Monday, January 26, 2015

Jan2015: Cyber Security

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
سائبر سیکورٹی: داخلی و خارجی تناظر
عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کے داخلی محاذ پر جاری جنگ کسی قبائلی یا سرحدی علاقے تک محدود نہیں اور اس بات کا ذکر سولہ جنوری کو برطانیہ میں پاک فوج کے ترجمان کی بریفنگ میں بھی کیا گیا کہ ’’خاص اہداف کے خلاف کارروائیاں ملک بھر میں ہو رہی ہیں۔‘‘ تاہم ’سائبر سیکورٹی (انٹرنیٹ کے وسائل کا استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات)‘ کے حوالے سے تفصیلات کا ذکر نہیں کیا‘ جو ہتھیاروں‘ بارود اور خودکش حملوں کی طرح توجہ طلب ہے۔ ہمارے ہاں دہشت گرد کا تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ سر سے پاؤں تک مسلح دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ موبائل فون یا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کا استعمال کرنے والے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک کی حساس معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

المیہ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردوں کے بارے میں یہی تاثر عام ہے کہ وہ غاروں میں رہتے ہیں اور اُنہیں ٹیکنالوجی یا جدید ایجادات کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں لیکن حقیقت اِس کے برعکس اور سنجیدہ نوعیت کی ہے۔ دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے لیکر دھمکی آمیز پیغامات تک ہر روز ایک ہی اِی میل اُور ایک ہی ٹوئٹر اکاونٹ کا استعمال کرنے والے مختلف آئی پیز (پراکسیز) کا استعمال کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ موبائل فون کے غیررجسٹرڈشدہ کنکشنز ہیں۔ جس ملک میں دس کروڑ سے زائد موبائل فون کنکشن استعمال کرنے والوں کے کوائف ہی مشکوک ہوں وہاں کی ’سائبر سیکورٹی‘ کیونکر اور کیسے ممکن بنائی جا سکتی ہے! دفاع و دیگر حساس نوعیت کے معاملات سے متعلق تبادلۂ خیال (الیکٹرانک خط و کتابت چیٹنگ)‘ معیشت‘ اِقتصادیات‘ بینکاری‘ کاروباری‘ حصص منڈیاں الغرض صحت و تعلیم سمیت جملہ معاملات زندگی میں منصوبہ سازی سے عمل درآمد تک اِنٹرنیٹ کے وسائل پر انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے اُور پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں قواعد و ضوابط تو موجود ہیں لیکن اُن پر خاطرخواہ عمل درآمد کرانے میں حکومتی اداروں کی ساکھ متاثر کن نہیں‘ سائبر سیکورٹی ممکن بنانے کے لئے سب سے پہلا اقدام صرف اُنہیں ’موبائل فونز‘ پر انٹرنیٹ (ٹو‘ تھری یا فور جی) کی سہولت مہیا کی جائے‘ جن کے کوائف تصدیق شدہ اور پوسٹ پیڈ (ماہانہ بل والے فون کنکشن) ہوں۔ سائبر سیکورٹی کے حوالے سے انٹرنیٹ گھر‘ دفتر‘ دکان‘ تعلیمی ادارے یا کہیں بھی استعمال کرنے والے صارفین بھی خبردار رہیں کیونکہ دہشت گرد اُن کا انٹرنیٹ کنکشن استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ’وائی فائی (WIFI)‘ انٹرنیٹ والوں کو ہے‘ جو عموماً پاس ورڈ ہفتوں مہینوں تبدیل نہیں کرتے یا پھر کمپنی کی طرف سے فراہم کردہ (ڈیفالٹ) پاس ورڈ (password) ہی استعمال کرتے ہیں۔ محفوظ اور مشکل سے تلاش کیا جانے والا پاس ورڈ وہ ہوسکتا ہے جو ایلفا نومیرک (الفاظ اور ہندسوں) پر مشتمل ہو۔

انٹرنیٹ کی سہولت بظاہر معمولی سی لگتی ہے لیکن اس کے ذریعے نہ صرف خطرناک منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے بلکہ منصوبہ بندی کو عملی جامہ بھی پہنایا جاسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کو درپیش کئی ایک خطرات کے پیش نظر‘ امریکی صدر براک اوباما اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے باہمی تعاون کو تقویت دینے کا عہد کیا ہے‘ جس میں سائبر سکیورٹی شامل ہے۔ دونوں سربراہان نے وائٹ ہاؤس میں مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ فیصلہ فوری نوعیت کے اور بڑھتے ہوئے سائبر خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’باہمی تعاون کو فروغ دینے کا مقصد ہمارے زیریں ڈھانچے کو محفوظ بنانا‘ ہمارے کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنا اور امریکی و برطانوی باشندوں کی ’پرائیویسی میں مداخلت (نجی زندگی میں مداخلت کے امکانات ختم کرنے)‘ کے لئے عملی اقدامات شامل ہیں۔

دو عالمی طاقتیں امریکہ اور برطانیہ کے سربراہوں کے سرجوڑ کر بیٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ چوبیس نومبر کو ’سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ‘ پر تباہ کن حملوں اور اس ہفتے ’امریکی سنٹرل کمانڈ‘ کے سماجی میڈیا اکاؤنٹس ہیک کئے گئے۔ یاد رہے کہ محکمۂ دفاع کی سنٹرل کمانڈ کے جو اکاونٹ ہیک کئے گئے وہ سماجی رابطہ کاری کے اکاؤنٹس تھے جن کے ذریعے امریکی قیادت عراق اور شام میں داعش کے خلاف جاری فضائی حملوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھی۔ سائبر سیکورٹی پر بات چیت کے علاؤہ امریکہ و برطانیہ کی سیاسی قیادت کے درمیان جمہوری اسلامی ایران کا جوہری پروگرام بھی زیربحث رہا جس کے بارے میں دونوں ممالک ’یقینی طور پر اس غلط فہمی‘ کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیں گے۔ مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق‘ توقع ہے کہ دونوں عالمی سربراہان مشترکہ ’سائبر وار گیمز‘ کے بارے میں اپنے پروگرام کا اعلان کریں گے‘ جن کا آغاز رواں سال کے آخر میں بینکوں پر علامتی حملے کے مظاہرے سے ہوگا۔ برطانیہ نے امریکہ سے باضابطہ درخواست کر رکھی ہے کہ وہ گوگل (Google) اور فیس بک (Facebook) جیسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے کہیں کہ وہ حکومتوں کو یہ اجازت دیں کہ وہ کسی بھی صارف کی ’انکرپٹڈ‘ سرگرمیوں (مواصلات‘ بات چیت‘ تصاویر اور پیغامات کے علاؤہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے رجحان سے متعلق) تاک جھانک کرسکیں۔

 امریکی قومی سلامتی کے ادارے (این ایس اے) سے متعلق انکشافات پر سامنے آنے والے وسیع تر عوامی احتجاج کے تناظر میں یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے‘ جس ادارے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس نے لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون ریکارڈ پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں ’سائبر سیکورٹی‘ کے حوالے سے اِس قدر تشویش پائی جاتی ہے تو ہمارے رہنماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کی دیکھا دیکھی ہی سہی اپنے ہاں ’سائبر وسائل (ٹیکنالوجی)‘ کے محفوظ استعمال کو ممکن بنانے کے لئے کم از کم موجود قواعد پر عمل درآمد ہی ممکن بنائیں۔ یہ نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکورٹی کے لئے اشد ضروری ہے بلکہ اگر خدانخواستہ پاکستان کی سرزمین سے کسی یورپی و امریکی حکومتی یا نجی ادارے پر سائبر حملہ ہوا‘ تو اس سے ہماری ساکھ مزید خراب ہوگی یقیناًہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کے لئے ’سائبر مجرموں کی پناہ گاہ‘ جیسے منفی القابات استعمال ہوتا دیکھے! ہمیں اپنی اور دوسروں کی ’سائبر سکیورٹی‘ کے حوالے سے سوچنا ہوگا لیکن کل سے نہیں بلکہ آج اور ابھی سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment