ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم!
ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم!
کچھ سفر کبھی ختم نہیں ہوتے اور وقت کے ساتھ مسافت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ کچھ
دکھوں پر وقت کا مرہم کام نہیں کرتا اور زخم ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں عزیز
از جان لگائے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سفر پر سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے روز
سے ’پشاور ہائی کورٹ‘ کے وکیل ’اجون خان‘ رواں دواں ہیں جنہیں ایک مقدمے
کی سماعت کے دوران فون پر اطلاع ملی کہ ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملہ ہوا ہے‘
جہاں اُن کا بیٹا ’اسفند خان‘ زیرتعلیم تھا۔ 17 جنوری کے روز اسفند پندرہ
سال کا ہونے والا تھا‘ جو ’جماعت دہم‘کا طالبعلم اُور بات کی طرح وکالت کے
شعبے سے وابستہ ہونے کا آرزو مند تھا۔ اجون خان تیز قدموں سے روانہ ہوئے
اور چونکہ سکول کے راستے بند تھے تو وہ چلتے ہوئے اُس چوراہے تک جا پہنچے
جہاں سے سکول کی چاردیواری تو نظر آ رہی تھی لیکن گولیوں کی گرج اور بچوں
کی حفاظت کے حوالے سے والدین کی ہر لمحہ بڑھتی ہوئی پریشانی و تشویش دور
کرنے والا کوئی ذمہ دار موجود نہیں تھا۔ سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت میں اِس
قسم کے غیرمعمولی حالات میں صرف یہی بات شامل ہوتی ہے کہ کسی کو پاس آنے
نہیں دینا‘ اُن کے چہروں پر جذبات نہیں ہوتے۔ وہ مستعد‘ چوکنا اور غصے سے
بھرے ہوتے ہیں اور اگر یہ سب متاثرکن ہوتا‘ تو پھر سانحے رونما ہی کیوں
ہوتے۔ بہرکیف والدین کو بتایا جارہا تھا کہ وہ ’کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی
اَیم اِیچ)‘ سے رجوع کریں۔ ہائی کورٹ سے ورسک روڈ اور وہاں سے براستہ فورٹ
روڈ سی ایم ایچ پہنچنے پر زخمیوں میں بیٹے کو نہ پا کر والد کے قدم قطار
میں رکھی لاشوں کی بڑھے تو وہ لرز رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک چہرے پر نظر
کرتے وہ اُس مقام پر رک گیا‘ جہاں اُس کے بیٹے کا چہرہ آنکھوں کے سامنے
تھا۔ اُس کے ماتھے میں گولی کا نشان‘ شہادت کا سبب بنا تھا۔ باپ نے
یونیفارم پر لگے خون کے دھبے یوں صاف کرنے کی کوشش کی‘ جیسے وہ اِس سے جی
اُٹھے گا۔ اسفند کا ایک ہاتھ اُس کی جیب میں تھا‘ آخری لمحے وہ موبائل فون
سے اطلاع کرنا چاہتا ہوگا۔ اسفند کے ایک دوست علی کے بقول ’’جب آڈیٹوریم سے
چند بچے باہر کی طرف بھاگے تو اُنہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا‘ جن میں
اسفند بھی شامل تھا!‘‘
سانحۂ پشاور کے کربناک 36ویں دن‘ اِیصال ثواب کی خصوصی محفل کا انعقاد اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے‘ جس سے متاثرین کو بڑی تسلی ہوئی لیکن وہ تشفی چاہتے ہیں۔ اجون خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’اگر تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات میں ملحقہ آبادی کی مشاورت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ گردونواح کے راستوں اور آبادی کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔‘‘ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کچھ بھی محفوظ نہیں وہاں درپیش مسئلہ تعلیمی اداروں کے خاطرخواہ حفاظتی انتظامات کا ہے‘ جس کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی البتہ سیکورٹی کے ضوابط پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معمول سے کچھ ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔
نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے 7 نکاتی مؤقف سامنے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد تعلیمی اداروں سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور کم وبیش ایک کروڑ بچے نجی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ چار ہفتوں کی بندش سے بچوں کی پڑھائی اور بروقت نصاب کی تکمیل کو نقصان پہنچا ہے۔ 2: ادارے کھلتے ہی تعلیمی اوقات میں پولیس اہلکاروں کا سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے آمد سے تعلیمی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ 3: واک تھرو گیٹس‘ سی سی ٹی وی کیمرے‘ چار دیواری بلند کرنا‘ خاردار تاریں لگانے کے ساتھ مسلح گارڈز رکھنا محدود وسائل میں رہتے ہوئے تمام اداروں کے لئے کلی طورپر ممکن نہیں۔ 4: نامساعد حالات علم کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ماہرین تعلیم کے ساتھ پولیس اہلکاروں کا (مبینہ طور پر) ہتک آمیز سلوک قابل قبول نہیں۔ 5: سیکورٹی خدشات کی بناء پر نجی سکولوں کو زبردستی بندکرانے سے ایک کروڑ بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔6: نجی تعلیمی اداروں کو سیکورٹی انتظامات کے نام پر ہراساں کرنے کی بجائے سرکاری تعلیمی اداروں کی سکیورٹی پر بھی توجہ دی جائے۔ 7: حفاظتی انتظامات کے لئے نجی تعلیمی اداروں کو مفت اور فوری طور پر اسلحہ لائسینس جاری کئے جائیں۔‘‘ گویا نجی تعلیمی ادارے چاہتے ہیں کہ اُنہیں سیکورٹی کے کم سے کم بندوبست کرنے پر مجبور نہ کیاجائے اور جس طرح پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار ہے‘ اسی طرح نرمی کا معاملہ اُن سے بھی روا رکھا جائے۔
سب رعائت چاہتے ہیں۔ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے‘ جس میں سرمایہ کاری کا پھل بناء صبر ہی میٹھا ملتا ہے!
وقت ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے مفاد کے حصار سے باہر کی دنیا کو دیکھیں۔ تعلیم کے نام پر بچوں کو ’موت کے کنویں‘ میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ اداروں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا۔ قواعد اطلاق چاہتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے بڑے بڑے فیصلوں کی صورت بڑی بڑی غلطیوں کی سزا بھگتنے والے والدین اور سانحۂ پشاور کے متاثرین کی آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوئیں۔ اُن کے دل رو رہے ہیں۔ گھروں میں اُداسیوں کے ڈیرے اور درودیوار رو رہے ہیں۔ ہچکیاں سسکیاں اور ضبط و صبر کی تلقین کرنے والے بھی رو رہے ہیں۔ کاش وہ ایک دن گزر جائے‘ کاش ہم اُس ایک دن کی اوٹ سے پراُمید‘ روشن مستقبل کو دل کی آنکھوں سے دیکھ سکیں! ’’در منزل پہ ہوتا ہے سفر ختم: مگر ہوتی کہاں ہے رہگزر ختم۔۔۔بجھا جب دل ہوا‘ بے رنگ منظر: ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم! (حلیم صابر)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحۂ پشاور کے کربناک 36ویں دن‘ اِیصال ثواب کی خصوصی محفل کا انعقاد اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے‘ جس سے متاثرین کو بڑی تسلی ہوئی لیکن وہ تشفی چاہتے ہیں۔ اجون خان ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ’’اگر تعلیمی اداروں کے حفاظتی انتظامات میں ملحقہ آبادی کی مشاورت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ وہ گردونواح کے راستوں اور آبادی کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔‘‘ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کچھ بھی محفوظ نہیں وہاں درپیش مسئلہ تعلیمی اداروں کے خاطرخواہ حفاظتی انتظامات کا ہے‘ جس کی ذمہ داری صرف حکومت پر عائد نہیں کی جاسکتی البتہ سیکورٹی کے ضوابط پر عمل درآمد ممکن بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معمول سے کچھ ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔
نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے 7 نکاتی مؤقف سامنے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ ’’خیبرپختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد تعلیمی اداروں سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے اور کم وبیش ایک کروڑ بچے نجی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ چار ہفتوں کی بندش سے بچوں کی پڑھائی اور بروقت نصاب کی تکمیل کو نقصان پہنچا ہے۔ 2: ادارے کھلتے ہی تعلیمی اوقات میں پولیس اہلکاروں کا سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے آمد سے تعلیمی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔ 3: واک تھرو گیٹس‘ سی سی ٹی وی کیمرے‘ چار دیواری بلند کرنا‘ خاردار تاریں لگانے کے ساتھ مسلح گارڈز رکھنا محدود وسائل میں رہتے ہوئے تمام اداروں کے لئے کلی طورپر ممکن نہیں۔ 4: نامساعد حالات علم کے فروغ کے لئے کام کرنے والے ماہرین تعلیم کے ساتھ پولیس اہلکاروں کا (مبینہ طور پر) ہتک آمیز سلوک قابل قبول نہیں۔ 5: سیکورٹی خدشات کی بناء پر نجی سکولوں کو زبردستی بندکرانے سے ایک کروڑ بچوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔6: نجی تعلیمی اداروں کو سیکورٹی انتظامات کے نام پر ہراساں کرنے کی بجائے سرکاری تعلیمی اداروں کی سکیورٹی پر بھی توجہ دی جائے۔ 7: حفاظتی انتظامات کے لئے نجی تعلیمی اداروں کو مفت اور فوری طور پر اسلحہ لائسینس جاری کئے جائیں۔‘‘ گویا نجی تعلیمی ادارے چاہتے ہیں کہ اُنہیں سیکورٹی کے کم سے کم بندوبست کرنے پر مجبور نہ کیاجائے اور جس طرح پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے بازاروں میں تجاوزات کی بھرمار ہے‘ اسی طرح نرمی کا معاملہ اُن سے بھی روا رکھا جائے۔
سب رعائت چاہتے ہیں۔ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے‘ جس میں سرمایہ کاری کا پھل بناء صبر ہی میٹھا ملتا ہے!
وقت ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے مفاد کے حصار سے باہر کی دنیا کو دیکھیں۔ تعلیم کے نام پر بچوں کو ’موت کے کنویں‘ میں نہیں دھکیلا جاسکتا۔ اداروں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ہوگا۔ قواعد اطلاق چاہتے ہیں۔ بڑے لوگوں کے بڑے بڑے فیصلوں کی صورت بڑی بڑی غلطیوں کی سزا بھگتنے والے والدین اور سانحۂ پشاور کے متاثرین کی آنکھیں ابھی خشک نہیں ہوئیں۔ اُن کے دل رو رہے ہیں۔ گھروں میں اُداسیوں کے ڈیرے اور درودیوار رو رہے ہیں۔ ہچکیاں سسکیاں اور ضبط و صبر کی تلقین کرنے والے بھی رو رہے ہیں۔ کاش وہ ایک دن گزر جائے‘ کاش ہم اُس ایک دن کی اوٹ سے پراُمید‘ روشن مستقبل کو دل کی آنکھوں سے دیکھ سکیں! ’’در منزل پہ ہوتا ہے سفر ختم: مگر ہوتی کہاں ہے رہگزر ختم۔۔۔بجھا جب دل ہوا‘ بے رنگ منظر: ہوئی رنگینئ شام و سحر ختم! (حلیم صابر)‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment