Saturday, January 31, 2015

Jan2015: Anniversary Peran e Peer

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
طریقت و خانقاہی کا احیاء
اِسلامی کلینڈر کا ’چوتھا مہینہ‘ ربیع الثانی (معنی ’دوسری بہار‘) کی ’گیارہ تاریخ‘ عارف کامل‘ سلطان اولیاء‘ حضرت شیخ محی الدین والسنہ ابو محمد عبدالقادر بن ابی صالح صومعی سے منسوب ہے جنہوں نے اِس دن (15 جنوری 1166عیسوی) ظاہری دنیا سے پردہ فرمایا‘ آپ کا مزار اقدس عراق کے دارالحکومت بغداد میں موجود ہے۔ عربی زبان میں جیلانی جبکہ فارسی زبان میں آپ کے نام نامی‘ اسم گرامی کے ساتھ ’گیلانی‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے شہر ’گیلان‘ سے آپؒ کی نسبت کو ظاہر کرتا ہے‘ جہاں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی اور آپ کی اُولاد کے ہاں بھی دستور ہے کہ وہ اپنے نام کے آخر میں ’گیلانی‘ لکھتے اور پکارتے ہیں۔ اہل طریقت کے ہاں ’گیارہ ربیع الثانی‘ کا دن بالخصوص بڑے ادب و احترام اور اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے جسے ’گیارویں یا بڑی گیارویں‘ کہہ کر ’پیر بھائی اور پیر بہنیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ مبارکبادوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پشاور میں ’گیارہویں شریف‘ کی مناسبت سے تقریبات (ختم غوثیہ‘ محافل ذکر‘ نعت خوانی و منقبت) کا انعقاد ’یکم ربیع الثانی‘ سے آستانہ عالیہ امیریہ‘ کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت پر ہونا صدیوں کا معمول ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے فوراً بعد ختم غوثیہ میں سینکڑوں کی تعداد میں مرید آج بھی اِن خصوصی ایام میں حاضری دینے اُور درودوسلام کے اَدوار میں حصہ لینے کو سلسلۂ قادریہ سے اپنی نسبت کے اظہار کا موقع اور خوش بختی تصور کرتے ہیں۔

سیّدنا عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کون تھے؟ آپؒ کی تعلیمات کیا تھیں؟ آپؒ نے دین کی کیا خدمت کی اور آپؒ سے عقیدت و محبت کے سفر میں مرید بن کر شامل ہونے کے متمنی کیا کریں؟ ان سبھی سوالات کے جواب شیخ عبدالقادر گیلانی کی تصنیف کردہ دو کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ نے ’خانقاہ‘ کے تصور کو باقاعدہ ’نصاب‘ کی صورت میں مرتب کرنے اور طریقت کے اصول وضع کرنے جیسا کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ آپؒ کی حیات کے تین حصوں میں سے درمیانی حصہ یعنی کم و بیش 25 برس آپ نے ’ریاضت و مجاہدات‘ میں صرف کئے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے آپ کو تمام ولیوں کا ’سردار‘ بنایا۔ خالق و مالک کی تلاش میں آپؒ کی پچیس سالہ زندگی کا نچوڑ 2 تصنیفات کی صورت محفوظ ہے۔ ایک کتاب کا نام ’سر الاسرار‘ ہے جو اُن طالبان حق کے لئے لکھی گئی جو اپنے آپ کو تصوف کے رنگ میں ڈھالنا چاہتا ہے یعنی طریقت کے سلسلے سے وابستہ ہو کر اولیاء کرام کے پیچھے چلنا چاہتا ہے‘ ایسے تمام افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو پاک و صاف کریں اور اِس مقصد کے لئے ’سرالاسرار‘ نامی کتاب میں 24ابواب پڑھنے لائق ہیں۔ جس کے ذریعے اللہ کی محبت دل میں راسخ ہوتی ہے اور جب تک دل میں اللہ شان سبحانہ کی محبت راسخ نہیں ہوگی‘ دل نرم نہیں ہوگا۔ ہمارے معاشرے سے نرمی کے ختم ہونے کاسبب بھی یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں محبت الہیٰ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہی‘ چنانچہ دل سخت ہو گئے ہیں اُور ہم ایک دوسرے سے نفرتیں بھی کرنے لگے ہیں۔ شیخ عبدالقادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری کتاب ’غنیۃ الطالبین‘ ہے جس کے ذریعے شریعت و طریقت کو سمجھا جاسکتا ہے۔

تصوف اپنے اجزائے ترکیبی میں اخلاق صافیہ‘ معرفت حق یا سلوک کی راہوں مکاشفہ‘ مشاہدہ‘ تجلیات اور جذبات کے ذریعے اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ علم شریعت سے خروج نہیں اور نہ ہی محرمات میں غفلت برتنے سے عبارت ہے بلکہ شریعت ہی کا عطیہ و ثمرہ ہے۔ تصوف درحقیقت شریعت کے اوامر کی پابندی کا نام ہے۔ پیرطریقت حضرت سیّد محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ نے کرامت اور اولیاء کرام کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کسی بزرگ کا ایک واقعہ بیان کیا تھا جن کے پاس ایک مرید حاضر ہوا اور چالیس برس تک اُن کی خدمت کرنے کے بعد یہ کہہ کر اجازت طلب کرنے آیا کہ میں نے آپ کی بہت خدمت کی اور سمجھا تھا کہ آپ ’ولی اللہ‘ ہیں لیکن اِس چالیس برس کے عرصے میں آپ سے کسی کرامت کا ظہور میں نے نہیں دیکھا۔ اُن پیر صاحب نے پوچھا کہ کیا تم نے اِس عرصے کے دوران مجھ سے کوئی خلاف شریعت کام ہوتے دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو بس یہی طریقت کی معراج ہے کہ اِس سلسلے سے وابستہ ہر کس و ناکس شرعی امور کا پابند ہو جائے۔ خانقاہوں کے ناموں اور بڑے بڑے القابات سے متاثر ہونے کی بجائے کسوٹی یہ ہے کہ گدی نشین ہستی کے عمل کو دیکھا جائے‘ اگر وہ شریعت کا پابند ہے اور ظاہری امور میں اُس سے خلاف شریعت کام نہیں ہو رہے تو وہی صحیح رہنما (پیر) ہے اور اُس کی نشست گاہ (خانقاہ) کہلائے گی وگرنہ بہت سی ’خان گاہیں‘ ہمارے اردگرد پھیلی ہیں‘ جن کی وجہ سے ’خانقاہ‘ سے کئی باطل تصور و نظریات منسوب کر لئے گئے ہیں۔

شیخ عبدالقادر گیلانیؒ نے وصیت فرمائی تھی کہ ۔۔۔’’اللہ سے ڈرو اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرو۔ظاہر شریعت کی پابندی کرو۔سینہ کو پاک‘ نفس کو کشادہ اور چہرہ تروتازہ رکھو۔جو چیز عطا کرنے کے قابل ہو اسے عطا کرتے رہو۔ ایذادہی سے باز رہو۔ تکالیف پر صبر کرو۔ بزرگوں کی عزت واحترام کا خیال رکھو۔ برابر والوں کے ساتھ حسن سلوک اور کم عمر والوں کے ساتھ خیر خواہی کے جذبے سے پیش آؤ۔احباب سے جھگڑا نہ کرو۔قربانی وایثار کا جذبہ اپناؤ اُور مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی سے بچو!‘‘ گیارہ ربیع الثانی کی بابرکت ساعتوں میں سیّدنا شیخ عبدالقادر گیلانی کی تعلیمات 17 کتابوں میں محفوظ ہیں جن میں ’سرالاسرا‘ اور ’غینۃ الطالبین‘ نامی دو کتابوں کے مطالعے سے شریعت و طریقے کے رشتے اور اصولوں کو سمجھا جاسکتا ہے جو بعدازاں اسلام کی ترویج و اشاعت کا سبب بھی بنا۔ اگر خانقاہوں کا نظام پھر سے فعال اور ان سے وابستگی پھر سے اختیار کر لی جاتی ہے تو ہم اُس انتہاء پسندی‘ فرقہ واریت اور نفرت سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ہمارے گردونواح میں دہشت گرد واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

1 comment: