Monday, December 1, 2014

Dec2014: Hazara Motorway Project

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہزارہ موٹر وے: مقام شکر
ہزارہ ڈویژن شمالی علاقہ جات اور پاکستان کو چین سے ملانے والی اہم شاہراہ ریشم جہاں بے ہنگم ٹریفک کے باعث آئے روز حادثات معمول ہے اور حسن ابدال سے براستہ ایبٹ آباد سفر خوشگوار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنت نظیر وادیاں ہونے کے باوجود ’ہزارہ ڈویژن‘ کے بالائی علاقوں کی جانب ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کم رہتی ہے۔ اگر سیاحت کے شعبے کو توجہ دی جائے تو اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ معاشی سرگرمیوں سے ہزارہ و خیبرپختونخوا کی قسمت بدل جائے گی۔ شاہراہ ریشم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو اپنے عزیزترین دوست سے زمینی رابطے کا واحد ذریعہ یہی سڑک ہے۔ چاہے یہ منصوبہ کسی بھی حکومت نے سوچا ہو‘ کسی نے بھی اس کے لئے منصوبہ بندی کی ہو لیکن تمام ترسہرا پاکستان مسلم لیگ نواز کے سر جاتا ہے‘ جنہوں نے کسی بھی محرک کے تحت خطیر رقم مختص کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔

1997ء میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ نواز شریف حکومت کے قبل از وقت خاتمے کے ساتھ ہی التوأ کا شکار ہوا لیکن سترہ برس بعد میاں محمد نواز شریف نے اِس منصوبے کے فیز ون کا سنگ بنیاد رکھ کر التوأ کا شکار اِس اہم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کر ثابت کر دیا کہ وہ اپنے عہد نبھانا جانتے ہیں اور اس میں ہزارہ کی اُس سیاسی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہئے‘ جنہوں نے وزیراعظم کو اس اہم ضرورت اور عوام کے دیرینہ مطالبے سے آگاہ رکھا۔ اس سلسلے میں گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب احمد خان‘ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی‘ وفاقی مذہبی امور سردار محمد یوسف‘ رکن قومی اسمبلی کپٹن (ر) صفدر‘ خیبرپختونخوا اسمبلی میں نواز لیگ کے پارلیمانی لیڈر سردار اورنگزیب نلوٹھا مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ایبٹ آباد الیکٹرانک میڈیا ایسوسی ایشن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’حکومت مخالف دھرنوں کے باوجود ’ہزارہ موٹروے منصوبہ‘ پر کام کا آغاز ہوگا‘‘ جسے وزیراعظم نے اگلے ہی چند روز میں عملی جامہ پہنا دیا۔ ماضی میں ایسے اعلانات ہوتے رہے لیکن اس قدر تیزی سے اُنہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی مثال نہیں ملتی۔ ہوتا یہ ہے کہ سیاسی قائدین ایک الیکشن سے پہلے اعلان اور دوسرے سے پہلے اس پر کام کا آغاز کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ترقیاتی کام برسوں التوأ کا شکار رہتے ہیں۔

وزیراعظم نے 33 ارب روپے کی خطیر لاگت سے پہلے مرحلے میں برہان سے حویلیاں 59 کلومیٹر ’ہزارہ موٹروے‘ منصوبے سے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کیں کہ دو برس نہیں بلکہ سولہ ماہ میں یہ تعمیراتی منصوبہ مکمل کیا جائے۔ موٹروے تیز رفتار اور محفوظ سفر کی ذیل میں کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ ایبٹ آباد کے رہنے والوں کی نظریں موٹروے کی حویلیاں سے آگے توسیع کے منتظر ہیں اور اس سلسلے میں اُمید ہے کہ سولہ ماہ بعد دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز ہو جائے گا اور اِس منصوبے کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے اپنے حصے کا کام اگر کر دیا ہے تو صوبائی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ایبٹ آباد بائی پاس منصوبے پر جلد کام کا آغاز کرے جس کے لئے پہلے ہی 6 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔ اس منصوبے سے ایبٹ آباد شہر پر ٹریفک کا بوجھ کم ہوگا۔ ایبٹ آباد تعلیمی اداروں کا مرکز ہے۔ یہاں اعلیٰ پیشہ ورانہ سکول‘ میڈیکل و انجینئرنگ کالجیں قائم ہیں۔ طلباء وطالبات کو سفر کی صورت میں جو مشکلات پیش آتیں ہیں‘ اُن کا بھی ازالہ ہوگا اور خوشخبری یہ بھی ہے کہ ’’حویلیاں کے مقام پر یونیورسٹی کے قیام کے لئے بھی ڈپٹی سپیکر کے مطالبے پر وزیراعظم نے منظوری دے دی ہے‘ جس پر جلد کام کا آغاز ہو گا۔‘‘
موٹروے منصوبے کا حصہ ’بالڈھیر‘ کے مقام پر دنیا کی 12واں ’خشک گودی (ڈرائی پورٹ)‘ کا قیام بھی ہے‘ جس سے علاقے میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر خیبرپختونخوا کی منجمد معیشت میں اُٹھنے والی لہروں کے فوائد عام آدمی تک پہنچیں گے۔

ہزارہ موٹر وے کے فیز ون اور فیز ٹو منصوبوں سے متصل حسن ابدال‘ ہری پور اور حویلیاں کے علاؤہ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور دورافتادہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا‘ جنہیں بہتر سفری سہولیات حاصل ہوں گی۔ ذرا تصور کیجئے کہ موٹروے بننے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کتنی سرمایہ کاری ہوگی اور کس قدر لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے۔ مخالفت برائے مخالفت کی بجائے سیاسی دانشوروں کو چاہئے کہ وہ ملک میں ہونے والی ترقی کے عمل کو تعصب کی عینک اُتار کر دیکھیں۔ اگر ہرطرف دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہیں تو یقیناًاس سلسلے میں ’ایک قدم‘ کا فاصلہ طے کر لیا گیا ہے۔

No comments:

Post a Comment