Tuesday, December 2, 2014

Dec2014: Logical without logic

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اضطراب عقلی!
پاکستان تحریک انصاف یک سوئی سے ’اِنتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات اور مالی بدعنوانیوں کا اِحتساب‘ چاہتی ہے‘ جبکہ حکومت اور حزب اِختلاف بشمول دیگر سیاسی جماعتیں ’ماضی کے مردے اُکھاڑنے‘ کی بجائے ’پارلیمانی نظام‘ کو ’جوں کا توں‘ برقرار رکھنا چاہتی ہیں کہ اِسے ہی ’جمہوریت‘ کہتے ہیں۔ کسی انتخابی حلقے یا تمام حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی ازسرنو گنتی یا چھان بین کر لینے میں کونسا پہاڑ حائل ہے؟ آخر شکوک و شبہات سے پاک انتخابی نظام کی تشکیل میں حرج ہی کیا ہے؟ ماضی کے انتخابات میں ہوئی غلطیوں سبق سیکھنے میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ جن کرداروں نے ذاتی یا اجتماعی طورپر ’انتخابی دھاندلیاں‘ کیں‘ اُنہیں بے نقاب کرنے میں قباحت ہی کیا ہے؟ فیصلہ سازی کے منصب عالیہ پر فائز کرداروں نے اگر (خاکم بدہن) ملکی وسائل لوٹے ہیں تو اُن کا احتساب کرنے میں قیل و قال کیوں نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عام انتخابات کے ماہرین ’انتخابی عمل میں سرمایہ کاری‘ کے ذریعے ملکی وسائل اور اختیارات پر قابض ہو جاتے ہوں؟ ذرا سوچئے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں میں سے اگر گیارہ کروڑ نفوس سے زائد غربت کا شکار ہیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ ہر روز بچے غذائی قلت کی وجہ سے مر رہے ہیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ اکثریت کو پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت میسر نہیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ آبادی کے تناسب سے تعلیم و صحت کی سہولیات کا فقدان ہے‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ زراعت اور ماحولیات جیسے شعبے میں تحقیق و توسیع کے لئے مالی وسائل دستیاب نہیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ مواصلات کا نظام اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں تحقیق نہیں ہو رہی‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ نوجوانوں کے لئے ملازمتوں کے خاطرخواہ مواقع دستیاب نہیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ نوکریاں اور تقرریاں بناء سفارش نہیں ہوتیں‘ تو ذمہ دار کون ہے؟ توانائی کے ہر شعبے میں بحرانی کیفیت‘ افراط زر‘ مہنگائی کے مقابلے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ‘ طبقات میں بٹا ہوا نظام تعلیم‘ رشوت ستانی‘ اَقربا پروری‘ سیاسی ترجیحات و تعصبات کی عینک پہن کر فیصلہ سازی عام ہے تو کیا ’’عام آدمی کے استحصال‘‘ پر مبنی اِس ’نظام‘ کی اصلاح ناگزیر حد تک ضروری نہیں ہو چکی یا پھر اِسے ’جوں کا توں‘ برقرار رکھا جائے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک اعلیٰ اہلکار نے انکشاف کیا ہے کہ ’’دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے لئے مجموعی طورپر 94لاکھ 20ہزار اضافی ’بیلٹ پیپر‘ شائع کئے گئے۔شائع ہونے والے بیلٹ پیپرز کی کل تعداد 18کروڑ 17لاکھ 43ہزار تھی جبکہ رجسٹرڈ رائے دہندگان کی تعداد 8کروڑ 61لاکھ80 ہزار تھی تاہم ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ عام انتخابات کے لئے اضافی بیلٹ پیپرز شائع کئے گئے ہوں بلکہ ایسا تو ماضی میں بھی ’تکنیکی ضرورت‘ کی وجہ سے ہوتا رہا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد آٹھ کروڑ سات لاکھ نوے ہزار تھی جبکہ سولہ کروڑ پندرہ لاکھ بیلٹ پیپرز شائع کئے گئے تھے! مشکوک انتخابی عمل کی درستگی کوئی ایسا پیچیدہ عمل نہیں کہ جس کی اصلاح ہی ممکن نہ ہو۔ اضافی بیلٹ پیپرز کی اشاعت اِس لئے کی جاتی ہے کہ ایک سو کی تعداد میں بیلٹ پیپرز کو کتابی شکل دی جا سکے اور 1418 رجسٹرڈ ووٹرز پر مشتمل ہر پولنگ اسٹیشن پر پندرہ بیلٹ پیپرز کے کتابچے یعنی پندرہ سو ووٹ فراہم کئے جاتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ لامحالہ اضافی ووٹ شائع کرنے پڑتے ہیں۔ اب اگر اِسی استدلال کو ’جائز‘ تصور کرتے ہوئے کاغذ‘ سیاہی اور چھپائی پر اُٹھنے والے کروڑوں روپے یوں ضائع کرنے کو ضروری بھی سمجھ لیا جائے تو اِصلاح کی پہلی گنجائش بیلٹ پیپرز کی اشاعت کی جدید طباعتی وسائل (مشینری) کے استعمال سے ہونی چاہئے‘جس میں اِضافی بیلٹ پیپرز شائع کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اصلاح کی دوسری گنجائش بیلٹ پیپرز جاری کرنے کے روائتی نظام کی بجائے ’آن لائن‘ سسٹم اختیار کرنے بھی ممکن ہے‘ جس میں کسی خاص حلقے اور پولنگ اسٹیشن میں رجسٹرڈ ووٹرز سے زائد بیلٹ پیپرز کا اجرأ ممکن نہیں ہوگا۔ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں فرق نہیں آئے گا۔

