ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
صحت کا اِتحاد
صحت کا اِتحاد
توجہات مرکوز ہیں۔ طبی سہولیات کی فراہمی اور خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے
لئے محکمۂ صحت خیبرپختونخوا کی زیرنگرانی ’صحت کا انصاف‘ اور اب ’صحت کا
اتحاد‘ نامی حکمت عملی سامنے آئی ہے‘ جس کے تحت پہلی مرتبہ قبائلی اور
بندوبستی علاقوں میں ایک جیسی مہم شروع کی جائے گی۔ قبل ازیں قبائلی علاقوں
سے متصل خیبرپختونخوا کے بندوبستی علاقوں میں الگ الگ مہمات چلائی جاتی
رہی ہیں اور اِن کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ پولیو سمیت 9 خطرناک بیماریوں
کے خلاف کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں ہوسکی۔ ’صحت کا اتحاد‘ ایک اُور
خاصیت بھی رکھتا ہے کہ اِس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں مشترکہ طورپر طبی
سہولیات کو وسعت دیں گی۔ ’قومی ایکشن پلان‘ کے حوالے سے صوبائی سطح پر عمل
درآمد کا جائزہ لینے کے لئے بائیس جنوری کو ہوئے اجلاس میں گورنر
خیبرپختونخوا‘ وزیراعلیٰ اور کورکمانڈر سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور
فیصلہ ہوا کہ تپ دق‘ تشنج‘ خسرہ‘ یرقان و پولیو سمیت مختلف بیماریوں کی روک
تھام اور پھیلاؤ کو روکنے کے لئے 300 طبی سہولیات کی فراہم کے مراکز
(کیمپ) قائم کئے جائیں گے جہاں کم سے کم 33 لاکھ بچوں کو اِن بیماریوں سے
بچاؤ کی ادویات اور ٹیکے لگائے جائیں گے۔ چار قبائلی علاقوں اور
خیبرپختونخوا کے 10 اضلاع کو ایک بلاک تصور کیا جائے گا جن میں پانچ وسطی
اور پانچ چنیدہ جنوبی اضلاع کی سرحدیں خیبر‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے
علاقوں سے ملتی ہیں۔ حکام نے قبائلی علاقوں میں طبی سہولیات کی ضرورت کو
بندوبستی علاقوں کے مساوی تسلیم کیا ہے اُور یہ تشویش بھی پہلی ہی مرتبہ
دیکھنے میں آئی ہے کہ ماضی میں مالی وسائل جن الگ الگ طبی مہمات کی نذر
ہوتے رہے اُن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
قبائلی علاقوں کی صورتحال بندوبستی علاقوں پر کس طرح اَثراَنداز ہو رہی ہے‘ اِس بات کا جائزہ صرف صحت ہی شعبے تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ امن وامان اور منظم جرائم کے حوالے سے بھی غور ہونا چاہئے کہ کس طرح جرائم پیشہ گروہ اور عسکریت پسند اُن قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جہاں کی اِنتظامیہ نے اپنے فرائض کو محدود سمجھ رکھا ہے۔ ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر)‘ میں ترامیم کے حوالے سے حکومتی سرپرستی میں ماہرین نے جو تجاویز و سفارشات مرتب کر رکھی ہیں‘ اُن کی فائل (تفصیلات) طلب کرنے کا سب سے موزوں وقت بھی یہی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’صحت کا اِتحاد ایک غیرسیاسی مہم جس کے آغاز کا فیصلہ سترہ دسمبر کے روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی ایک ملاقات اور اِس موضوع پر غوروخوض کے بعد ہوا۔‘‘ صوبائی حکومت کی جانب سے اِس اُمید کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت اِس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے خاطرخواہ مالی و تکنیکی امداد فراہم کرے گی۔ سردست صوبائی حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت نہیں بلکہ طب کے شعبے میں جاری مختلف مہمات کے لئے پہلے ہی سرمایہ مختص کیا جا چکا ہے اور اِسی سے اِستفادہ کیا جائے گا لیکن بہرکیف تشہیری مقاصد ماضی کی طرح زیادہ توجہ دینے پر اِس مرتبہ بھی عمل درآمد ہوگا‘ جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اُور اگر صوبائی حکومت وفاق سے طب سمیت دیگر شعبوں میں غیرمشروط تعاون چاہتی ہے تو اُسے اِس تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کے اِنتخابی منشور یا سربراہ کی خواہشات کے مطابق اپنی حکمت عملیاں مرتب کرنے اور بعدازاں اُن کا پیچھا کرنے میں مستقل مزاجی سے کام نہیں لے رہی۔
صوبائی کابینہ اِس بات کی منظوری دے چکی ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کے نام پر مریضوں کا اِستحصال نہیں ہونا چاہئے اور شام کے اُوقات میں اگر ڈاکٹرز ’پرائیویٹ پریکٹس‘ کرنے کے خواہاں ہیں تو اِس سلسلے میں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل کا استعمال کیاجائے۔ عوامی حلقوں نے اِس دیرینہ مطالبے کی شینوائی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن کروڑوں کی تعداد میں عوام کی بجائے سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹروں کے مفاد کو ترجیح دی گئی‘ اُور تاحال طب کے مقدس شعبے کی تذلیل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے یقیناًسب ڈاکٹر ایسے نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد ’دردمند‘ ہے لیکن کیا بھاری معائنہ فیسیں وصول کرنے کا عمومی رجحان ہمارے خلاف کسی بیرونی سازش کا حصہ ہے؟ کیا اپنے ہی لوگوں کو لوٹنے کی ترغیب کسی دشمن ملک کی جانب سے دی گئی ہے؟ کیا اُن مجبور و لاچاروں کو لوٹنے کا کوئی کم سے کم اخلاقی و شرعی جواز بھی بنتا ہے؟ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ قومی خزانے سے اَربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں تو علاج نہیں ہوتا لیکن پیسے دے کر اَفاقہ بھی ہو جاتا ہے اُور مریض کے تیماردار حتیٰ کہ رحلت کی صورت اہل وعیال بھی کم از کم اِس حد تک مطمئن ضرور ہوتے ہیں کہ ’’خدا مغفرت کرے‘ آخری وقت میں علاج کی سہولت تو میسر آئی!‘‘ بہرکیف تاریکی میں اضافہ اَدویہ ساز اِداروں کی وجہ سے بھی ہے‘ جو ایک ہی فارمولے کی دوائی مختلف ناموں سے پیکنگ کرکے مہنگے داموں فروخت کرنے کو ’کاروباری حکمت عملی‘ قرار دیتے ہیں اور اِس سلسلے میں خارج از امکان نہیں کہ ڈاکٹروں کو طرح طرح کی دی جانے والی مراعات کا تعلق بھی ’بزنس اور مارکیٹنگ‘ ہی سے ہو۔ غیرمستند تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کی خبر کون لے گا؟ یہ ایک الگ جامع سوال ہے! القصہ مختصر بطور صارف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کو نہ تو بیماری کی حالت میں معاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی تندرستی کی حالت میں اُسے سکون میسر ہوتا ہے۔
زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی میں تعطل (شارٹیج) اور بعدازاں قیمتوں میں اضافے کے بعد دستیابی ایک معمول بن چکا ہے۔ مرگی و دیگر ذہنی و نفسیاتی امراض‘ ذیابیطس (شوگر) اور بلندفشار خون (بلڈپریشر) جیسے پیچیدہ امراض ہی نہیں بلکہ معدے کی تیزابیت کے لئے عمومی طور پر استعمال ہونے والے محلول کی قیمت بھی اِعتدال پر نہیں رہتی۔ صحت کے حوالے سے ایک ایسے منصفانہ و جامعیت و معنویت بھرے اِتحاد کی ضرورت ہے‘ جس کے نتائج سطحی نہیں ہونے چاہیءں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبائلی علاقوں کی صورتحال بندوبستی علاقوں پر کس طرح اَثراَنداز ہو رہی ہے‘ اِس بات کا جائزہ صرف صحت ہی شعبے تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ امن وامان اور منظم جرائم کے حوالے سے بھی غور ہونا چاہئے کہ کس طرح جرائم پیشہ گروہ اور عسکریت پسند اُن قبائلی و نیم قبائلی علاقوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں‘ جہاں کی اِنتظامیہ نے اپنے فرائض کو محدود سمجھ رکھا ہے۔ ’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر)‘ میں ترامیم کے حوالے سے حکومتی سرپرستی میں ماہرین نے جو تجاویز و سفارشات مرتب کر رکھی ہیں‘ اُن کی فائل (تفصیلات) طلب کرنے کا سب سے موزوں وقت بھی یہی ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت سے تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’صحت کا اِتحاد ایک غیرسیاسی مہم جس کے آغاز کا فیصلہ سترہ دسمبر کے روز تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی ایک ملاقات اور اِس موضوع پر غوروخوض کے بعد ہوا۔‘‘ صوبائی حکومت کی جانب سے اِس اُمید کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت اِس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے خاطرخواہ مالی و تکنیکی امداد فراہم کرے گی۔ سردست صوبائی حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت نہیں بلکہ طب کے شعبے میں جاری مختلف مہمات کے لئے پہلے ہی سرمایہ مختص کیا جا چکا ہے اور اِسی سے اِستفادہ کیا جائے گا لیکن بہرکیف تشہیری مقاصد ماضی کی طرح زیادہ توجہ دینے پر اِس مرتبہ بھی عمل درآمد ہوگا‘ جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اُور اگر صوبائی حکومت وفاق سے طب سمیت دیگر شعبوں میں غیرمشروط تعاون چاہتی ہے تو اُسے اِس تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ حکومت کسی ایک سیاسی جماعت کے اِنتخابی منشور یا سربراہ کی خواہشات کے مطابق اپنی حکمت عملیاں مرتب کرنے اور بعدازاں اُن کا پیچھا کرنے میں مستقل مزاجی سے کام نہیں لے رہی۔
صوبائی کابینہ اِس بات کی منظوری دے چکی ہے کہ نجی اِداروں میں علاج کے نام پر مریضوں کا اِستحصال نہیں ہونا چاہئے اور شام کے اُوقات میں اگر ڈاکٹرز ’پرائیویٹ پریکٹس‘ کرنے کے خواہاں ہیں تو اِس سلسلے میں سرکاری ہسپتالوں کے وسائل کا استعمال کیاجائے۔ عوامی حلقوں نے اِس دیرینہ مطالبے کی شینوائی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن کروڑوں کی تعداد میں عوام کی بجائے سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹروں کے مفاد کو ترجیح دی گئی‘ اُور تاحال طب کے مقدس شعبے کی تذلیل کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے یقیناًسب ڈاکٹر ایسے نہیں بلکہ ایک بڑی تعداد ’دردمند‘ ہے لیکن کیا بھاری معائنہ فیسیں وصول کرنے کا عمومی رجحان ہمارے خلاف کسی بیرونی سازش کا حصہ ہے؟ کیا اپنے ہی لوگوں کو لوٹنے کی ترغیب کسی دشمن ملک کی جانب سے دی گئی ہے؟ کیا اُن مجبور و لاچاروں کو لوٹنے کا کوئی کم سے کم اخلاقی و شرعی جواز بھی بنتا ہے؟ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ قومی خزانے سے اَربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں تو علاج نہیں ہوتا لیکن پیسے دے کر اَفاقہ بھی ہو جاتا ہے اُور مریض کے تیماردار حتیٰ کہ رحلت کی صورت اہل وعیال بھی کم از کم اِس حد تک مطمئن ضرور ہوتے ہیں کہ ’’خدا مغفرت کرے‘ آخری وقت میں علاج کی سہولت تو میسر آئی!‘‘ بہرکیف تاریکی میں اضافہ اَدویہ ساز اِداروں کی وجہ سے بھی ہے‘ جو ایک ہی فارمولے کی دوائی مختلف ناموں سے پیکنگ کرکے مہنگے داموں فروخت کرنے کو ’کاروباری حکمت عملی‘ قرار دیتے ہیں اور اِس سلسلے میں خارج از امکان نہیں کہ ڈاکٹروں کو طرح طرح کی دی جانے والی مراعات کا تعلق بھی ’بزنس اور مارکیٹنگ‘ ہی سے ہو۔ غیرمستند تجزیہ گاہوں (لیبارٹریز) کی خبر کون لے گا؟ یہ ایک الگ جامع سوال ہے! القصہ مختصر بطور صارف ’عام آدمی (ہم عوام)‘ کو نہ تو بیماری کی حالت میں معاف کیا جاتا ہے اور نہ ہی تندرستی کی حالت میں اُسے سکون میسر ہوتا ہے۔
زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی میں تعطل (شارٹیج) اور بعدازاں قیمتوں میں اضافے کے بعد دستیابی ایک معمول بن چکا ہے۔ مرگی و دیگر ذہنی و نفسیاتی امراض‘ ذیابیطس (شوگر) اور بلندفشار خون (بلڈپریشر) جیسے پیچیدہ امراض ہی نہیں بلکہ معدے کی تیزابیت کے لئے عمومی طور پر استعمال ہونے والے محلول کی قیمت بھی اِعتدال پر نہیں رہتی۔ صحت کے حوالے سے ایک ایسے منصفانہ و جامعیت و معنویت بھرے اِتحاد کی ضرورت ہے‘ جس کے نتائج سطحی نہیں ہونے چاہیءں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment