Monday, January 26, 2015

Jan2015: Wrong Prioirities

ژرف نگاہ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
حکیمانہ ناسازئ حالات
محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور کے چودہ سو سرکاری سکولوں میں سے صرف ایک سو چودہ ہی کھولے جا سکے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں کے لئے مقررہ حفاظتی انتظامات مقررہ مدت میں مکمل نہیں کئے جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ سکول پھر سے فعال کرنے کے لئے لازماً درکار ’اجازت نامہ (این اُو سی)‘ سرمائی تعطیلات میں حاصل نہیں کیا جاسکا! اِس سلسلے میں جب متعلقہ حکام سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے حکومت نے 2 ارب روپے فراہم کئے تو ہیں اور اِس کا خوب چرچا بھی کیا گیا ہے لیکن اصل ضرورت 7 ارب روپے کی ہے!

سب سے آسان کام اعلان کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی فوری اعلان۔ سیاست دان جانتے ہیں کہ قوم کا حافظہ کمزور ہے اور وہ جلد ہی بھول جائیں گے لیکن کسی سانحے کے وقت پے در پے اعلانات اور پرعزم جملوں کی تشہیر سے گریز نہیں کیا جاتا۔ لمحۂ فکریہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ تعلیمی اداروں کے لئے حفاظتی انتظامات کا اعلان کرتے ہوئے اُن زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا گیا‘ جن کی وجہ سے اعلانات و بیانات کافی نہیں۔ مثال کے طور پر خیبرپختونخوا میں 24 فیصد سرکاری سکول ایسے ہیں جن کی چاردیواری ہی نہیں‘ ایسی صورت میں پہلے تو چاردیواری کی تعمیر کی جائے تو پھر اُس چاردیواری کی اونچائی کم سے کم آٹھ فٹ تک ہونی چاہئے‘ جس پر خاردار تاریں لگی ہوں۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کے ذریعے سکول کی نگرانی ہو رہی ہو‘ جس کے لئے الگ عملہ ہمہ وقت ٹیلی ویژن اسکرینوں پر نظریں جمائے بیٹھا رہے۔ ظاہر ہے اُستاد تو فارغ نہیں ہوں گے کہ وہ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے آنے والے ’اِن پٹ (input)‘ کو دیکھتے رہیں پھر اُس ماڈل تعلیمی ادارے کے داخلی راستے پر ایک عدد مستعد و مسلح چوکیدار (گارڈ) بھی تعینات ہونا چاہئے! کیا یہ سب قابل عمل اقدامات ہیں جبکہ مالی وسائل فراہم کرنے میں غیرضروری اِحتیاط‘ تنگدلی و تنگدستی کا مظاہرہ سیاسی حکومت کی ساکھ کا حصہ ہو! جس صوبے کے چوبیس فیصد سرکاری سکول اَگر چاردیواری سے محروم ہیں اور جہاں 46 فیصد سرکاری سکولوں میں برقی رو دستیاب ہی نہیں! کہ جہاں بجلی کا ایک بلب تک نہ جل سکتا ہو وہاں نگرانی کے لئے الیکٹرانک آلات (ٹیلی ویژن کیمرے اور اُن کے ریکارڈرز) نصب تو ہو سکتے ہیں لیکن وہ کام کیسے کریں گے؟ ’’خود فریبی سی خودفریبی ہے۔۔۔ دور کے ڈھول بھی سہانے لگے!‘‘

افراتفری کا ماحول ہے۔ ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جنہیں حفاظتی انتظامات کے لئے خاطرخواہ مالی وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے تو دوسری جانب نجی تعلیمی ادارے ہیں جن کی انتظامیہ فریاد کر رہی ہے کہ ’’اُنہیں کم سے کم جن حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ حکومت کا کام ہے لیکن اگر حکومت اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا ہی چاہتی ہے تو اِس کے لئے منطقی طریقہ کار اختیار کرے یعنی مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرضہ جات کی فراہمی کی جائے۔ نگرانی کرنے والے آلات کی درآمد پر عائد ٹیکس و دیگر ڈیوٹیاں ختم کی جائیں اور مقامی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ شمسی توانائی سے چلنے والے نگرانی کے آلات ایجادکریں۔‘‘ یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ۔۔۔ ’’سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی بجائے محکمہ پولیس کی نگرانی کا نظام بہتر بنایا جائے۔‘‘ پولیس فورس کی افرادی قوت اور دیگر وسائل میں آبادی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ شہری یا دیہی علاقوں میں غیرمتعلقہ افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے قومی شناختی کارڈ کی دستاویز کے بناء کرائے پر جائیداد یا دکان حاصل کرنے اور بناء قومی شناختی کارڈ سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔ اگر دہشت گرد اِس حد تک سرایت کر چکے ہیں کہ اُن کی شناخت مشکل ہو گئی ہے تو ہمیں اِس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ وہ آرمی پبلک سکول پر حملے جیسی کوئی دوسری کارروائی کریں گے تو تب ہی صرف حملہ آوروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ آخر کیا سبب ہے کہ دہشت گردوں کے ’’سہولت کار‘‘ بننے والے کرداروں سے سخت گیر معاملہ نہیں کیا جا رہا‘ وہ کردار جو بذات خود تو دہشت گرد کارروائیوں میں حصہ نہیں لیتے لیکن مختلف طریقوں سے حملہ آوروں کی مدد کرتے ہیں‘ اُن کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں‘ اُن کے پیغام کو پھیلاتے ہیں‘ اُن کی کارروائیوں کو مذہبی احکامات کی تشریح سے جائز قرار دیتے ہیں‘ اُنہیں کارروائی سے قبل پناہ دیتے ہیں یا اُن کے لئے اہداف سے متعلق معلومات جمع کرتے یا کرواتے ہیں تو بالخصوص ایسے تمام کرداروں پر ’بلااِمتیاز و دباؤ‘ بھی پہلی فرصت سے پہلے ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ’’پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ باقی نہیں رہا۔‘‘ عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت تھانہ کچہری سے پناہ کی دعائیں مانگتی ہے۔

 خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہ ناصر درانی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ بداعتمادی کے اِس ماحول کو ختم کرنے اور پولیس و عوام کے درمیان اعتماد سازی کے رشتے بحال کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ عوام اور پولیس کے درمیان پائی جانے والی نادیدہ خلیج سے انکار کرنا ’خود فریبی‘ ہوگی‘ اِس سلسلے میں پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے وسائل سے بھرپور استفادہ ہونا چاہئے‘ یقیناًپولیس میں ملازمت کرنا‘ تنخواہ و مراعات پانے والوں کے لئے تو شان شوکت کا باعث اور فخر ہوسکتا ہے لیکن اگر کسی کے گھر پولیس اہلکار دستک دے یا راہ چلتے کسی کو روک کر راستہ ہی پوچھ لے یا کسی کو تھانے طلب کیا جائے یا کسی حاجت کے تحت متعلقہ تھانے یا چوکی سے واسطہ رکھنا پڑے تو ’سفید پوشوں‘ کے رنگ پیلے‘ ہونٹ نیلے اور ہاتھوں پر کپکپاہٹ طاری و حاوی ہو جاتی ہے! آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہاں پولیس پر آبادی کے صرف اُس ایک طبقے کا کلی اعتماد باقی ہے جس کا تعلق جرائم پیشہ یا مجرمانہ ذہنیت و اعتقادات سے ہو! آخر کیا سبب ہے کہ دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی خفیہ معلومات پر اکتفا نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے لئے اِنتہاء پسندی کا پرچار‘ سازشوں اور وارداتوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے عزائم‘ کسی حملے سے قبل ہی خاک میں کیوں نہیں ملائے جاتے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ تعلیمی اِدارے ہوں یا کاروباری مراکز‘ حفاظت و نگرانی کے اہداف ’مؤثر پولیسنگ‘ کے ذریعے حاصل کرنے پر غوروخوض یا زور نہیں بلکہ حقائق سے نظریں چرانا‘ اُور اپنے فرائض و ذمہ داریاں دوسروں کے سر تھوپنا ہمارا ’قومی مشغلہ‘ ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment