Friday, January 30, 2015

Jan2015: ECP Role in Elections

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابات: ضمنی فیوض و برکات
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان پہلی ’آمنے سامنے‘ ملاقات کے لئے 2 فروری کا دن طے کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی اِس غیرمعمولی ملاقات میں عمران خان ’الیکشن کمیشن آف پاکستان‘ کے سربراہ کے سامنے عام انتخابات میں دھاندلی کے طریقوں اور انتخابی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کریں گے۔ تو کیا جو کچھ عمران خان جانتے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کے علم میں نہیں؟ لیکن جو کچھ اور جیسا عمران خان چاہتے ہیں‘ یعنی صاف و شفاف عام انتخابات کا انعقاد‘ ایک ایسا سوچاسمجھا مطالبہ ہے‘ جس میں پاکستان کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کی بجائے اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے حسب سابق بیانات ہی پر اکتفا کر لیا جائے!

آزادانہ ماحول میں شفاف عام انتخابات معنی خیز جمہوری طرز حکمرانی کے لئے ضروری ہے کیونکہ کسی بھی حکمراں سیاسی جماعت یا اُس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا احتساب کرنے کی اگر کوئی جمہوری صورت ہے تو وہ عام انتخابات ہی ہیں جنہیں بدقسمتی سے اپنے حق میں کرنے کے لئے عام انتخابات میں کچھ اس انداز سے منظم اور باقاعدہ دھاندلی کی جاتی ہے کہ ثبوت موجود ہونے کے باوجود بھی اُن پر اعتبار کی صورت نہیں بنتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روائتی سیاسی جماعتیں اور اُن سے وابستہ خواہشات کے اسیر‘ حرص و طمع کے پیکر اور ذاتی مفادات کے غلام صرف جوڑ توڑ یا سودے بازی ہی کے ماہر نہیں ہوتے بلکہ وہ عام انتخابات کو لوٹنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے سربراہ کا انتخاب ہو یا انتخابی قواعد و ضوابط کی تشکیل و ترتیب‘ جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ ایسے کرداروں کو الیکشن کمیشن کی انتظامی ذمہ داریاں اور فیصلہ سازی کا اختیار سونپا جائے‘ جو روائتی سیاسی جماعتوں کے مفادات پر ضرب نہ لگائے۔ عجب ہے کہ ملک کی جن دو بڑی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کے انتخاب کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے وہی دو سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر یا پھر دوسرے اور پہلے نمبر پر آتی ہیں اور یہ تسلسل توڑنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی! عجب یہ بھی ہے کہ گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف ملک کی دوسری سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھری لیکن قانون ساز ایوان میں اُس کی حاصل کردہ نشستوں کے لحاظ سے وہ تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ معلوم ہوا کہ بے تحاشا اور بے دریغ پولنگ سے نہیں بلکہ فتح کے لئے ہر ایک انتخابی حلقے کے لئے الگ الگ ’پولنگ حکمت عملی‘ تشکیل دینا ہوتی ہے۔ جہاں کہیں ’آزمودہ سیاسی جماعت‘ کے نامزد اُمیدوار کو خطرہ ہو کہ وہ ہار جائے گا‘ وہاں مخالف جماعت کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ذریعے اچھی ساکھ والے چند ایک افراد کو بطور کٹھ پتلی اُمیدوار انتخابات میں حصہ لینے پر شہ دی جاتی ہے جبکہ اپنی عددی برتری برقرار رکھنے کے لئے چند پولنگ اسٹیشنوں پر مبنی ’ووٹ بینک‘ محفوظ بنا لیا جاتا ہے۔ یوں پولنگ کے مجموعی نتائج مرتب کرتے ہوئے چند پولنگ مراکز کے نتائج درجنوں پولنگ اسٹیشنوں پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ اِس سلسلے میں انتخابی عملے کو ’خوش‘ کرنے اور اپنی مرضی کا ’انتخابی عملہ‘ تعینات کرانے کا طریقۂ کار بھی ہر کس و ناکس کے علم میں نہیں۔

10 فروری 1945ء کو پیدا ہونے والے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کا تعلق ضلع ایبٹ آباد کے معزز ’کرلال‘ قبیلے سے ہے‘ جنہوں نے 1985ء میں امریکہ کے آئینی نظام کا مطالعہ اور 1999ء میں جاپان کے شہر ٹوکیو سے ’’سرکاری اداروں میں اہلکاروں کی بدعنوانیوں‘‘ کے حوالے سے تین ماہ کی خاص تربیت حاصل کر رکھی ہے اُور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سرکاری میں قواعد وضوابط کی کمی نہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ اگرچہ یہ کوئی خبر نہیں کہ سردار رضا ’بذات خود پاکستانی‘ ہیں اور انہوں نے گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد سے گریجویشن کی یعنی ہمارا گردوپیش اُن کے لئے کسی بھی طور اجنبی نہیں۔ وہ بیرون ملک نامور اداروں کے تحصیل یافتہ نہیں بلکہ غریب و متوسط طبقات کی حالات اُن کے سامنے ہیں۔ کس طرح لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کس طرح صحت و تعلیم کے لئے مختص مالی وسائل کی لوٹ مار ہو جاتی ہے۔ کس طرح ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے پہلے ہی اُن کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کس طرح سیاسی شعبدہ گر سرکاری ملازمتوں کی بندر بانٹ اور تعصب کی بنیاد پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے اپنے انتخابی حلقوں کے عوام کو غلام بنائے رکھتے ہیں۔ کس طرح اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہونے دی جاتی تاکہ درخواست گزار اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں یا حکمراں خاندانوں کے آگے دست بستہ کھڑے رہیں! الغرض قانون و قواعد سازی سے لیکر حکمت عملیوں پر عمل درآمد تک کے مراحل میں ذاتی و سیاسی پسند و ناپسند کو ترجیح بنانے والوں نے پورے حکمرانی کے نظام کو یرغمال بنا لیا ہے اور اِس مغوی نظام کی بازیابی کا واحد طریقہ ’بدعنوانی سے پاک عام انتخابات کا انعقاد‘ ہے جس کے لئے تحریک انصاف کی قیادت‘ اصلاح پسند حلقے‘ ہم خیال سیاسی جماعتیں اور طرز حکمرانی میں اِصلاحات کی خواہاں نوجوان نسل کی اَکثریت کا ’ایک سو چھبیس دن جاری رہنے والا احتجاج‘ ملک گیر اجتماعات اور مسلسل اخلاقی و نفسیاتی دباؤ نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم جمہوریت کو پاکستان کی تعمیروترقی اور بقاء کے لئے ایک اچھا ’طرز حکمرانی‘ تصور کرتے ہیں تو پھر ہم میں سے ہر ایک کو ایسے شفاف و آزاد عام انتخابات کا انعقاد کی کوششوں اور مطالبے کا حصہ بننا ہوگا‘ جس سے حکمرانوں کی کارکردگی کا احتساب بذریعہ ووٹ ممکن ہو سکے۔

 تحریک انصاف اگر مطالبہ نہ بھی کرتی تو چیف الیکشن کمشنر کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام انتخابات کو پتنگ بازی کی طرح لوٹنے جیسی روایت کے تسلسل کو ختم کریں‘ اور ایسا کرنے کا محفوظ ترین راستہ ٹیکنالوجی کو اپنانے کا ہے۔ ’بائیومیٹرکس‘ نظام میں فکر و تدبر‘ وقت اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘ جس سے نہ تو مقررہ تعداد سے زیادہ ووٹ (بیلٹ پیپرز) شائع کرنے کی حاجت باقی رہے گی اور نہ ہی ایک سے زیادہ ووٹ ڈالا جاسکے گا۔ اصلاحات کے لئے تجویز ہے کہ انتخابی حلقوں کی بجائے سیاسی جماعتوں کے نام ووٹ ڈالنے کا نظام متعارف کرایا جائے‘ جس میں حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کے تعین کا فارمولہ باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ کھلے عام انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے صرف اور صرف آبائی حلقے ہی سے تعلق رکھنے والوں ہی کو بطور نمائندہ نامزد کرنے کا اختیار سیاسی جماعتوں کو ہونا چاہئے‘ کیونکہ روائتی انفرادی احتساب کی بجائے عام انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے وابستہ توقعات کے بارے میں فیصلہ ’عوام کی رائے‘ سے ہونے میں کئی ضمنی برکات و فیوض پوشیدہ ہیں۔

No comments:

Post a Comment