ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عالمانہ بددیانتی
عالمانہ بددیانتی
انگریزی زبان کے ایک معروف روزنامے نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ جائزے
میں سوال پوچھا ہے کہ ’’آپ کے خیال میں پاکستان کی مقبول ترین (سیاسی)
جماعت کون سی ہے؟‘‘ اِس سوال کا جواب دینے کے لئے آٹھ سیاسی جماعتوں کے نام
درج ذیل ترتیب کے ساتھ جاری کئے گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘
پاکستان پیپلزپارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف‘ متحدہ قومی موومنٹ‘ جماعت
اسلامی‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اُور پاکستان مسلم لیگ
(قائد اعظم)۔ ستائیس جنوری کو جاری کئے گئے سروے میں تین دن (اُنتیس جنوری
دوپہر دو بجے تک) ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف کے حصے میں سب سے
زیادہ ووٹ یعنی 41.61 فیصد‘ متحدہ قومی موومنٹ کو 17.22فیصد‘ مسلم لیگ نواز
کو 16.58 فیصد‘ جماعت اسلامی کو 12.53فیصد‘ پاکستان پیپلزپارٹی کو
6.88فیصد‘ جمعیت علمائے اسلام کو 4.27فیصد‘ پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم)
کو 0.59فیصد اور عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں کل 23ہزار 468 ووٹوں میں سے
صرف 72 ووٹ آئے‘ جن کا تناسب مجموعی ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے 0.31 فیصد
بنتا ہے!
صحافتی بددیانتی کی اِس سے ’قبیح‘ مثال کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ سب سے پہلے تو سوال کی ساخت (فارمیٹ) پر غور کریں‘ جس کے جواب میں کسی سیاسی جماعت کا نام خود سے تجویز کرنے کا آپشن موجود نہیں‘ قارئین کو ناموں کی ایک فہرست میں دیئے گئے ناموں ہی میں سے ایک نام کا انتخاب کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اخبار کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرنے والوں کی ذاتی پسند و ناپسند ہی اِس سے عیاں ہوئی ہے اور ہم جو ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذکورہ اخبار کے قارئین کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے جسے نو ہزار سات سو چھیاسٹھ ووٹ ملے۔ کیا ذمہ دار قومی اخبارات کو اِس قسم کے سروے کرنے چاہیءں جس سے بیرون ملک پاکستانی یا پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھنے والے ایسا تاثر لیں جو ملک کے اٹھارہ کروڑ سے زائد عوام یا نو کروڑ سے زائد بالغ افراد کی رائے کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا؟ ذرائع ابلاغ جس طرح (دانستہ طور پر) اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں‘ تو اس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو وقتی طورپر فائدہ یا نقصان نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ خود اُن کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اِس قسم کے غیرسائنسی اور تن آسان و سہل (lazy) انداز میں مرتب ہونے والے جائزے اور اُن کے فوری نتائج اِس بات کا بھی مظہر ہیں کہ دوسروں کو فکر و تدبر کی دعوت دینے والوں نے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو بہت ہی ہلکا سمجھ لیا ہے!
عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ مالدیوز (Maldives) میں ہے‘ جہاں سال 2013ء کے آخر تک مجموعی آبادی کا 44.1فیصد حصہ انٹرنیٹ استعمال کررہا تھا۔ دوسرے نمبر پر بھوٹان میں 29.9 فیصد‘ تیسرے نمبر پر سری لنکا میں 21.9فیصد‘ چوتھے نمبر پر بھارت میں 15.1فیصد‘ پانچویں نمبر پر نیپال میں 13.3فیصد‘ چھٹے نمبر پر پاکستان میں 10.9 فیصد‘ ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش میں 6.9فیصد اور آٹھویں نمبر پر افغانستان کی کل آبادی کا 5.9فیصد انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ایسوسی ایشن پاکستان (ISPAK) کی جانب سے اکتوبر 2014ء میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کل صارفین کی ممکنہ تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے جس میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یعنی اگر عالمی بینک کے اعدادوشمار پر بھروسہ نہ بھی کیا جائے تو پاکستان کے اپنے ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار بھی زیادہ مختلف نہیں جن کے مطابق کل آبادی میں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پندرہ فیصد سے کم ہیں تو کیا جو پندرہ فیصد انٹرنیٹ صارفین کسی ایک ہی اخبار کی ویب سائٹ پر روزانہ حاضری لگاتے ہیں یا پھر اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتی بلکہ وہ فلمیں‘ گانے‘ تفریح طبع کے پروگرام اور سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اپنا (آن لائن) وقت خرچ (صرف) کرنا پسند کرتے ہیں! ایسی صورت میں کسی اخبار کے ویب سائٹ پر جاری ہونے والے سروے کی حیثیت بھلا کیا رہ جاتی ہے لیکن اگر اِس سروے کے نتائج کو جواز بنا کر ملک میں پائے جانے والی رائے عامہ پر دلیل پیش کی جائے تو یہ سراسر کمزور ہوگی۔ عالمانہ بددیانتی یہ ہے کہ اپنے علم کا استعمال کچھ اِس انداز میں کیا جائے کہ پہلے سے سوچے ہوئے جواب یا نتیجۂ خیال کو حقائق کی صورت میں ڈھال کر وہ مطالب دوسروں (قارئین و ناظرین) کے ذہنوں میں ٹھونس دیئے جائیں‘ جو نہ تو کلی طور پر درست ہیں اور نہ ہی کلی طور پر غلط۔ دنیا بھر میں رائے عامہ سے متعلق اِس قسم کے جائزے مرتب و جاری کئے جاتے ہیں لیکن جس قدر آسان اور بیٹھے بٹھائے جائزے پاکستان میں تخلیق یا نشوونما پاتے ہیں‘ شاید ہی اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو۔
تفریح طبع کے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ’جیتو پاکستان‘ کے نام سے پروگرام ہفتے میں دو دن کراچی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے‘ جس کا ایک حصہ (segment) یہ ہوتا ہے کہ ’’ہم نے لوگوں سے پوچھا‘‘۔۔۔ اور آگے ایک سوال ہوتا ہے جس کے مختلف جوابات ایک خاص تناسب سے پیش کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر مرد دوسری شادی کب کرتے ہیں؟ گھر کی آیا (ملازمہ) کو کیوں فارغ کیا جاتا ہے؟ مرد جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اِن سوالات کے جوابات میں بمشکل کوئی جواب تیس فیصد سے زیادہ نمبر رکھتا ہے‘ یعنی کھیل کو دلچسپ بنانے کے لئے ’عوام کی رائے‘ کا استعمال جس بیدردی و غیرمحتاط انداز سے کیا جاتا ہے‘ وہ اپنی جگہ ایک الگ درجے کی بددیانتی ہے۔ کراچی میں رہنے والوں کی رائے کو پورے پاکستان پر چسپاں کرکے ہنسی مزاق میں کچھ وقت تو اچھا گزر جاتا ہے لیکن اِس تصوراتی سراب سے اندرون ملک دیگر شہروں یا بیرون ملک رہنے والوں کے ذہن میں ایک ایسا جواب ثبت ہو جائے گا‘ جو درست تاثر پر مبنی نہیں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے جملہ اداروں بشمول خبریں اور تجزیئے پیش کرنے والوں سے التماس ہے کہ ایسے غیرسائنسی جائزہ رپورٹس سے اجتناب برتیں‘ جس سے پاکستان میں رہنے والوں کی پسند و ناپسند اور سوچ و فکر کی حقیقی ترجمانی نہیں ہوتی بلکہ دروغ گوئی کا رنگ مہندی کی طرح ہمارے شعور و لاشعور پر کچھ اِس طرح ثبت ہو جاتا ہے کہ ہم کسی بات کے اُس زاویئے کو سچ سمجھنے لگتے ہیں جو درحقیقت جھوٹ‘ فریب اور گمراہ کن نظریات پر مبنی ہوتا ہے!
صحافتی بددیانتی کی اِس سے ’قبیح‘ مثال کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ سب سے پہلے تو سوال کی ساخت (فارمیٹ) پر غور کریں‘ جس کے جواب میں کسی سیاسی جماعت کا نام خود سے تجویز کرنے کا آپشن موجود نہیں‘ قارئین کو ناموں کی ایک فہرست میں دیئے گئے ناموں ہی میں سے ایک نام کا انتخاب کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اخبار کی ویب سائٹ کا مطالعہ کرنے والوں کی ذاتی پسند و ناپسند ہی اِس سے عیاں ہوئی ہے اور ہم جو ایک بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ مذکورہ اخبار کے قارئین کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق ’تحریک انصاف‘ سے ہے جسے نو ہزار سات سو چھیاسٹھ ووٹ ملے۔ کیا ذمہ دار قومی اخبارات کو اِس قسم کے سروے کرنے چاہیءں جس سے بیرون ملک پاکستانی یا پاکستان کے سیاسی نظام کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھنے والے ایسا تاثر لیں جو ملک کے اٹھارہ کروڑ سے زائد عوام یا نو کروڑ سے زائد بالغ افراد کی رائے کی مکمل ترجمانی نہیں کرتا؟ ذرائع ابلاغ جس طرح (دانستہ طور پر) اپنی طاقت کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے کسی ایک سیاسی جماعت کے بارے میں رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں‘ تو اس سے کسی خاص سیاسی جماعت کو وقتی طورپر فائدہ یا نقصان نہیں ہو رہا ہوتا بلکہ خود اُن کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اِس قسم کے غیرسائنسی اور تن آسان و سہل (lazy) انداز میں مرتب ہونے والے جائزے اور اُن کے فوری نتائج اِس بات کا بھی مظہر ہیں کہ دوسروں کو فکر و تدبر کی دعوت دینے والوں نے اپنے فرائض و ذمہ داریوں کو بہت ہی ہلکا سمجھ لیا ہے!
عالمی بینک (ورلڈ بینک) کے مطابق جنوب ایشیائی ممالک میں انٹرنیٹ کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ مالدیوز (Maldives) میں ہے‘ جہاں سال 2013ء کے آخر تک مجموعی آبادی کا 44.1فیصد حصہ انٹرنیٹ استعمال کررہا تھا۔ دوسرے نمبر پر بھوٹان میں 29.9 فیصد‘ تیسرے نمبر پر سری لنکا میں 21.9فیصد‘ چوتھے نمبر پر بھارت میں 15.1فیصد‘ پانچویں نمبر پر نیپال میں 13.3فیصد‘ چھٹے نمبر پر پاکستان میں 10.9 فیصد‘ ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش میں 6.9فیصد اور آٹھویں نمبر پر افغانستان کی کل آبادی کا 5.9فیصد انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ایسوسی ایشن پاکستان (ISPAK) کی جانب سے اکتوبر 2014ء میں جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے کل صارفین کی ممکنہ تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے جس میں ڈیڑھ کروڑ موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں یعنی اگر عالمی بینک کے اعدادوشمار پر بھروسہ نہ بھی کیا جائے تو پاکستان کے اپنے ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار بھی زیادہ مختلف نہیں جن کے مطابق کل آبادی میں سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پندرہ فیصد سے کم ہیں تو کیا جو پندرہ فیصد انٹرنیٹ صارفین کسی ایک ہی اخبار کی ویب سائٹ پر روزانہ حاضری لگاتے ہیں یا پھر اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتی بلکہ وہ فلمیں‘ گانے‘ تفریح طبع کے پروگرام اور سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر اپنا (آن لائن) وقت خرچ (صرف) کرنا پسند کرتے ہیں! ایسی صورت میں کسی اخبار کے ویب سائٹ پر جاری ہونے والے سروے کی حیثیت بھلا کیا رہ جاتی ہے لیکن اگر اِس سروے کے نتائج کو جواز بنا کر ملک میں پائے جانے والی رائے عامہ پر دلیل پیش کی جائے تو یہ سراسر کمزور ہوگی۔ عالمانہ بددیانتی یہ ہے کہ اپنے علم کا استعمال کچھ اِس انداز میں کیا جائے کہ پہلے سے سوچے ہوئے جواب یا نتیجۂ خیال کو حقائق کی صورت میں ڈھال کر وہ مطالب دوسروں (قارئین و ناظرین) کے ذہنوں میں ٹھونس دیئے جائیں‘ جو نہ تو کلی طور پر درست ہیں اور نہ ہی کلی طور پر غلط۔ دنیا بھر میں رائے عامہ سے متعلق اِس قسم کے جائزے مرتب و جاری کئے جاتے ہیں لیکن جس قدر آسان اور بیٹھے بٹھائے جائزے پاکستان میں تخلیق یا نشوونما پاتے ہیں‘ شاید ہی اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو۔
تفریح طبع کے ایک ٹیلی ویژن چینل پر ’جیتو پاکستان‘ کے نام سے پروگرام ہفتے میں دو دن کراچی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے‘ جس کا ایک حصہ (segment) یہ ہوتا ہے کہ ’’ہم نے لوگوں سے پوچھا‘‘۔۔۔ اور آگے ایک سوال ہوتا ہے جس کے مختلف جوابات ایک خاص تناسب سے پیش کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر مرد دوسری شادی کب کرتے ہیں؟ گھر کی آیا (ملازمہ) کو کیوں فارغ کیا جاتا ہے؟ مرد جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اِن سوالات کے جوابات میں بمشکل کوئی جواب تیس فیصد سے زیادہ نمبر رکھتا ہے‘ یعنی کھیل کو دلچسپ بنانے کے لئے ’عوام کی رائے‘ کا استعمال جس بیدردی و غیرمحتاط انداز سے کیا جاتا ہے‘ وہ اپنی جگہ ایک الگ درجے کی بددیانتی ہے۔ کراچی میں رہنے والوں کی رائے کو پورے پاکستان پر چسپاں کرکے ہنسی مزاق میں کچھ وقت تو اچھا گزر جاتا ہے لیکن اِس تصوراتی سراب سے اندرون ملک دیگر شہروں یا بیرون ملک رہنے والوں کے ذہن میں ایک ایسا جواب ثبت ہو جائے گا‘ جو درست تاثر پر مبنی نہیں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے جملہ اداروں بشمول خبریں اور تجزیئے پیش کرنے والوں سے التماس ہے کہ ایسے غیرسائنسی جائزہ رپورٹس سے اجتناب برتیں‘ جس سے پاکستان میں رہنے والوں کی پسند و ناپسند اور سوچ و فکر کی حقیقی ترجمانی نہیں ہوتی بلکہ دروغ گوئی کا رنگ مہندی کی طرح ہمارے شعور و لاشعور پر کچھ اِس طرح ثبت ہو جاتا ہے کہ ہم کسی بات کے اُس زاویئے کو سچ سمجھنے لگتے ہیں جو درحقیقت جھوٹ‘ فریب اور گمراہ کن نظریات پر مبنی ہوتا ہے!
No comments:
Post a Comment