ژرف نگاہ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
خیبرپختونخوا: سینیٹ انتخابات
خیبرپختونخوا: سینیٹ انتخابات
تین مارچ کے روز قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی اُن 52 نشستوں کے لئے
انتخاب ہوگا‘ جن کی رکنیت کی آئینی مدت 11 مارچ کو مکمل ہو جائے گی۔ اِس
سلسلے میں سولہ اور سترہ فروری تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس کاغذات
نامزدگی جمع کرائے جا سکتے ہیں‘ جن پر اعتراضات بیس اور اکیس فروری کو سنے
جائیں گے۔ اُمیدوار 25 فروری تک کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے۔ مجموعی
طورپر سندھ اور پنجاب سے گیارہ گیارہ‘ خیبرپختونخوا اُور بلوچستان سے بارہ
بارہ نشستوں پر جبکہ قبائلی علاقوں سے 4 اور اسلام آباد سے سینیٹ کی 2
نشستوں پر نمائندوں کا چناؤ کرنے کے لئے اراکین صوبائی اسمبلی خفیہ رائے
شماری کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔
خیبرپختونخوا (صوبائی) قانون ساز ایوان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں ’آئندہ سینیٹ الیکشن‘ کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں‘ غوروخوض کا عمل فیصلہ کن شکل اختیار کر رہا ہے اور صورتحال بڑی حد تک واضح ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی ہر جماعت اپنی اپنی عددی برتری کی حفاظت اور اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی فطری کوشش کے علاؤہ کچھ اضافی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی تگ و دو کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی میں بھی یہی دیکھنے میں آیا کہ خفیہ رائے شماری کی وجہ سے کچھ ایسے کردار بھی سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیجن کی وابستگی عددی اعتبار سے اسمبلی میں موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جمہوریت کا صبح شام راگ الاپنے والوں سے جب ’سینیٹ انتخابات‘ میں اراکین اسمبلی کے روئیوں اور کارکردگی کے مظاہرے کی بات کی جائے تو وہ اپنی غلطیوں کا موازنہ ماضی میں ہوئے واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے ’ہارس ٹریڈنگ‘ کا بیک وقت دفاع بھی کرتے ہیں اُور اِس عمل پر ’لعنت ملامت‘ بھیجتے بھی نظر آتے ہیں! بہرحال سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر ایک رکن صوبائی اسمبلی کی قسمت جاگ اُٹھی ہے‘ حکومت یا اس کے اِتحادی ہوں یا حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین سب کی اہمیت اُن کی جماعتوں کو اچانک محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے اور یہی وہ نازک وقت ہوتا ہے جب کہیں چرب زبانی تو کہیں اچھی حکمت عملی کام آ جاتی ہے اور اراکین اسمبلی اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے لئے خصوصی ترقیاتی فنڈز سمیت سینیٹ میں نشست حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ’سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)‘ بجٹ کے ساتھ ہی پیش کردیا جاتا ہے لیکن حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ بجٹ میں مختص وسائل سے زیادہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کردے۔ صوابدیدی اور غیرصوابدیدی اختیارات کا استعمال وفاقی اور صوبائی سطح پر ہمارے پارلیمانی نظام کا ایک ایسا ’خوبصورت‘ رخ ہے‘ جس کی وجہ سے حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کرتی ہیں۔ انتخابات میں ہونے والے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں اور آئندہ انتخابات کے لئے کچھ نہ کچھ پس و پیش بھی کر لیا جاتا ہے۔
ایک سو چوبیس اراکین پر مشتمل خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف 56 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے 17‘ پاکستان مسلم لیگ نواز کے 16‘ قومی وطن پارٹی کے 10 اور ’تحریک انصاف‘ کی اتحادی جماعت اسلامی پاکستان کے 8 اراکین ہیں۔ دیگراتحادی جماعتوں میں ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کی 5 جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پانچ پانچ سیٹیں ہیں۔ 2 نشستوں پر آزاد اراکین براجمان ہیں‘ جو پہلے ہی تحریک انصاف حکومت کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں اور اُمید ہے کہ سینیٹ انتخاب میں بھی وہ حکمراں اتحاد ہی کی صفوں میں شامل رہیں گے۔ موجودہ صورتحال میں سینیٹ انتخابات ڈرامائی یا حیران کن نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں کیونکہ چھوٹی جماعتیں کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔ اگر سب کچھ اصول اور ظاہری حمایت و تائید کے مطابق ہوتا ہے تو ’تحریک انصاف‘ کو حاصل 71 صوبائی اسمبلی کے اراکین کی حمایت سے 7 نشستیں حاصل ہوں گی جن میں 4 جنرل‘ ایک ٹیکنوکریٹ‘ ایک خواتین کی اور ایک اقلیت کے لئے مخصوص نشست شمار ہوگی لیکن اگر چھوٹی جماعتیں مختلف فیصلے کرتی ہیں تو یہ نتائج حسب توقع نہیں ہوں گے اور وہ گروہ جو ایوان میں اگرچہ کم تعداد میں نشستیں رکھتے ہیں وہ سینیٹ کی زیادہ نشستیں جیت جائیں گے! درحقیقت سینیٹ اِنتخابات ’تحریک اِنصاف‘کی قیادت کے لئے بھی ایک اِمتحان ہے جو صوبے میں ’صاف و شفاف‘ طرز حکمرانی اور مثالی طرز حکومت کی قیام کے لئے شروع دن سے دعوے کر رہی ہے یقیناًتحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا اصولی مؤقف اور کارکنوں کی اکثریت کی یہی خواہش ہے کہ ’’چاہے سینیٹ انتخابات میں پلڑہ کسی بھی جماعت کا بھاری ہو‘ تحریک انصاف وہ ’پارلیمانی غطلیاں‘ نہیں دُہرائے گی‘ جو ماضی کی جماعتیں دُہراتی رہی ہیں۔
’’اتحاد میں برکت ہے‘‘ کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ۔۔۔ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں باہم اتحاد تشکیل دے دیتی ہیں تو مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور قومی وطن پارٹی سینیٹ کی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو جائیں گی بلکہ وہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے ایک ایک ٹیکنوکریٹ و خواتین کی نشستیں حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اگر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو وہ حکمراں اتحاد کا حصہ بن کر اُنہیں مزید ایک جنرل سیٹ دلوا سکتی ہیں اور یہی کوشش جاری ہے کہ کسی طریقے سے ایک اضافی سینیٹ کی نشست کے لئے ’جدوجہد‘ کی جائے لیکن ذرا ٹھہریئے حکمراں اتحاد کے لئے بھی ایک مشکل کھڑی ہے یعنی اگر وہ ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کو سینیٹ میں ایک نشست نہیں دیتی تو وہ اپنی حمایت کا رخ حزب اختلاف کی جانب موڑ سکتی ہے جس سے اُنہیں ایک اضافی سینیٹ نشست جیتنے کا موقع مل جائے گا۔ جماعت اسلامی کی دلی خواہش ہے کہ اُن کے امیر سراج الحق کو اِس مرتبہ سینیٹ میں نشست مل جائے اُور اگر اُن کی یہ معصوم خواہش پوری نہیں کی جاتی تو عزائم یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بھی بغاوت کر دیں گے۔
صوبائی حکومت سے دانشمندانہ فیصلوں کی توقع ہے تاکہ ایک تو وہ اپنے اتحادیوں سے محروم نہ ہو اُور دوسرا ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو‘ جس سے جمہوری ادارے کی ساکھ متاثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ’تحمل اور برداشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر اتفاق رائے سے اتفاق پایا جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کیا ایک مرتبہ پھر عوام (رائے دہندگان) کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں۔ کیا سینیٹ کے صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی عددی موجودگی کے مطابق ہی سینیٹ کی نشستیں جیت پاتی ہیں یقیناًاگر قانون ساز ایوان کے اراکین سودا بازی کے ذریعے رہی سہی ساکھ بھی گنوا دیتے ہیں تو یہ (بدقسمتی سے) بجلی گیس اور پیٹرولیم سے زیادہ بڑا بحران ثابت ہوگا۔
خیبرپختونخوا (صوبائی) قانون ساز ایوان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتیں ’آئندہ سینیٹ الیکشن‘ کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں‘ غوروخوض کا عمل فیصلہ کن شکل اختیار کر رہا ہے اور صورتحال بڑی حد تک واضح ہو رہی ہے لیکن ساتھ ہی ہر جماعت اپنی اپنی عددی برتری کی حفاظت اور اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی فطری کوشش کے علاؤہ کچھ اضافی حمایت حاصل کرنے کے لئے بھی تگ و دو کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ماضی میں بھی یہی دیکھنے میں آیا کہ خفیہ رائے شماری کی وجہ سے کچھ ایسے کردار بھی سینیٹ میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیجن کی وابستگی عددی اعتبار سے اسمبلی میں موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جمہوریت کا صبح شام راگ الاپنے والوں سے جب ’سینیٹ انتخابات‘ میں اراکین اسمبلی کے روئیوں اور کارکردگی کے مظاہرے کی بات کی جائے تو وہ اپنی غلطیوں کا موازنہ ماضی میں ہوئے واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے ’ہارس ٹریڈنگ‘ کا بیک وقت دفاع بھی کرتے ہیں اُور اِس عمل پر ’لعنت ملامت‘ بھیجتے بھی نظر آتے ہیں! بہرحال سردست صورتحال یہ ہے کہ ہر ایک رکن صوبائی اسمبلی کی قسمت جاگ اُٹھی ہے‘ حکومت یا اس کے اِتحادی ہوں یا حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین سب کی اہمیت اُن کی جماعتوں کو اچانک محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے اور یہی وہ نازک وقت ہوتا ہے جب کہیں چرب زبانی تو کہیں اچھی حکمت عملی کام آ جاتی ہے اور اراکین اسمبلی اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے لئے خصوصی ترقیاتی فنڈز سمیت سینیٹ میں نشست حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تکنیکی طور پر ’سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی)‘ بجٹ کے ساتھ ہی پیش کردیا جاتا ہے لیکن حکومت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ بجٹ میں مختص وسائل سے زیادہ ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کردے۔ صوابدیدی اور غیرصوابدیدی اختیارات کا استعمال وفاقی اور صوبائی سطح پر ہمارے پارلیمانی نظام کا ایک ایسا ’خوبصورت‘ رخ ہے‘ جس کی وجہ سے حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کرتی ہیں۔ انتخابات میں ہونے والے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں اور آئندہ انتخابات کے لئے کچھ نہ کچھ پس و پیش بھی کر لیا جاتا ہے۔
ایک سو چوبیس اراکین پر مشتمل خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف 56 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے 17‘ پاکستان مسلم لیگ نواز کے 16‘ قومی وطن پارٹی کے 10 اور ’تحریک انصاف‘ کی اتحادی جماعت اسلامی پاکستان کے 8 اراکین ہیں۔ دیگراتحادی جماعتوں میں ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کی 5 جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی پانچ پانچ سیٹیں ہیں۔ 2 نشستوں پر آزاد اراکین براجمان ہیں‘ جو پہلے ہی تحریک انصاف حکومت کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں اور اُمید ہے کہ سینیٹ انتخاب میں بھی وہ حکمراں اتحاد ہی کی صفوں میں شامل رہیں گے۔ موجودہ صورتحال میں سینیٹ انتخابات ڈرامائی یا حیران کن نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں کیونکہ چھوٹی جماعتیں کے ہاتھ میں فیصلہ ہے۔ اگر سب کچھ اصول اور ظاہری حمایت و تائید کے مطابق ہوتا ہے تو ’تحریک انصاف‘ کو حاصل 71 صوبائی اسمبلی کے اراکین کی حمایت سے 7 نشستیں حاصل ہوں گی جن میں 4 جنرل‘ ایک ٹیکنوکریٹ‘ ایک خواتین کی اور ایک اقلیت کے لئے مخصوص نشست شمار ہوگی لیکن اگر چھوٹی جماعتیں مختلف فیصلے کرتی ہیں تو یہ نتائج حسب توقع نہیں ہوں گے اور وہ گروہ جو ایوان میں اگرچہ کم تعداد میں نشستیں رکھتے ہیں وہ سینیٹ کی زیادہ نشستیں جیت جائیں گے! درحقیقت سینیٹ اِنتخابات ’تحریک اِنصاف‘کی قیادت کے لئے بھی ایک اِمتحان ہے جو صوبے میں ’صاف و شفاف‘ طرز حکمرانی اور مثالی طرز حکومت کی قیام کے لئے شروع دن سے دعوے کر رہی ہے یقیناًتحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا اصولی مؤقف اور کارکنوں کی اکثریت کی یہی خواہش ہے کہ ’’چاہے سینیٹ انتخابات میں پلڑہ کسی بھی جماعت کا بھاری ہو‘ تحریک انصاف وہ ’پارلیمانی غطلیاں‘ نہیں دُہرائے گی‘ جو ماضی کی جماعتیں دُہراتی رہی ہیں۔
’’اتحاد میں برکت ہے‘‘ کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے ۔۔۔ اگر خیبرپختونخوا اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتیں باہم اتحاد تشکیل دے دیتی ہیں تو مسلم لیگ نواز‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن اور قومی وطن پارٹی سینیٹ کی ایک ایک نشست حاصل کرنے میں نہ صرف کامیاب ہو جائیں گی بلکہ وہ عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے ایک ایک ٹیکنوکریٹ و خواتین کی نشستیں حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں لیکن اگر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا جاتا تو وہ حکمراں اتحاد کا حصہ بن کر اُنہیں مزید ایک جنرل سیٹ دلوا سکتی ہیں اور یہی کوشش جاری ہے کہ کسی طریقے سے ایک اضافی سینیٹ کی نشست کے لئے ’جدوجہد‘ کی جائے لیکن ذرا ٹھہریئے حکمراں اتحاد کے لئے بھی ایک مشکل کھڑی ہے یعنی اگر وہ ’عوامی جمہوری اتحاد پاکستان‘ کو سینیٹ میں ایک نشست نہیں دیتی تو وہ اپنی حمایت کا رخ حزب اختلاف کی جانب موڑ سکتی ہے جس سے اُنہیں ایک اضافی سینیٹ نشست جیتنے کا موقع مل جائے گا۔ جماعت اسلامی کی دلی خواہش ہے کہ اُن کے امیر سراج الحق کو اِس مرتبہ سینیٹ میں نشست مل جائے اُور اگر اُن کی یہ معصوم خواہش پوری نہیں کی جاتی تو عزائم یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ بھی بغاوت کر دیں گے۔
صوبائی حکومت سے دانشمندانہ فیصلوں کی توقع ہے تاکہ ایک تو وہ اپنے اتحادیوں سے محروم نہ ہو اُور دوسرا ایسی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو‘ جس سے جمہوری ادارے کی ساکھ متاثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ’تحمل اور برداشت‘ کا مظاہرہ کرنے پر اتفاق رائے سے اتفاق پایا جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کیا ایک مرتبہ پھر عوام (رائے دہندگان) کی توقعات پر پورا اُترتے ہیں۔ کیا سینیٹ کے صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اپنی عددی موجودگی کے مطابق ہی سینیٹ کی نشستیں جیت پاتی ہیں یقیناًاگر قانون ساز ایوان کے اراکین سودا بازی کے ذریعے رہی سہی ساکھ بھی گنوا دیتے ہیں تو یہ (بدقسمتی سے) بجلی گیس اور پیٹرولیم سے زیادہ بڑا بحران ثابت ہوگا۔
No comments:
Post a Comment