Monday, January 26, 2015

Jan2015: Appreciation

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
داد بیداد
پاکستان حکومت کی جانب سے صدر ممنون حسین نے سولہ دسمبر کو دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے آرمی پبلک سکول (پشاور) کے145بچوں اور عملہ کے اراکین کے لئے ’تمغہ شجاعت‘ کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مذکورہ تمغہ شہید ہونے والے پرنسپل‘ اساتذہ‘ دیگر عملہ اور شہید ہونے والے طالب علموں کے نام کیا جائے گا۔’آرمی پبلک سکول‘ میں ہلاک ہونے والے ایک شہری کو بھی ایوارڈ دیا جائے گا۔اس کے علاؤہ حملہ میں زخمیوں کے لئے مختلف اعزازات (سول ایوارڈز) دینے کا اصولی فیصلہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے ایوان صدر کابینہ ڈویژن کو سمری بھیجے گا۔ اس کے علاوہ دسمبر 2009ء میں ’پشاور پریس کلب‘ کے دروازے پر ایک خود کش بمبار کو روکنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کو بھی تمغہ شجاعت دیا جائے گا۔ پاکستان جس فیصلہ کن جنگ اور مرحلے سے گزر رہا ہے‘ اِس میں یہ بات بھی انتہائی ضروری تھی کہ ’قوم کا حوصلہ بلند کیا جاتا اور صدر پاکستان کی جانب سے بچوں کی قربانی کو خراج تحسین پیش کرنے سے یہ تاثر بھی زائل کیا جاتا کہ ’’ہمارا حافظہ کمزور ہے‘‘ اور کسی ایک سانحے کو جلد بھول جاتے ہیں۔‘

سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کا سانحہ کسی بھی طرح معمولی نہیں ۔ پوری قوم کو پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کی صورت اپنے لخت جگر دکھائی دیئے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس سانحے کے بارے میں سوچتے ہوئے حساس دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی غم زدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے طور پر فی خاندان مالی معاونت کی گئی ہے‘ جس سے اُن خاندانوں کے زخم تو بھریں گے لیکن اُنہیں آزمائش کی اِس گھڑی میں یہ احساس ہوگا کہ وہ اکیلے نہیں۔ ضرورت اِس امر کی تھی کہ آرمی پبلک سکول کے شہدأ کے نام سے ایک الگ اور جدید سہولیات سے آراستہ سکول تعمیر کرنے کا اعلان کیا جاتا اور اُس سکول کے مختلف حصوں کتب خانے‘ لیبارٹریوں‘ جملہ تدریسی سہولیات (بلاکس) کو بچوں کے نام سے منسوب کرکے یہ پیغام دیا جاتا کہ جس علم کی شمع کو بجھانے کی کوشش کی گئی‘ اُس کی لو کو بڑھا دیا گیا ہے۔ جہل‘ ظلم اور انتہاء پسندی کا علاج شرح خواندگی میں اضافے کے علاؤہ بھلا اُور کیا ہوسکتا ہے!

سانحہ پشاور سے بطور نادر موقع فائدہ اٹھانے میں اب بھی دیر نہیں ہوئی کیونکہ اِس سانحے کا حاصل اتحاد تھا‘ جس کی قومی سطح پر شدت سے کمی محسوس کی جا رہی تھی اور پھر جب ’قومی اتحاد‘ ہاتھ آیا تو پھر قومی سطح پر ’ایکشن پلان‘ تخلیق کرنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کیا گیا‘ جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تیئس جنوری تک اٹھارہ سو سے زائد مشتبہ افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق 1859 مشکوک ملکی و غیرملکی اب تک ’قومی ایکشن پلان کے تحت‘ گرفتار ہوئے ہیں جن میں صوبہ پنجاب سے 958‘ سندھ سے 244‘ بلوچستان سے 234 اور دارالحکومت اسلام آباد سے 235 افراد شامل ہیں جبکہ اس سے زیادہ تعداد میں گرفتاریاں خیبرپختونخوا میں ہوچکی ہیں یقیناًیہ سب گرفتاریاں اور قانون کی موجودگی کا احساس دلانا ضروری امر تھا لیکن محض گرفتاریاں ہی کافی نہیں! کون نہیں جانتا کہ بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے جعل سازی سے قومی شناختی کارڈز حاصل کررکھے ہیں اور اِسی ایک شناختی دستاویز کی بنیاد پر اُنہوں بینک اکاونٹس‘ پاسپورٹ‘ جائیدادیں حتیٰ کہ کاروبار تک پھیلا رکھے ہیں اور اب خود کو ’پاکستانی‘ بھی کہتے ہیں اور حسب ضرورت افغانستان کی شناختی دستاویزات بھی استعمال کرتے ہیں کہ اُن کے اثاثے وہاں بھی ہیں۔ تاحال وفاقی حکومت کی جانب سے اِس منظم و زیادہ خطرناک جعل سازی کی جانب توجہ مبذول نہیں کی گئی کہ کس طرح قومی شناختی کارڈ حاصل کئے جاتے ہیں جبکہ اِس کا طریقۂ کار انتہائی توجہ سے مرتب کیا گیا ہے اور ایک سے زیادہ تصدیق کے مراحل کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ شاید ضرورت اِس امر کی ہے کہ قومی شناختی کارڈ کے حصول کا طریقۂ کار مزید سخت کیا جائے۔ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دفاتر میں کام کرنے والی اُن کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی ہونی چاہئے‘ جنہوں نے محض ذاتی مفاد کی بناء پر معلوم افغان مہاجرین اور نجانے دیگر کئی ایسے غیرملکیوں کو شناختی کارڈز جاری کئے ہوں گے‘ جو ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف دل میں بغض رکھتے ہوں اور مجرمانہ ذہنیت کے ساتھ کسی خاص مقصد کے لئے جوہری صلاحیت رکھنے والے دنیا کے پہلے اسلامی ملک کو داخلی طورپر عدم استحکام سے دوچار رکھتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی‘ اِنتہاء پسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف جس قدر بھی پیش رفت ہوتی ہے‘ جس قدر اقدامات ہوتے ہیں وہ کم ہی رہتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ دس کروڑ سے زائد موبائل فون کنکشنوں کی طرح اُن 9 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے کوائف کی بھی جانچ پڑتال کی جائے‘ جو نادرا ڈیٹابیس میں موجود ہیں۔

نادرا کی ویب سائٹ (nadra.gov.pk) پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ’’پاکستان کی 96فیصد بالغ آبادی یعنی 9 کروڑ سے زائد کوائف قومی ڈیٹابیس کا حصہ ہیں‘‘ لیکن جب ’بائیومیٹرکس (انگوٹھے کے نشان سے الیکٹرانک تصدیق)‘ کی بات عام انتخابات کے لئے کی جائے تو یہ ناقابل عمل قرار دے کر دھاندلی سے پاک اِس طریقے کو امکانی طور پر زیربحث نہیں لایا جاتا! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کئی ایک سرکاری ادارے اصلاحات چاہتے ہیں‘ پورے کا پورا نظام بااثر افراد کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ سیاسی ترجیحات قومی ترجیحات پر غالب اور ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی دکھائی دیتے ہیں۔ جب تک سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی جانچ پڑتال‘ اُن کی آمدنی اور اثاثہ جات میں تعلق‘ ٹیکس چوری کرنے والے بااثر طبقات کا احتساب اور سرکاری اداروں میں خصوصیت کے ساتھ بلاامتیاز سزاوجزا کا عمل شروع نہیں ہوگا‘ محض اعزازات اُن محض رسومات کا حصہ رہیں گے‘ جس میں شریک ہر آنکھ پرنم اور ہر دل اپنے اپنے مفاد کے بارے سوچتے ہوئے دھڑک رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment