ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: کارروائیوں کا موسم
تجاوزات: کارروائیوں کا موسم
خیبرپختونخوا ریلوے کی ایک دو نہیں بلکہ ’ڈھائی ہزار ایکڑ‘ سے زائد اَراضی
پر قابض اَفراد کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے‘ جس میں پشاور
ڈویژن کے علاقے ہشتنگری پھاٹک‘ غریب آباد‘ نوتھیہ‘ حیات آباد‘ کارخانو
پھاٹک کے علاؤہ خیبرایجنسی‘ پیرپیائی‘ پیر سباق‘ تاروجبہ‘ اَضاخیل‘
اَکبرپورہ‘ نوشہرہ اُور اَکوڑہ خٹک شامل ہیں۔ مہم کا پہلا مرحلہ ’نرم
ردعمل‘ اکتیس مارچ جبکہ دوسرا مرحلہ ’سخت ردعمل‘ اِس کے بعد شروع کرنے کے
احکامات موصول ہوگئے ہیں‘ جس میں ریلوے پولیس کی بھاری نفری اور وسائل
استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے جن رہائشی
علاقوں سے ریلوے لائن گزرتی ہے‘ وہاں تجاوزات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے
کیونکہ یہ ریل گاڑی کے مسافروں ہی کے لئے بلکہ قرب و جوار کے لئے بھی کسی
حادثے کی صورت امکانی خطرات کا مجموعہ ہے اُور تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ’سب
کیا دھرا‘ کسی آمریت (فوجی دور حکومت) کا (نتیجہ) نہیں بلکہ جمہوری اَدوار
میں ریلوے کی اراضی کہیں بندر بانٹ تو کہیں جعل سازی سے ذاتی اثاثوں میں
منتقلی کا رجحان ہر دور میں رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ریل کی پٹڑی
پر کاروبار کرنے والے کون ہیں؟ پٹڑی سے منسلک تجارتی مراکز (دکانیں اور
کثیرالمنزلہ تعمیرات) راتوں رات کیسے بن گئیں اور اِن سے کرائے کی مد میں
باقاعدگی سے وصولی کرنے والے کون ہیں؟ سب سیاسی کرداروں کی حرص و طمع ہے‘
جنہوں نے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا لبادہ اُوڑھ رکھا ہے اور عام انتخابات
میں سرمایہ کاری کے ذریعے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ جس کے
بعد کی کہانی اور اُن کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے کہ ’ڈھائی ہزار ایکڑ سے
زائد اراضی‘ پر قبضہ کر لیا گیا ہے! ریلوے اراضی واگزار کرانے اور تجاوزات
کے خلاف کارروائی سے قبل ’گھنٹہ گھر سانحہ‘ کو ذہن میں رکھنا ہوگا‘ جہاں
تاجروں نے پہلے احتجاج اور بعدازاں اِنتظامیہ کی جانب سے طاقت کے اِستعمال
کا بھرپور فائدہ اُٹھا کر پوری مہم پر شکوک وشبہات اور سوالات اُٹھا دیئے
ہیں۔ ایسی کسی بھی کارروائی کے آغاز سے قبل ریلوے حکام کو پریس کانفرنس اور
ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُن تمام علاقوں کے نام اور تجاوزات کی تفصیلات
تشہیر کرنی چاہئے‘ جنہیں ایک مقررہ مدت (ٹائم ٹیبل) کے دوران واگزار کرانا
ہے۔ اِس سلسلے میں عدالت کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ ماضی میں
بھی اِسی نوعیت کی کارروائیاں عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنے کی وجہ سے
مکمل نہیں کرائی جاسکیں اور سالہا سال سے مقدمات کے باوجود نہ صرف اراضی
مستقل طور پر قبضہ کر لی گئی بلکہ پہلے سے زیادہ رقبے پر تجاوزات پھیلتی
چلی گئیں۔ ریلوے اَراضی پر قبضہ گروہوں کے پشت پناہی کرنے والے سیاسی
کرداروں سے معاملہ (دو دو ہاتھ) کرنے کی ضرورت ہے۔ اِنتظامیہ کو چاہئے کہ
وہ حکمراں و کسی اتحادی جماعت کے دباؤ اور مصلحتوں کی بجائے مختلف سیاسی
وغیرسیاسی اَدوار میں ہتھیائی جانے والی ریلوے اراضی کی تفصیلات (سال بہ
سال) کے گوشوارے منظرعام پر لائے۔ تیسری تجویز یہ ہے کہ ’گوگل میپ (Google
Map)‘ اِنٹرنیٹ کے وسائل کا اِستعمال کرتے ہوئے ’جی پی ایس (GPS)‘ کی مدد
سے تجاوزات کا اَزسرنو تعین کیا جائے کیونکہ جس ڈھائی ہزار ایکڑ کی بات
سرکاری کاغذات میں کی گئی ہے یہ درست نہیں بلکہ ریلوے ذرائع کے مطابق قبضہ
کی گئی اراضی چھ ہزار ایکڑ سے زائد بنتی ہے اور کہیں مقامات پر اراضی نیلام
(فروخت) کرنے کے معاملات میں بھی سنگین بے قاعدگیاں فائلوں میں دبی پڑی
ہیں۔ ’گوگل میپ‘ ہی کا استعمال کرتے ہوئے ریلوے کی ویب سائٹ یا ہینڈ بلز کے
ذریعے ریلوے کی اراضی کا مکمل نقشہ جاری کیا جائے‘ جس میں تجاوزت کو سرخ
نشانوں سے ظاہر (مارک) کیا گیا ہو تاکہ ’عوام الناس‘ اور ’خاص الخاص‘ طبقات
کو علم ہو سکے کہ کون کہاں اور کس مقام پر اپنی حد سے تجاوز کر چکا ہے۔
ریلوے کا مفاد پاکستان کا مفاد ہے۔ کسی ایک حکومتی اِدارے کی اَراضی چاہے
وہ فرد واحد کے قبضے میں ہو یا ایک سے زائد مالکان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر
’پٹوار خانے‘ کی ’فنی و تکنیکی مہارت‘ سے فائدہ اُٹھا چکے ہوں‘ اُن سب کو
’ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے‘ کی ضرورت ہے۔ اَصولی طور پر کسی بھی حکومتی
اِدارہ کی اَراضی یا وسائل ’مال مفت دل بے رحم‘ کے طور پر قبضہ نہیں ہونے
چاہیءں‘ پاکستان یتیم نہیں اُور نہ ہی ایسا ملک ہے کہ جس کا کوئی ’والی
وارث‘ نہ ہو! بااِختیار اِداروں کے انتظامی نگرانوں کو قومی اِداروں کے
اثاثوں کی حفاظت ’حب الوطنی‘ کے ساتھ اُسی امانت و دیانت اور خلوص نیت سے
ہونی چاہئے جیسا کہ وہ اپنے ذاتی ملکیت والے گھربار کی کرتے ہیں۔
تجاوزات کے خلاف ’کارروائیوں کے موسم‘ میں تصویر کا دُوسرا رخ پشاور کی ’ٹریفک پولیس‘ کی انگڑائی ہے جس نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز کرتے ہوئے چغل پورہ (رنگ روڈ سنگم) سے حیات آباد (کارخانو مارکیٹ) تک 80 غیرقانونی اَڈوں کا خاتمہ کرتے ہوئے دو سو سے زائد افرادکو حراست میں لیا ہے جبکہ متعدد گاڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں ہیں۔ ریلوے کے عزم کی طرح ٹریفک پولیس کی عملی کارروائی خوش آئند اور صدہزار گنا اطمینان بخش ہے‘ جس کا عرصہ دراز سے مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن جن اَفراد کو حراست میں لیا گیا ہے اُن کی اکثریت اڈہ منشی یا ادنیٰ کارکنوں کی ہے۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ تمام اَفراد جو غیرقانونی اَڈوں کے مالک ہیں‘ اُن تک قانون کا ہاتھ (لمبا ہونے کے باوجود تاحال) نہیں پہنچ سکا اُور یہی وجہ ہے کہ اگرچہ 80 اَڈوں کے خلاف کارروائی مکمل ہو گئی ہے لیکن اِس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ’’یہ اَڈے دوبارہ اِنہی مقامات پر قائم نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ عجب ہے کہ جابجا نوپارکنگ کرنے والوں سے تو رعائت نہیں کی جاتی تو اُن کی گاڑیاں اُٹھانے اور جرمانہ عائد کرنے میں مستعد ٹریفک پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں لیکن غیرقانونی اڈے اور وہ بھی لب سڑک غضبناک آنکھوں سے اُوجھل رہتے ہیں! قانون سب کے ایک ہونا چاہئے بالخصوص ایسے کردار کسی رعائت کے مستحق نہیں جن ٹریفک کے بہاؤ کی راہ میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔
تجویز ہے کہ بجائے پابندی عائد کرنے کے‘ پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے جملہ اڈے ’جنرل بس اسٹینڈ‘ میں منتقل کر کے اُنہیں ’ریگولیٹ‘ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ اَڈوں کے قیام کی اِجازت دینے اور اِن کے ٹھیکوں سے متعلقہ حکومتی اِداروں کو آمدنی بھی حاصل ہو گی اور وہاں مسافروں کی سہولیات کے کم سے کم معیار پر عمل درآمد بھی ممکن ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجاوزات کے خلاف ’کارروائیوں کے موسم‘ میں تصویر کا دُوسرا رخ پشاور کی ’ٹریفک پولیس‘ کی انگڑائی ہے جس نے ’آپریشن کلین اپ‘ کا آغاز کرتے ہوئے چغل پورہ (رنگ روڈ سنگم) سے حیات آباد (کارخانو مارکیٹ) تک 80 غیرقانونی اَڈوں کا خاتمہ کرتے ہوئے دو سو سے زائد افرادکو حراست میں لیا ہے جبکہ متعدد گاڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں ہیں۔ ریلوے کے عزم کی طرح ٹریفک پولیس کی عملی کارروائی خوش آئند اور صدہزار گنا اطمینان بخش ہے‘ جس کا عرصہ دراز سے مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن جن اَفراد کو حراست میں لیا گیا ہے اُن کی اکثریت اڈہ منشی یا ادنیٰ کارکنوں کی ہے۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ تمام اَفراد جو غیرقانونی اَڈوں کے مالک ہیں‘ اُن تک قانون کا ہاتھ (لمبا ہونے کے باوجود تاحال) نہیں پہنچ سکا اُور یہی وجہ ہے کہ اگرچہ 80 اَڈوں کے خلاف کارروائی مکمل ہو گئی ہے لیکن اِس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ ’’یہ اَڈے دوبارہ اِنہی مقامات پر قائم نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ عجب ہے کہ جابجا نوپارکنگ کرنے والوں سے تو رعائت نہیں کی جاتی تو اُن کی گاڑیاں اُٹھانے اور جرمانہ عائد کرنے میں مستعد ٹریفک پولیس اہلکاروں کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں لیکن غیرقانونی اڈے اور وہ بھی لب سڑک غضبناک آنکھوں سے اُوجھل رہتے ہیں! قانون سب کے ایک ہونا چاہئے بالخصوص ایسے کردار کسی رعائت کے مستحق نہیں جن ٹریفک کے بہاؤ کی راہ میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔
تجویز ہے کہ بجائے پابندی عائد کرنے کے‘ پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے جملہ اڈے ’جنرل بس اسٹینڈ‘ میں منتقل کر کے اُنہیں ’ریگولیٹ‘ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ اَڈوں کے قیام کی اِجازت دینے اور اِن کے ٹھیکوں سے متعلقہ حکومتی اِداروں کو آمدنی بھی حاصل ہو گی اور وہاں مسافروں کی سہولیات کے کم سے کم معیار پر عمل درآمد بھی ممکن ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment