ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
کاروباری ذہنیت اور حالات
کاروباری ذہنیت اور حالات
خالصتاً ’کاروباری ذہنیت‘ (زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کا آزمودہ و آسان
طریقہ) یہ ہے کہ گردوپیش کے سیاسی و سماجی حالات اُور تبدیلیوں پر گہری
نگاہ رکھی جائے اور جس چیز (جنس) کی مانگ میں اضافہ متوقع ہو‘ اُسے ذخیرہ
کر لیا جائے‘ نئی خریداری کے آرڈرز دینے یا موجودہ ذخیرے کو سانس روک کر
ایک ایسے وقت میں فروخت کے لئے پیش کرنا ’کاروباری حکمت عملی‘ کہلاتی ہے
تاکہ لوگوں سے اُس وقت اِضافی قیمت وصول کی جائے جبکہ وہ انتہائی مجبوری و
ضرورت کے عالم میں ہوں۔
روزمرہ اصطلاح میں ’کامیاب تاجر (دکاندار)‘ وہی کہلاتا ہے جو دوسروں کی مجبوری کا سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا ہنر جانتا ہو یعنی وہ خریداری کے ’عمومی رجحانات‘ پر نظر رکھے۔ مثال کے طورپر ماہ رمضان میں قیمتوں کا بڑھنا ایک معمول بن چکا ہے یا پھر نئے ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نصابی کتب کی قیمتیں میں والدین کو دھچکا دینے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کتابوں پر شائع شدہ قیمتوں پر اسٹکر لگا کر نئی قیمتیں درج کر دی جاتی ہیں۔ کچھ دکاندار ’مارکر (نہ مٹنے والی سیاہی)‘ پھیر کر کتاب پر شائع ہونے والی قیمت چھپا دیتے ہیں اور والدین کے پاس سوائے من مانگی قیمتیں اَدا کرنے کے چارہ نہیں ہوتا۔ آج تک کوئی ایسا منتخب نمائندہ دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا جس نے والدین کی صورت صارفین کے اندیشوں اور تحفظات کو دردمندی سے سنا ہو‘ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں اِس ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا ہو‘ خودسوزی یا مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہو! سوچئے کیا ہمارے منتخب نمائندے ہماری توقعات پر پورا اُتر رہے ہیں؟
سردست مسئلہ اُن سیکورٹی (الیکٹرانک) آلات کی مہنگائی اور عدم دستیابی کا ہے‘ جنہیں نصب کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اگر ’الیکٹرانک آلات‘ نصب نہیں کئے جائیں گے تو ایسے نجی تعلیمی اداروں کو ’کاروبار‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی! جس وقت حکومت کی جانب سے ’کلوزسرکٹ کیمروں‘ اور ’خاردار تاروں‘ کی تنصیب کو لازم قرار دیا جا رہا تھا‘ اُس وقت اگر مارکیٹ میں اِن اشیاء کی قیمتیں رازداری سے معلوم کر لی جاتیں اور اُن چار ہفتوں کا فائدہ اُٹھایا جاتا جبکہ تعلیمی ادارے بند تھے تو آج ’بحران در بحران‘ کی صورتحال پیش نہ آتی۔ ادارے سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی بجائے دکھاوے سے زیادہ کام لے رہے ہیں اور خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال میں اِن کیمروں سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔ کلوزسرکٹ مانیٹرنگ (نگرانی) کے لئے استعمال ہونے والے کیمرے اور ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈز (DVRs) تصویر کی کوالٹی کے لحاظ سے ساخت کئے جاتے ہیں۔ ایک کیمرے کی قیمت ’پندرہ سو روپے‘ سے لیکر ’ڈیڑھ لاکھ روپے‘ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ’ڈی وی آر‘ کی قیمت بھی ریکارڈنگ محفوظ رکھنے کے اوقات (گھنٹوں‘ دنوں اور مہینوں) سے لیکر اِس کے معیار تک مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسری بات سیکورٹی کیمرے اگر مستقل لگے ہوں تو وہ سستے ہوتے ہیں لیکن اگر اُن میں 360 ڈگری پر گھومنے کی صلاحیت ہو تو اُن کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ خودکار انداز میں گھومنے اور کسی ایک مقام کے کونے کونے کو ایک سے زائد کیمروں سے کور (cover) کرنے کے لئے خصوصی ماہرین روشنی کے زوایئے ذہن میں رکھتے ہوئے آلات تجویز کرتے ہیں۔ تیسری بات کلوز سرکٹ کیمروں کی اُس خصوصیت کے بارے ہے جو وہ کم روشنی یا اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں تاہم یہ اضافی خصوصیت ہر کیمرے میں یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا انتخاب کم روشنی (low-light) یا مکمل اندھیرے (darkness) مطابق کرنا ہوتا ہے یعنی انفراریڈ روشنی دینے والے آلات کا انتخاب سکول کے رقبے کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ چوتھی بات موشن سنسرز ہوتے ہیں‘ جو خودکار آرام سسٹم اور کیمروں کو فعال کرنے کے علاؤہ عمارت کے کسی خاص حصے یا مکمل عمارت کو روشن کردیتے ہیں تاہم اِس نظام کے لئے بجلی کا بیک اپ سسٹم یعنی ’اَن اِنٹرپٹیڈ پاور سپلائی (یو پی ایس)‘ لگانی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں بجلی کی غیراعلانیہ اور اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے اوقات ملا کر یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ بجلی کن اوقات میں نہیں ہوگی جس سے پورا سیکورٹی کا نظام دم توڑ دیتا ہے اور دہشت گرد ’ہوم ورک‘ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں روالپنڈی میں ایک دھماکہ عین اُس وقت ہوا‘ جب بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی۔’’شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں۔۔۔ وہی بھلا ہے‘ جو بے ساختہ بنا ہوا ہے!‘‘
پشاور کی مارکیٹ میں ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ کی قیمت پندرہ سو سے بڑھ کر ڈھائی ہزار روپے جبکہ میٹل ڈیکیٹر کی قیمت ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے ہوچکی ہے۔ اسی طرح 35 فٹ کی خاردار تار کا بنڈل دو ہزار روپے کا مل جاتا تھا لیکن اِس کی موجودہ قیمت چھ ہزار روپے طلب کی جاتی ہے۔ ریتی بازار کہ جہاں خاردار تاروں کے بنڈل سڑک پر پڑے رہتے تھے اب بمشکل دستیاب ہوتے ہیں اور جن دکانداروں کے پاس یہ خاردار تاریں موجود بھی ہیں تو وہ من مانی قیمتوں کاتقاضا کرتے ہیں اور جب زیادہ بحث کی جائے تو کہا جاتا ہے مطلوبہ خاردار تاریں سٹاک میں نہیں!
بہ امر مجبوری تعلیمی اداروں کو الیکٹرانک آلات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے یقیناًیہ کام حکومت کا ہے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرنے والوں پر بھی نظر رکھے۔ ہمیں کئی ایک طرح کے دہشت گردوں کا سامنا ہے‘ کیا ایسی ذہنیت کو دہشت گردی کے زمرے میں شمار نہ کیا جائے‘ جو مجبوری اور ضرورت کے اِس ماحول‘ سیکورٹی خدشات و تقاضوں اُور بے چینی سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزمرہ اصطلاح میں ’کامیاب تاجر (دکاندار)‘ وہی کہلاتا ہے جو دوسروں کی مجبوری کا سب سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا ہنر جانتا ہو یعنی وہ خریداری کے ’عمومی رجحانات‘ پر نظر رکھے۔ مثال کے طورپر ماہ رمضان میں قیمتوں کا بڑھنا ایک معمول بن چکا ہے یا پھر نئے ’تعلیمی سال‘ کے آغاز پر نصابی کتب کی قیمتیں میں والدین کو دھچکا دینے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کتابوں پر شائع شدہ قیمتوں پر اسٹکر لگا کر نئی قیمتیں درج کر دی جاتی ہیں۔ کچھ دکاندار ’مارکر (نہ مٹنے والی سیاہی)‘ پھیر کر کتاب پر شائع ہونے والی قیمت چھپا دیتے ہیں اور والدین کے پاس سوائے من مانگی قیمتیں اَدا کرنے کے چارہ نہیں ہوتا۔ آج تک کوئی ایسا منتخب نمائندہ دیکھنے اور سننے کو نہیں ملا جس نے والدین کی صورت صارفین کے اندیشوں اور تحفظات کو دردمندی سے سنا ہو‘ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں اِس ناانصافی کے خلاف احتجاج کیا ہو‘ خودسوزی یا مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہو! سوچئے کیا ہمارے منتخب نمائندے ہماری توقعات پر پورا اُتر رہے ہیں؟
سردست مسئلہ اُن سیکورٹی (الیکٹرانک) آلات کی مہنگائی اور عدم دستیابی کا ہے‘ جنہیں نصب کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اگر ’الیکٹرانک آلات‘ نصب نہیں کئے جائیں گے تو ایسے نجی تعلیمی اداروں کو ’کاروبار‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی! جس وقت حکومت کی جانب سے ’کلوزسرکٹ کیمروں‘ اور ’خاردار تاروں‘ کی تنصیب کو لازم قرار دیا جا رہا تھا‘ اُس وقت اگر مارکیٹ میں اِن اشیاء کی قیمتیں رازداری سے معلوم کر لی جاتیں اور اُن چار ہفتوں کا فائدہ اُٹھایا جاتا جبکہ تعلیمی ادارے بند تھے تو آج ’بحران در بحران‘ کی صورتحال پیش نہ آتی۔ ادارے سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی بجائے دکھاوے سے زیادہ کام لے رہے ہیں اور خدانخواستہ کسی ہنگامی صورتحال میں اِن کیمروں سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ۔۔۔ کلوزسرکٹ مانیٹرنگ (نگرانی) کے لئے استعمال ہونے والے کیمرے اور ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈز (DVRs) تصویر کی کوالٹی کے لحاظ سے ساخت کئے جاتے ہیں۔ ایک کیمرے کی قیمت ’پندرہ سو روپے‘ سے لیکر ’ڈیڑھ لاکھ روپے‘ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ’ڈی وی آر‘ کی قیمت بھی ریکارڈنگ محفوظ رکھنے کے اوقات (گھنٹوں‘ دنوں اور مہینوں) سے لیکر اِس کے معیار تک مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسری بات سیکورٹی کیمرے اگر مستقل لگے ہوں تو وہ سستے ہوتے ہیں لیکن اگر اُن میں 360 ڈگری پر گھومنے کی صلاحیت ہو تو اُن کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ خودکار انداز میں گھومنے اور کسی ایک مقام کے کونے کونے کو ایک سے زائد کیمروں سے کور (cover) کرنے کے لئے خصوصی ماہرین روشنی کے زوایئے ذہن میں رکھتے ہوئے آلات تجویز کرتے ہیں۔ تیسری بات کلوز سرکٹ کیمروں کی اُس خصوصیت کے بارے ہے جو وہ کم روشنی یا اندھیرے میں دیکھ سکتے ہیں تاہم یہ اضافی خصوصیت ہر کیمرے میں یکساں نہیں ہوتی بلکہ اس کا انتخاب کم روشنی (low-light) یا مکمل اندھیرے (darkness) مطابق کرنا ہوتا ہے یعنی انفراریڈ روشنی دینے والے آلات کا انتخاب سکول کے رقبے کے لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ چوتھی بات موشن سنسرز ہوتے ہیں‘ جو خودکار آرام سسٹم اور کیمروں کو فعال کرنے کے علاؤہ عمارت کے کسی خاص حصے یا مکمل عمارت کو روشن کردیتے ہیں تاہم اِس نظام کے لئے بجلی کا بیک اپ سسٹم یعنی ’اَن اِنٹرپٹیڈ پاور سپلائی (یو پی ایس)‘ لگانی ضروری ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں بجلی کی غیراعلانیہ اور اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے اوقات ملا کر یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ بجلی کن اوقات میں نہیں ہوگی جس سے پورا سیکورٹی کا نظام دم توڑ دیتا ہے اور دہشت گرد ’ہوم ورک‘ کرنے کے ماہر ہوتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں روالپنڈی میں ایک دھماکہ عین اُس وقت ہوا‘ جب بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوئی۔’’شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں۔۔۔ وہی بھلا ہے‘ جو بے ساختہ بنا ہوا ہے!‘‘
پشاور کی مارکیٹ میں ’سی سی ٹی وی کیمرے‘ کی قیمت پندرہ سو سے بڑھ کر ڈھائی ہزار روپے جبکہ میٹل ڈیکیٹر کی قیمت ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے ہوچکی ہے۔ اسی طرح 35 فٹ کی خاردار تار کا بنڈل دو ہزار روپے کا مل جاتا تھا لیکن اِس کی موجودہ قیمت چھ ہزار روپے طلب کی جاتی ہے۔ ریتی بازار کہ جہاں خاردار تاروں کے بنڈل سڑک پر پڑے رہتے تھے اب بمشکل دستیاب ہوتے ہیں اور جن دکانداروں کے پاس یہ خاردار تاریں موجود بھی ہیں تو وہ من مانی قیمتوں کاتقاضا کرتے ہیں اور جب زیادہ بحث کی جائے تو کہا جاتا ہے مطلوبہ خاردار تاریں سٹاک میں نہیں!
بہ امر مجبوری تعلیمی اداروں کو الیکٹرانک آلات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے یقیناًیہ کام حکومت کا ہے کہ وہ ناجائز منافع خوری کرنے والوں پر بھی نظر رکھے۔ ہمیں کئی ایک طرح کے دہشت گردوں کا سامنا ہے‘ کیا ایسی ذہنیت کو دہشت گردی کے زمرے میں شمار نہ کیا جائے‘ جو مجبوری اور ضرورت کے اِس ماحول‘ سیکورٹی خدشات و تقاضوں اُور بے چینی سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment