Monday, January 26, 2015

Jan2015:Charlie Hebdo

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تقاضائے عشق
اِنسانیت کے نام نہاد اِحترام اور برداشت کی تلقین کرنے والے مغربی مفکرین‘ دانشور اُور حکمراں خاموش ہیں‘ کیونکہ ایک مرتبہ پھر مسلم اُمہ کو اشتعال دلانے کی جرأت کی گئی ہے! بالخصوص فرانس کے حکام کی جانب سے تمام ادیان منجملہ اسلام کا احترام کرنے کے دعوؤں کے باوجود اسلام کے خلاف ہفت روزہ جریدے ’چارلی ایبڈو (Charlie Hebdo)‘ کی جانب سے توہین آمیز خاکوں اور ہتک آمیز جملوں پر مشتمل مواد کی اشاعت مغربی معاشروں کے قول و فعل کی تضادات پر مبنی روئیوں کے عکاس ہیں‘ جو عدم برداشت‘ انتہاء پسندی اور دہشت گردی ہی کے زمرے میں شمار کیا جانا چاہیءں۔ فرانسیسی جریدے نے گذشتہ ہفتے ایک مرتبہ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُسے نہ صرف فرانس بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں!

دوسری جانب فرانس سمیت اٹھائیس یورپی ممالک (آسٹریا‘ بیلجیئم‘ بلغاریہ‘ کروشیا‘ سائپرس‘ چیک ری پبلک‘ ڈنمارک‘ ایسٹونیا‘ فِین لینڈ‘ جرمنی‘ گریس‘ ہنگری‘ آئرلینڈ‘ اٹلی‘ لیتھونیا‘ لیگزمبرگ‘ مالٹا‘ ہالینڈ‘ پولینڈ‘ پرتگال‘ رومانیہ‘ سلواکیا‘ سلوانیا‘ سپین‘ سوئیڈن اور برطانیہ) کی حکومتوں نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔

شرمناک ہے کہ فرانس کی حکومت نے آزادئ اظہار کے بہانے ایک جریدے کو توہین آمیز خاکے شائع کرنے کی اجازت دی جس سے یہ سوال سامنے آیا ہے کہ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل توہین‘ اسلام کے پیروکاروں کے حقوق کا احترام ہے؟ کیا اس قسم کے توہین آمیز اقدامات سے دنیا کے ڈیڑہ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری نہیں ہوئی؟ اور کیا یہ اخلاقیات اور صحافت کے پیشے کے اصول و ضوابط کے خلاف نہیں ہے؟ کیا آزادی کا اظہار ایک نامحدود امر ہے اور اس بہانے سے ہر بات کرنے حتیٰ کہ کسی بزرگ ترین ہستی کے توہین آمیز خاکے تک شائع کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟

اس پورے معاملے میں ایک اور اہم پہلو بھی قابل غور ہے کہ اس واقعہ میں چار یہودی بھی مارے گئے کہ جن لاشیں پیرس سے اسرائیل لے جائی گئیں اور انہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ظالم‘ ناجائز اور کینہ پرور اسرائیل نے اس واقعہ سے خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اس دہشت گردانہ واقعہ کے خلاف پیرس میں ہونے والی ریلی میں شرکت کی کہ جس میں بہت سے یورپی ملکوں کے سربراہوں اور نمائندے بھی تھے۔ نیتن یاہو نے ایک ایسے وقت میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والی اس ریلی میں شرکت کی کہ جب وہ اور ان کی ناجائز صیہونی حکومت دنیا میں سب سے بڑے دہشت گرد شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وہ پیرس کے واقعہ سے غلط فائدہ اٹھا کر خود کو بھی مظلوم اور دہشت گردی کا شکار ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ فرانس نے حال ہی میں سلامتی کونسل میں فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر اسرائیل اور امریکہ نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان دونوں ملکوں نے اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے پیرس میں یہ کارروائی کروا کر ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہو؟ ایک تو یہ کہ فرانس کو اس کے مؤقف پر نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جائے اور دوسرے یہ کہ نائن الیون کی طرح اس واقعہ کو بہانہ بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کو مزید تیز کیا جائے۔

توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ اشاعت پر مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ ’’تقاضائے عشق و محبت یہی ہے: تیرے نام سے انتہاء چاہتا ہوں۔‘‘ حقیقت تو یہ ہے کہ فرانس کے ایک جریدے کی گستاخی قابل مذمت اور دور جدید کی (ماڈرن) جاہلیت کا نمونہ ہے۔ ایسے پیغمبر (ﷺ)کے توہین آمیز خاکے بنانا جنہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کی صلاحیتوں میں نکھار لا کر رشدوکمال کی منزلوں تک پہنچانے کے لئے بھیجا تھا‘ جاہلیت نہیں تو کیا ہے۔ وہ جو مغرب کی تہذیب و زبان اور طورطریقوں سے متاثر ہیں اُنہیں سوچنا چاہئے کہ اس طرح کے قبیح اور شرمناک اقدامات مغرب کے انسانیت سے دور ہونے کی نشانی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام اگر اِذن خدا سے مردوں کو زندہ کرتے تھے تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اخلاق کو زندہ کرنا تھا‘ لہٰذا کسی بھی معاشرے میں ایک کریم انسان اور کریم افراد توہین آمیز اقدامات کے مرتکب نہیں ہوتے جن کا مشاہدہ ہم آج مغرب میں کر رہے ہیں۔

مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اب ایک ایسی جنگ چھیڑ رکھی ہے کہ جس میں وہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا کر‘ فرقہ واریت کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے ہیں‘ اس مسلط کردہ جنگ میں ان کا پیسہ اور اسلحہ استعمال ہو رہا ہے لیکن ان کا لشکر گمراہ مسلمانوں اور انتہاء پسند گروہوں پر مشتمل ہے جبکہ تختۂ ستم بھی مسلمان ممالک ہیں۔ یہ ایک ایسی خطرناک حکمت عملی ہے کہ جس کے ذریعے سامراج کم ترین خرچ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس سامراجی سازش کو سمجھا جائے اور غم و غصے کی کیفیت میں اپنے ہی آپ کو جانی و مالی نقصانات پہنچانے کی بجائے مغربی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ جو ممالک توہین آمیز خاکوں کی تائید کررہے ہیں وہ بھی جرم میں برابر کے شریک ہیں اور یہ سب مسلمانوں کی دل آزاری کے مرتکب ہوئے ہیں‘ اِس سازش اور فعل کو حکمت و تدبر اور اتحاد سے ناکام بنانے کے ساتھ ذات رسالت مآب سے تجدید عہد کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دنیاوی نمودونمائش‘ آسائشیں اور کاروباری مفادات قربان کریں گے۔

یورپی ممالک کے مالیاتی اداروں اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں کو ’غیرت‘ کا ثبوت دینا چاہئے۔ جب پوری دنیا مسلمانوں کی دل آزاری کرنے کے لئے متحد ہے تو اُمت مسلمہ کیوں نہیں؟ ’’جو ہو نہ عشق مصطفی(ﷺ) تو ۔۔۔ زندگی فضول ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment