ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاوزات: تاریخ‘ عزائم اُور کارروائیاں
تجاوزات: تاریخ‘ عزائم اُور کارروائیاں
اندرون پشاور کے تجارتی ورہائشی علاقے سے متصل ’گھنٹہ گھر بازار‘ میں
تجاوزات ختم کرنے کے لئے سولہ جنوری کی رات ہوئی کارروائی اُس وقت خطرناک و
افسوسناک صورت اِختیار کرگئی‘ جب اِس کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے والے
دکانداروں میں سے دو زخمی اور ہنگامہ آرائی کا تماشہ کرنے والے تین افراد
ایک گاڑی (شاول) کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے‘ قابل ذکر ہے کہ ہلاک ہونے
والوں میں کوئی دکاندار یا تاجر شامل نہیں بلکہ وہ مزدور شامل ہیں جو دن
بھر کی مشقت کے بعد سرشام ہی گھنٹہ بازار جمع ہو جاتے ہیں جہاں اُنہیں دو
مختلف تندروں سے روٹیاں اور قریبی ہوٹلوں سے کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جاتا
ہے۔ پشاور کے کاروباری طبقے کا معمول ہے‘ وہ دن کے اِختتام پر تندروں کو
صدقہ و خیرات کے طور پر کچھ نہ کچھ رقم دے جاتے ہیں جس کے تناسب سے بعدازاں
وہاں منتظر مردوخواتین میں روٹیاں تقسیم کردی جاتی ہیں۔ جمعہ کی رات جب
میونسپل حکام‘ ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار
’گھنٹہ گھر بازار‘ پہنچے تو اُن کااستقبال حسب توقع پتھراؤ اور تلخ جملوں
(نعرے بازی) سے کیا گیا۔
تجاوزات کے خلاف جب بھی کسی بازار میں کارروائی ہوتی ہے‘ اِسی قسم کے ردعمل کا اِظہار ہوتا ہے۔ پشاور میں بمشکل ایسا کوئی تاجر یا دکاندار ملے گا‘ جو بہ رضاورغبت تجاوزات ختم کرے اور یہی سبب ہے کہ ہر برس تجاوزات کے خلاف مہم آغاز ہوتے ہی یہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ سردست کئی ایک سوالات اُٹھے ہیں‘ جن کے جوابات دیتے ہوئے میونسپل حکام نے اہل پشاور سے درخواست کی ہے کہ ۔۔۔’’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کی حمایت و مکمل ہونے کا مطالبہ کریں اور کسی بھی صورت ذاتی مفادات کے لئے پشاور کو مسائل کی آماجگاہ بنانے والوں سے رعائت نہ کریں۔‘‘ انتظامیہ کے بقول یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز گھنٹہ گھر بازار سے کیا گیا لیکن یہ بات درست ہے کہ اگر گھنٹہ گھر بازار کو پختہ تجاوزات اور تہہ بازاری و ہتھ ریڑھیوں سے صاف کر دیا جاتا ہے تو اس سے شہر و مضافاتی علاقوں کے دیگر کاروباری بازاروں کو مثبت پیغام جائے گا اور پشاور کی تاریخ میں ایسی میونسپل اتھارٹی نہیں آئی‘ جس نے تجاوزات کے خلاف یوں ’فیصلہ کن مہم‘ کا آغاز ’بھرپور طاقت‘ سے کیا ہو۔ ماضی میں ایک مرتبہ جب گھنٹہ گھر کے اردگرد تجاوزات ختم کی گئیں تو اُس وقت کے چیمبر کے صدر نے اپنے والد وزیربلدیات کے ذریعے دباؤ ڈال کر مسمار کی جانے والی دکانیں پھر سے تعمیر کرکے دی تھیں۔ پشاور کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب تجاوزات مسمار کرنے والے خود تجاوزات تعمیر کر رہے تھے!
