Monday, January 26, 2015

Jan2015: Special Persons

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
افراد باہم معذور
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر دسواں پاکستانی بصارت سے محروم ہے؟ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آنکھوں کی بینائی نہ رکھنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے کہ جسمانی لحاظ سے کمزوریوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے خصوصی افراد کی تعداد 15 فیصد ہے‘ اِس میں صرف پیدائشی معذور ہی شامل نہیں بلکہ قدرتی آفات‘ حادثات اور دہشت گردی کے باعث بڑی تعداد متاثرین غیرمعمولی اور غیرمساعد حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ جن کے بارے میں فیصلہ سازوں کی توجہ اور ترجیحات کا احوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک قانون زیربحث ہے اور دیگر سیاسی الجھنوں کی وجہ سے انتہائی ضروری قانون سازی کا عمل رکا ہوا ہے! خصوصی اَفراد کے لئے عمومی سماجی روئیوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عمومی طور پر ’خصوصی افراد‘ کے لئے ’معذور افراد‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس پر اِن حساس طبعیت رکھنے والوں کو صرف اعتراض ہی نہیں بلکہ دکھ ہے اور وہ ہم سب سے دو بنیادی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں ۔۔۔ 1: اُنہیں ’افراد باہم معذور‘ کہا جائے یعنی معاشرہ اُنہیں پہلے ’معذور‘ پکارنے کی بجائے ایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کرے اور 2: ترس کھا کر نہیں بلکہ انہیں پاکستانی سمجھ کر دیگر افراد کی طرح ’مساوی و جائز‘ مقام دیا جائے۔ معاشرے میں اِن افراد کے لئے پائی جانے والی سوچ درست نہیں کہ وہ بوجھ ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو تندرست و توانا اَفراد کے مقابلے زیادہ جدوجہد اور عملی زندگی میں کچھ کر گزرنے کی لگن انہی میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ یہ ہار نہ ماننے والے نفوس ترس کے نہیں بلکہ ’توجہ کے مستحق‘ ہیں۔ عالمی سطح پر ’افراد باہم معذور‘ خاص مقام رکھتے ہیں اور اُنہیں دیگر افراد کی نسبت زیادہ سہولیات و مراعات دی جاتی ہیں۔ اُن کے لئے پارکنگ الگ سے مخصوص ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں ان کی آمدورفت کو ذہن رکھتے ہوئے تعمیرات کی جاتی ہیں۔ علاج گاہوں کی تو بات ہی الگ ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اِن خصوصی افراد کی قدر تو کیا اِن سے معاملہ کرتے ہوئے اخلاقیات تک کا خیال نہیں رکھا جاتا۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے پچیس نابینا طلباء و طالبات کے لئے چار ہفتوں پر مشتمل ’خصوصی کمپیوٹر اور اعتماد سازی کورس‘ کا آغاز سولہ دسمبر کے روز ایبٹ آباد میں ایک سادہ سی تقریب سے ہوا۔ جس کے لئے جملہ اخراجات مخیر حضرات اور خصوصی و روائتی تعلیم کے نجی اداروں نے برداشت کئے حالانکہ یہ ذمہ داری سراسر متعلقہ حکومتی اداروں کی تھی‘ جنہیں شاید خبر بھی نہیں ہوگی کہ ’چناروں کے سائے‘ میں ہونے والی ایک تقریب میں پورے صوبے سے نابینا افراد جمع ہیں‘ جن کا سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات اُن کا سرکاری طورپر استقبال تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا ’خود پر یقین‘ رکھنے والے یہ افراد معذور نہیں بلکہ ’پورا معاشرہ‘ معذور ہے‘ جسے ایسے باہمت و باحوصلہ اَفراد کی خاطرخواہ قدر نہیں!

انفارمیشن ٹیکنالوجی (کمپیوٹرز و اِنٹرنیٹ) کے اِستعمال سے خصوصی اَفراد معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح فعال کردار اَدا کرسکتے ہیں اُور اِسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہری پور کے ایک ادارے ’ایم پاور (EmPower)‘ جس کے سربراہ بابر شہزار اور اُن کی اہلیہ ثناء اقبال خود بھی نابینا ہیں اور بھارت سے حال ہی میں خصوصی اَفراد کے لئے ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے ہیں‘ جہاں جرمن حکومت کی جانب سے تکنیکی مہارت کے موقع سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا اور وطن واپس لوٹ کر دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ’اپنی مدد آپ کے تحت‘ ایک تربیتی کورس کا انتظام کیا۔ کیا آپ بصارت رکھنے والے ایسے کسی فرد کا نام جانتے ہیں‘ جس نے بیرون ملک تربیت حاصل کی ہو اور وطن واپس لوٹ کر اپنی مدد آپ کے تحت علم و حکمت کے موتی بکھیرے ہوں؟ تلخ حقیقت ہے کہ جہاں حکومت کے وسائل پر نعمتوں سے مالا مال ناشکرے قابض ہیں‘ وہیں ’افراد باہم خصوصی‘ دوسروں سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے اپنی ہی دنیا میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی تعریف کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی (وائس پرنسپل ایوب میڈیکل کالج) نے خصوصی افراد کی محنت و لگن کو ’مشعل راہ‘ قرار دیا۔ پروفیسر شمس‘ ثاقب اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن آصف خان جدون نے بھی اپنی اپنی تقاریر میں خصوصی افراد کے جذبے اور ہمت کو خراج تحسین پیش کیا۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ تو معذور افراد کو حسب اعلانات و قواعد (کوٹے) کے تحت ملازمتیں دی جاتی ہیں اور نہ ہی ہمارا گردوپیش ایسا ہے جو خصوصی افراد کے موافق ہو۔ سفید چھڑی کی قدر و اہمیت سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے‘ مصروف شاہراہوں کو عبور کرنے یا دفاتر میں روزمرہ کے کام کاج کے سلسلے میں رجوع کرنے والے خصوصی اَفراد کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُس کا مفصل بیان ممکن نہیں۔ وقت نے ڈاکٹر سلمیٰ کنڈی کی اِس یقین دہانی کو محفوظ کر لیا ہے کہ ’’وہ خصوصی افراد کے لئے قانون سازی کے مراحل تیز کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں گی۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment