت بلتستان‘ سندھ‘ بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات کے مقابلے فہرست میں خیبرپختونخوا کا درجہ ’پانچواں‘ تھا جو کم ہو کر چھ ہو گیا ہے! پشاور میں لڑکیوں کے لئے چارسو چودہ جبکہ لڑکوں کے چھ سو سینتالیس پرائمری سکول ہیں‘ جن کے لئے 2ہزار 175 معلمات اور 3 ہزار 379 معلموں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جن شعبوں میں بہتری کی نشاندہی کی گئی ہے وہ بیت الخلأ کی سہولیات ہیں۔ دو ہزار تیرہ میں اکیاسی فیصد جبکہ رواں سال اکیانوے فیصد سکولوں میں بیت الخلأ تعمیر کر دیئے گئے ہیں۔ ہمیں اِس سہولت کے معیار سے بحث نہیں صرف اُمید ہے کہ آئندہ برس سوفیصد سکولوں میں کم ازکم بیت الخلأ جیسی سہولت فراہم کی جا چکی ہوگی تو کیا لوگوں کو اِس بات کی ترغیب دی جائے گی کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکول بھیجیں جہاں بیت الخلأ کی سہولت دستیاب ہے یا پھر معیار تعلیم کو موضوع اور حوالہ بنایا جائے گا؟ سرکاری تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کا معیار بلند کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریات بنام سہولیات کی فراہمی کے لئے سنجیدہ عملی اِقدامات کی ضرورت ہمیشہ ہی سے محسوس کی جاتی رہی تاہم آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار کے مقابلے جس سست روی سے ’تبدیلی‘ آ رہی ہے تو اس سے تو یہی لگتا ہے برسرزمین حقائق تبدیل ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ (’الف اعلان‘ کی حالیہ و سابقہ سالانہ رپورٹیں ویب سائٹ alifailaan.pk سے بلاقیمت حاصل (ڈاؤنلوڈ) کی جا سکتی ہیں۔)

No comments:

Post a Comment