گھنٹہ گھر کے ساتھ پشاور کی کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاہ چادروں میں خود کو ڈھانپے پشاور میں مقیم یہودی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھانے پینے کی اشیاء اور پھول فروخت کیا کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں سے یہودی خاندانوں نے پہلے افغانستان اور بعدازاں اسرائیل نقل مکانی کر لی‘ اُن کی عبادت گاہ (سلیمان کی سرائے) مسلم مینا بازار بہ طرف گھنٹہ گھر اور رہائش گاہیں محلہ خویشگی میں اب بھی موجود ہیں تاہم اُن کی جگہ تجارتی مراکز اور رہائشگاہیں تعمیر ہو گئیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دیگر اَقلیتوں کی طرح ’پشاور کے مذہبی گلدستے‘ میں یہودی بھی شامل ہوتے اُور دیگر مذاہب کی طرح وہ بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی عبادات کر سکتے۔
یاد رہے کہ ’گھنٹہ گھر‘ کا سرکاری نام ’’کننگھم کلاک ٹاور‘‘ ہے اور اِس کی تعمیر برطانوی راج کے دوران ملکۂ برطانیہ ایلگزینڈرینا ویکٹوریا (Alexandrina Victoria) کی ’ڈیمانڈ جوبلی تقریبات‘ کے سلسلے میں کی گئی اور اِس مینارنما گھنٹہ گھر کو برطانوی راج کے گورنر اور پولیٹیکل ایجنٹ ’سر جارج کننگھم (Sir. George Cunningham)‘ کے نام نامی سے منسوب کر دیا گیا۔ میونسپل انجنیئر جیمز سٹارچن (James Strachan) کے ڈیزائن کردہ گھنٹہ گھر کا سنگ بنیاد 1898ء میں گورنر جارج کننگھم نے رکھا تھا‘ جس کی تعمیر 1900ء میں مکمل ہوئی۔ 31 انچ گولائی میں گھنٹہ گھر کی بنیاد 13x4 میٹر (43فٹ و 13فٹ)تھی جبکہ 26 میٹر (85فٹ) بلند ہے اور اسی تعمیر کی مناسبت سے اِس چوک کو ’گھنٹہ گھر‘ بازار کہا جانے لگا جو چوک یادگار‘ بازار کلاں اور کریم پورہ کے سنگم پر بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِس اہم تجارتی مرکز میں کاروباری سرگرمیاں دکانوں کی بجائے سڑک پر ہونے لگیں۔ یوں پشاور سے ’فٹ پاتھ‘ کا تصور ختم ہوتا چلا گیا‘ ہر دکاندار اِس بات کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دکان کے آگے کی جگہ چاہے تو خود جیسا چاہے استعمال کرے یا تہہ بازاری پر دے۔
گھنٹہ گھر بازار میں دکاندار محض تہہ بازاری کی مد میں یومیہ پانچ سے ایک ہزار روپے کماتے ہیں اوریہی تہہ بازاری قصہ خوانی‘ مسگراں یا خیبربازار و ملحقہ مصروف تجارتی مراکز میں پانچ ہزار روپے یومیہ تک بھی ہے تو جب پشاور کی بجائے ذاتی مفادات عزیز رکھنے والے طبقات کی اکثریت ہو تو بہتری کی توقع کرنے والوں کا انتظار لامحالہ طویل ہو جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر بازار میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے چند ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اور جن کے بارے توجہ اِس معاملے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
’’تجاوزت کے خلاف کارروائی رات کی تاریکی میں کیوں کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر بازار میں اگر دن کے وقت آپریشن کیا جاتا تو اس سے ملحقہ بازار اور رہائشی علاقوں کے رہنے والوں کو آمدروفت اور بالخصوص طلباء و طالبات اور ملازمت پیشہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ’’کارروائی میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: دکانداروں کو ایک ماہ قبل مطلع کیا گیا‘ اُنہیں ایک ہفتہ قبل بھی آگاہ کردیا گیا تھا لیکن جب کارروائی کے لئے انتظامیہ پہنچی تو وہ تیاری کئے ہوئے تھے اور انہوں نے میونسپل حکام کا استقبال پتھروں سے کیا۔ جس کے جواب میں ہوائی فائرنگ کی گئی تاکہ وہ منتشر ہوسکیں لیکن ہلاکتیں شاول کے ڈرائیور کی غلطی سے ہوئیں‘ طاقت کے استعمال سے نہیں۔ ’’آپریشن کے دوران بجلی کی فراہمی کیوں معطل کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات پختہ ہیں اور ان میں سے کئی ایک بجلی کے کنکشن بھی لگے ہوئے ہیں‘ کسی حادثے اور جانی نقصان سے بچنے کے لئے بجلی منقطع کی گئی جو احتیاطی تدبیر تھی۔ ’’تاجروں کا احتجاج نظرانداز کیوں کیا گیا؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکانداروں کا احتجاج منطقی ضرور تھا لیکن اس کا قانونی جواز نہیں بنتا۔
تجاوزات چاہے عشروں سے قائم ہوں یا برسوں سے وہ قانونی نہیں ہو سکتیں۔’’ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکاندار احتجاج کرتے ہوئے سڑک پر لیٹ گئے۔ اندھیرا ہونے کے باعث شاول ڈرائیور کو زمین پر لیٹے ہوئے دکاندار نظر نہیں آئے اور یہی وہ لوگ تھے جو شاول کی زد میں آکر ہلاک یا زخمی ہوئے۔’’دکانداروں کا احتجاج کیوں نظرانداز کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات کے خلاف کارروائی سے کئی ہفتوں قبل گھنٹہ گھر سمیت مختلف دکانداروں اور تاجر تنظیموں کو بارہا تاکید کی گئی کہ وہ ازخود تجاوزات ختم کریں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تاجر یہی چاہتے ہیں کہ وہ بازاروں پر قابض رہیں اور کوئی اُن سے بازپرس کرنے والا نہ ہو۔’’کیا تجاوزات کے خلاف کارروائی ختم کر دی گئی ہے؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر واقعہ کے بعد سیکرٹری داخلہ (ہوم) اختر علی شاہ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے نگران سپیشل سیکرٹری (ہوم) سراج خان ہیں۔ جب تک اُن کی جانب سے تحقیقات سامنے نہیں آ جاتیں‘ کارروائی معطل رہے گی۔ پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور اِس مقصد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجاوزات کے خلاف جب بھی کسی بازار میں کارروائی ہوتی ہے‘ اِسی قسم کے ردعمل کا اِظہار ہوتا ہے۔ پشاور میں بمشکل ایسا کوئی تاجر یا دکاندار ملے گا‘ جو بہ رضاورغبت تجاوزات ختم کرے اور یہی سبب ہے کہ ہر برس تجاوزات کے خلاف مہم آغاز ہوتے ہی یہ تحلیل ہو جاتی ہے۔ سردست کئی ایک سوالات اُٹھے ہیں‘ جن کے جوابات دیتے ہوئے میونسپل حکام نے اہل پشاور سے درخواست کی ہے کہ ۔۔۔’’تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اِس کی حمایت و مکمل ہونے کا مطالبہ کریں اور کسی بھی صورت ذاتی مفادات کے لئے پشاور کو مسائل کی آماجگاہ بنانے والوں سے رعائت نہ کریں۔‘‘ انتظامیہ کے بقول یہ تاثر گمراہ کن ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز گھنٹہ گھر بازار سے کیا گیا لیکن یہ بات درست ہے کہ اگر گھنٹہ گھر بازار کو پختہ تجاوزات اور تہہ بازاری و ہتھ ریڑھیوں سے صاف کر دیا جاتا ہے تو اس سے شہر و مضافاتی علاقوں کے دیگر کاروباری بازاروں کو مثبت پیغام جائے گا اور پشاور کی تاریخ میں ایسی میونسپل اتھارٹی نہیں آئی‘ جس نے تجاوزات کے خلاف یوں ’فیصلہ کن مہم‘ کا آغاز ’بھرپور طاقت‘ سے کیا ہو۔ ماضی میں ایک مرتبہ جب گھنٹہ گھر کے اردگرد تجاوزات ختم کی گئیں تو اُس وقت کے چیمبر کے صدر نے اپنے والد وزیربلدیات کے ذریعے دباؤ ڈال کر مسمار کی جانے والی دکانیں پھر سے تعمیر کرکے دی تھیں۔ پشاور کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب تجاوزات مسمار کرنے والے خود تجاوزات تعمیر کر رہے تھے!
گھنٹہ گھر کے ساتھ پشاور کی کئی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سیاہ چادروں میں خود کو ڈھانپے پشاور میں مقیم یہودی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کھانے پینے کی اشیاء اور پھول فروخت کیا کرتی تھیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں سے یہودی خاندانوں نے پہلے افغانستان اور بعدازاں اسرائیل نقل مکانی کر لی‘ اُن کی عبادت گاہ (سلیمان کی سرائے) مسلم مینا بازار بہ طرف گھنٹہ گھر اور رہائش گاہیں محلہ خویشگی میں اب بھی موجود ہیں تاہم اُن کی جگہ تجارتی مراکز اور رہائشگاہیں تعمیر ہو گئیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ دیگر اَقلیتوں کی طرح ’پشاور کے مذہبی گلدستے‘ میں یہودی بھی شامل ہوتے اُور دیگر مذاہب کی طرح وہ بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی عبادات کر سکتے۔
یاد رہے کہ ’گھنٹہ گھر‘ کا سرکاری نام ’’کننگھم کلاک ٹاور‘‘ ہے اور اِس کی تعمیر برطانوی راج کے دوران ملکۂ برطانیہ ایلگزینڈرینا ویکٹوریا (Alexandrina Victoria) کی ’ڈیمانڈ جوبلی تقریبات‘ کے سلسلے میں کی گئی اور اِس مینارنما گھنٹہ گھر کو برطانوی راج کے گورنر اور پولیٹیکل ایجنٹ ’سر جارج کننگھم (Sir. George Cunningham)‘ کے نام نامی سے منسوب کر دیا گیا۔ میونسپل انجنیئر جیمز سٹارچن (James Strachan) کے ڈیزائن کردہ گھنٹہ گھر کا سنگ بنیاد 1898ء میں گورنر جارج کننگھم نے رکھا تھا‘ جس کی تعمیر 1900ء میں مکمل ہوئی۔ 31 انچ گولائی میں گھنٹہ گھر کی بنیاد 13x4 میٹر (43فٹ و 13فٹ)تھی جبکہ 26 میٹر (85فٹ) بلند ہے اور اسی تعمیر کی مناسبت سے اِس چوک کو ’گھنٹہ گھر‘ بازار کہا جانے لگا جو چوک یادگار‘ بازار کلاں اور کریم پورہ کے سنگم پر بنایا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِس اہم تجارتی مرکز میں کاروباری سرگرمیاں دکانوں کی بجائے سڑک پر ہونے لگیں۔ یوں پشاور سے ’فٹ پاتھ‘ کا تصور ختم ہوتا چلا گیا‘ ہر دکاندار اِس بات کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے کہ وہ اپنی دکان کے آگے کی جگہ چاہے تو خود جیسا چاہے استعمال کرے یا تہہ بازاری پر دے۔
گھنٹہ گھر بازار میں دکاندار محض تہہ بازاری کی مد میں یومیہ پانچ سے ایک ہزار روپے کماتے ہیں اوریہی تہہ بازاری قصہ خوانی‘ مسگراں یا خیبربازار و ملحقہ مصروف تجارتی مراکز میں پانچ ہزار روپے یومیہ تک بھی ہے تو جب پشاور کی بجائے ذاتی مفادات عزیز رکھنے والے طبقات کی اکثریت ہو تو بہتری کی توقع کرنے والوں کا انتظار لامحالہ طویل ہو جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر بازار میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے چند ایسے پہلو ہیں جن کی وضاحت اور جن کے بارے توجہ اِس معاملے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
’’تجاوزت کے خلاف کارروائی رات کی تاریکی میں کیوں کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر بازار میں اگر دن کے وقت آپریشن کیا جاتا تو اس سے ملحقہ بازار اور رہائشی علاقوں کے رہنے والوں کو آمدروفت اور بالخصوص طلباء و طالبات اور ملازمت پیشہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ’’کارروائی میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: دکانداروں کو ایک ماہ قبل مطلع کیا گیا‘ اُنہیں ایک ہفتہ قبل بھی آگاہ کردیا گیا تھا لیکن جب کارروائی کے لئے انتظامیہ پہنچی تو وہ تیاری کئے ہوئے تھے اور انہوں نے میونسپل حکام کا استقبال پتھروں سے کیا۔ جس کے جواب میں ہوائی فائرنگ کی گئی تاکہ وہ منتشر ہوسکیں لیکن ہلاکتیں شاول کے ڈرائیور کی غلطی سے ہوئیں‘ طاقت کے استعمال سے نہیں۔ ’’آپریشن کے دوران بجلی کی فراہمی کیوں معطل کی گئی؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات پختہ ہیں اور ان میں سے کئی ایک بجلی کے کنکشن بھی لگے ہوئے ہیں‘ کسی حادثے اور جانی نقصان سے بچنے کے لئے بجلی منقطع کی گئی جو احتیاطی تدبیر تھی۔ ’’تاجروں کا احتجاج نظرانداز کیوں کیا گیا؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکانداروں کا احتجاج منطقی ضرور تھا لیکن اس کا قانونی جواز نہیں بنتا۔
تجاوزات چاہے عشروں سے قائم ہوں یا برسوں سے وہ قانونی نہیں ہو سکتیں۔’’ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: آپریشن کے خلاف دکاندار احتجاج کرتے ہوئے سڑک پر لیٹ گئے۔ اندھیرا ہونے کے باعث شاول ڈرائیور کو زمین پر لیٹے ہوئے دکاندار نظر نہیں آئے اور یہی وہ لوگ تھے جو شاول کی زد میں آکر ہلاک یا زخمی ہوئے۔’’دکانداروں کا احتجاج کیوں نظرانداز کیا گیا؟‘‘ انتظامیہ کا مؤقف: تجاوزات کے خلاف کارروائی سے کئی ہفتوں قبل گھنٹہ گھر سمیت مختلف دکانداروں اور تاجر تنظیموں کو بارہا تاکید کی گئی کہ وہ ازخود تجاوزات ختم کریں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ تاجر یہی چاہتے ہیں کہ وہ بازاروں پر قابض رہیں اور کوئی اُن سے بازپرس کرنے والا نہ ہو۔’’کیا تجاوزات کے خلاف کارروائی ختم کر دی گئی ہے؟‘‘انتظامیہ کا مؤقف: گھنٹہ گھر واقعہ کے بعد سیکرٹری داخلہ (ہوم) اختر علی شاہ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے نگران سپیشل سیکرٹری (ہوم) سراج خان ہیں۔ جب تک اُن کی جانب سے تحقیقات سامنے نہیں آ جاتیں‘ کارروائی معطل رہے گی۔ پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور اِس مقصد سے کسی بھی صورت پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment