Wednesday, January 28, 2015

Jan2015: Guns and teachers

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
درس و تدریس: لاحق خطرات
بس اِسی بات کی کمی باقی رہ گئی تھی۔ خیبرپختونخوا پولیس نے تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں میں جس طرح دوسروں کو شریک کر لیا ہے‘ وہ اُس ’حکمت عملی‘ کا حصہ ہے جس کا ایک جز اساتذہ بالخصوص درس و تدریس سے وابستہ خواتین عملے کو مسلح کرنا اور اُنہیں خودکار اَسلحے کے مؤثر استعمال کی مرحلہ وار تربیت دینا شامل ہے۔ گویا کہ ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ’تشدد کا مقابلہ تشدد سے کریں گے۔‘ دفاع کے نام پر اسلحہ رکھنے کی اجازت تو دے گئی ہے لیکن اِس اسلحے کے استعمال پر نظر اور اجازت نامے جاری کرنے قبل بصیرت و بصارت (نفسیاتی) ٹیسٹ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا گیا‘ تاکہ اِس بات کا تعین کیا جاسکتا کہ وہ اساتذہ جنہیں بچوں کو مار پیٹ کرنے کی اجازت نہیں لیکن اس کے باوجود پٹائی کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں تو کہیں ایسا کہ نہ ہو آئندہ چھڑی کی بجائے اساتذہ ہتھیار استعمال کرنے لگیں یا پھر ہتھیاروں کا استعمال گھریلو یا ذاتی تنازعات میں ہونے لگے ۔ کلاس روم میں مسلح استاد کی موجودگی کے نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے‘ اِس بارے بھی خاطرخواہ غوروخوض اور متعلقہ شعبے کے ماہرین (نفسیاتی معالجین) سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

محض چند روز کی تربیت سے کیا اساتذہ اِس قابل ہوجائیں گے کہ وہ اپنا اور اپنی کلاس یا پورے سکول کا دفاع ایسے حملہ آوروں سے کرسکیں جن کے سر پر خون سوار ہو اور جو خودکش بن کر نازل ہوئے ہوں؟ کیا ہم یہ حقیقت بھول گئے ہیں کہ سولہ دسمبر کے روز جب ’آرمی پبلک سکول‘ کو حملہ آوروں سے نجات دلانے کے پاک فوج کے خصوصی تربیت یافتہ دستے ’سپیشل سروسیز گروپ (ایس ایس جی)‘ سے تعلق رکھنے والے کمانڈوز کو طلب کیا گیا تو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے وہ بھی زخمی ہوئے اور باوجود جسمانی طور پر چاک و چوبند‘ مستعد اور نشانہ بازی میں انتہائی درجے کی حیران کن مہارت رکھنے والوں کو بھی زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔

 ہمارا مقابلہ جس دشمن سے ہے اُس پر اپنے جیسا ہونے کا گمان کرنا دوسری بلکہ زیادہ سنگین غلطی ہوگی۔ یہ امر بھی لائق توجہ رہے کہ جس معاشرے کو انتہاء پسندی نے کھوکھلا اور دہشت گردی نے خوفزدہ کر رکھا ہے وہاں اسلحہ رکھنے کی حوصلہ افزائی اور فوری اجازت نامے مرحمت فرمانے سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے۔ سکول کی چاردیواری کے اندر اسلحہ لیجانے کی ضرورت کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ کیا معلوم یہی اسلحہ حملہ آوروں کے ہاتھ لگے۔ ایک منٹ میں درجن سے زائد گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والا اسلحہ کہیں کلاس رومز پر موت جیسا سکوت طاری کرنے کا سبب نہ بن جائے۔ کیا ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے کہ وہ شہری و دیہی بندوبستی علاقوں میں دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کار بننے والوں کا قلع قمع نہیں کرسکتے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سولہ دسمبر کے سانحۂ پشاور جیسے واقعات کے رونما ہونے سے قبل‘ اُن کی منصوبہ بندی کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی ہم میں اہلیت ہی نہیں۔ خفیہ معلومات جمع کرنے کا ہمارا نظام مفلوج ہو چکا ہے۔ ہم ذہنی و جسمانی طور پر اِس حد تک تھکاوٹ و نقاہت کا شکار ہوچکے ہیں کہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے جیسے اقدام کو بھی ’ایک قابل عمل‘ حل سمجھ رہے ہیں۔ اُمید ہے اَرباب اختیار مسلح اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے اندر اسلحہ لیجانے کی اجازت دینے سے متعلق اپنے مؤقف پر نظرثانی کریں گے۔

حرف آخر: پشاور صدر کے علاقے ’نوتھیہ‘ کے رہنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اُن کے گنجان آباد مرکزی رہائشی و تجارتی علاقے سے ’فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایف ای ایف) کالج‘ دوسرے مقام پر منتقل کیا گیا تو وہ اِس ’ناانصافی‘ کے خلاف یکم فروری سے ’پریس کلب‘ کے سامنے ’احتجاج‘ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی جائے گی۔ بذریعہ ’ایس ایم ایس پیغامات‘ طالبات اور اُن کے والدین کی جانب سے اپیل میں انتخابی وعدوں اور تعلیم دوستی کے حوالے سے اعلانات و بیانات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں ’تعلیمی ایمرجنسی‘ نافذ ہے یعنی درس و تدریس کا عمل حکومت کی اوّلین ترجیح ہے اور قیام پاکستان کے بعد سے کسی بھی سیاسی دور میں موجودہ حکومت کی طرح تعلیم کے فروغ کے لئے اِس قدر مالی وسائل کبھی مختص نہیں کئے گئے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبات کے جس کالج کو محض ’کم تعداد‘ کی وجہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ اس سے اندیشہ ہے کہ نوتھیہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والی بہت سی طالبات تعلیم کے سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ یہ التجا ایک سو بیس طالبات اور اُن کے والدین کی جانب سے مشتہر کرنے والے سماجی کارکن انور خان نے اِس اندیشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ پریس کلب کے سامنے مستقل احتجاجی دھرنا سیکورٹی کے لحاظ سے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے‘ لہٰذا محکمہ اعلیٰ تعلیم کے اَرباب اختیار بشمول وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اُور تحریک اِنصاف کے سربراہ عمران خان ’ایف ای ایف کا نوتھیہ کالج‘ ختم کرنے کی بجائے طالبات کے مزید تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان فرمائیں اور اپنی ’علم دوستی‘ کا عملی مظاہرہ کریں۔
 

No comments:

Post a Comment