کسی انتخابی حلقے میں درج شناختی کارڈ نمبر کا اندراج کئے بناء بیلٹ پیپر جاری نہیں ہو سکے گا۔ شناختی کارڈ نمبر کا الیکشن کمیشن ڈیٹابیس میں اندراج اور نادرا سے تصدیق کا یہ خودکار نظام ’آن لائن اور آف لائن ویب سائٹس یا ایپلی کیشنز‘ کے ذریعے سے یکساں کارآمد ہوسکتا ہے۔ اگر انگوٹھے کے نشان (بائیومیٹرکس) سے ہر ایک ووٹر کی تصدیق کرنا تکنیکی اعتبار یا مالی وسائل کم ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تو ’پہلے مرحلے‘ میں بیلٹ پیپر ہی ’آن لائن‘ جاری کرنے کو اختیار کر لی اجائے لیکن یہ اصلاحات شاید وہاں زیرغور یا زیربحث لائی جاتی ہیں‘جہاں فیصلہ سازی کے مراحل سے جڑے غیروابستہ‘ غیر متعلقہ‘ غیر متنازعہ اور غیرسیاسی ہوں۔ جہاں نیت اور ارادے نیک ہوں۔ کیا سیاسی کرداروں کے منظور نظر افراد کے رجحانات و ترجیحات غیروابستہ‘ غیرمتعلقہ‘ غیرمتنازعہ اور غیرسیاسی قرار دی جا سکتی ہیں؟ یہ حقیقت خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ آنکھیں بند کر کے ایسے افراد کی کارکردگی پر بھروسہ کر لیا جائے‘ جو عوام کے سامنے جوابدہ ہی نہیں۔ جنہوں نے کوئی حلف اور قسم ہی نہیں اُٹھا رکھی! اب اگر وہ اپنے عہدوں سے جڑی ذمہ داریاں پوری کریں یا نہ کریں‘ اُن کی کارکردگی کا احتساب (سزا وجزأ) کا کوئی قاعدہ قانون ہی نہ ہو تو یہی ہوگا کہ حکمراں اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی خاص جماعتیں خاص اتحادیوں کے ساتھ باریاں بدل بدل کر اِقتدار میں آتی جاتی رہیں گی اور نظام کے ڈسے اور نظام کی گرداب میں پھنسے ہوئے ہم عوام کی آنکھیں تبدیلی کی راہ دیکھتی رہ جائیں گی!

ذرا سوچئے کہ کسی حکومتی ادارے کے ایسے سربراہ اور دیگر نگرانوں سے خیر کی توقع بھلا کیسے رکھی جا سکتی ہے جن کا انتخاب خود دو سیاسی جماعتیں ’مل بیٹھ (گٹھ جوڑ)‘ اور ’باہمی مشاورت (مک مکا)‘ سے کرتی ہوں!

No comments:

Post a Comment