ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تیس دن
تیس دن
اِٹلی کے معروف شاعر‘ ناول نگار اور عملی‘ اَدبی حلقوں میں مترجم کے طور پر
معتبر صاحب فکر ’سیّازارے پاوّیسہ (Cesare Pavese)‘ کا قول ہے کہ ’’ہمیں
اَیام یاد نہیں رہتے‘ ہمارے حافظوں میں لمحے محفوظ رہ جاتے ہیں۔‘‘ اِس
دانشمندانہ قول کی حقیقت دیکھئے کہ سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ کا دُکھ
اور وہ کربناک لمحات نہ تو یادوں سے محو ہو سکے ہیں اُور نہ ہی طفل تسلیوں
اور جھانسوں سے انہیں تحلیل کیا جاسکتا ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ ایسے
واقعات کی روک تھام کے لئے ایک ماہ (720 گھنٹے‘ 43ہزار 200 منٹ‘ 4 ہفتے 2
دن یا 25 لاکھ 92 ہزار سیکنڈز) میں ایسے کون کون سے حفاظتی اِنتظامات کئے
گئے ہیں‘ جن پر اِطمینان کا اظہار کیا جا سکے۔ سانحۂ پشاور اور ذرائع ابلاغ
کا کردار بھی ایک ایسا موضوع ہے جو توجہ چاہتا ہے کیونکہ اِس دوران
الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں ہونے والی رپورٹنگ کا معیار اپنی جگہ تنقید کا
نشانہ بنتا رہا ہے اور فکر کا تیسرا پہلو اُن متاثرہ خاندانوں کے جذبات‘
اِحساسات‘ تحفظات اور تاثرات ہیں‘ جنہیں ’شہدأ فورم‘ کے نام سے ایک ایسا
’پلیٹ فارم‘ بنانے کی ضرورت پڑی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق یعنی تعلیمی اداروں
کے معاملات کے حوالے سے مطالبات منوا سکیں یقیناًحقوق بخوشی دیئے نہیں جاتے
بلکہ انہیں حاصل کرنا بلکہ بہت سے مواقعوں پر چھیننا بھی پڑتا ہیں اور یہی
بات ایک خاص نجی سکول سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھ آ گئی ہے۔ اِس سے قبل
والدین صرف یہی سمجھتے تھے کہ اُن کی ذمہ داری ماہانہ فیسوں اور سکولوں کی
جانب سے وقتاً فوقتاً غیرمستقل دیگر اَخراجات کی اَدائیگی تک محدود ہے۔ آنے
والے دنوں میں والدین کو زیادہ اہم‘ زیادہ بڑا اور زیادہ فعال کردار ادا
کرنا ہوگا کیونکہ اِس مرحلۂ فکر پر صرف بچوں کے تعلیمی مستقبل ہی کا نہیں
بلکہ درپیش مشکلات میں اُن کی زندگیوں کو لاحق خطرات بھی فہم و شعور سے کام
لیتے ہوئے تفکر و تدبر کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ماضی میں والدین کی جانب سے
خود کو باریکیوں سے الگ رکھنے کے ’طرز عمل‘ کی وجہ سے شعبۂ تعلیم ایک صنعت‘
بن گیا ہے۔ لمحۂ فکریہ نہیں تو اُور کیا ہے کہ ہمارے سکولوں‘ کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں پڑھائی کا معیار اِس حد تک گر چکا ہے کہ پہلے بعداز سکول
ٹیوشن کی ضرورت صرف سرکاری اداروں میں زیرتعلیم طالبعلموں کو پیش آتی تھی‘
جسے عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اب ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کرنے والے نجی
اداروں کے طالبعلم بھی عصر سے مغرب اور دیر رات گئے تک ٹیوشن سنٹروں میں
الجھے رہتے ہیں! دنیا کا دوسرا کونسا ایسا ملک ہے جہاں کے بچوں سے اُن کا
بچپن یوں تعلیم کے نام پر چھین لیا گیا ہو؟ کون پوچھے گا کہ تعلیمی اداروں
میں چھ سے آٹھ گھنٹے گزارنے کے باوجود طالب علموں کو اُن نجی ’ٹیوشن
سنٹروں‘سے اِستفادہ کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے‘ جنہیں ماہر و تجربہ
کار کہلانے والے اساتذہ ’سائیڈ بزنس‘ کے طور پر چلا رہے ہوتے ہیں؟ کہیں
اَیسا تو نہیں معزز ڈاکٹروں کی طرح اساتذہ کرام نے بھی اپنی مہارت و تجربے
سے ’پورا پورا‘ فائدہ اُٹھانے کو ’حلال‘ سمجھ لیا ہے؟
چودہ دسمبر کے روز متاثرین ’سانحۂ پشاور‘ نے ’شہدأ فورم‘ کے نام سے جس جدوجہد کا باضابطہ آغاز و اعلان کیا ہے‘ اُسے زیادہ وسیع البنیاد ہونا چاہئے تھا اور دیگر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے لئے بھی گنجائش رکھنی چاہئے تھی تاکہ ہر آمدنی اور پیشے کے لحاظ سے ہر طبقے اور آمدنی کی نمائندگی ہوسکے۔ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر اساتذہ کے کردار‘ تعلیم کے معیار اور بشمول تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات کے حوالے سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ہر ایک کو شعوری کوششوں اور ’ہراوّل دستے‘کا حصہ بننا ہوگا‘ کیونکہ اجتماعی جدوجہد ہی بابرکت اور باثمر ہو سکتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں منتخب عوامی نمائندے کہاں ہیں؟ اگر خود کو قانون ساز ایوانوں کا رکن کہلانے پر فخر محسوس کرنے اور مراعات پانے والوں میں احساس زندہ ہوتا تو والدین کو فکر اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ محکمۂ تعلیم اور وزارت تعلیم کے ہزاروں مراعات یافتہ ملازمین و نگران آخر کس مرض کی دوا ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں کیوں محدود ہو کر رہ گئیں ہیں؟
ایک ماہ گزرنے کے باوجود ’سانحۂ پشاور‘ کی یاد میں نہ تو ’یادگار کا تعین یا تعمیر‘ کی جاسکی ہے اور نہ ہی اِجتماعی اَفسوس یا اِظہار یک جہتی کے لئے ہاتھ آئے ایک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جاسکا ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ’آرمی پبلک سکول‘ جا پہنچتا ہے جو جتنا بڑا اور اہم (’وی وی آئی پی‘) اُسی قدر حفاظتی حصار میں اُسے سکول تک لیجایا جاتا ہے کسی کو پرواہ نہیں کہ یونیورسٹی روڈ سے پشاور شہر یا بیرون پشاور جانے والی ٹریفک کے بہاؤ کتنا متاثر ہوتا ہے۔ ایک طرف امریکی سفارتخانہ ہے جس نے پوری سڑک پندرہ برس سے بند کر رکھی ہے جو حیات ایونیو کو صدر سے ملاتی تھی اور دوسری طرف ’ورسک روڈ چوک‘ پر بھی آئے روز ٹریفک معطل رہتی ہے بالخصوص دیگر تعلیمی اداروں کو جانے والے اساتذہ اور بچوں کو جس زحمت سے گزرنا پڑتا ہے‘ اِس کا احساس کرنے والوں کا تعلق انتظامیہ سے نہیں۔ کیا خدا کے نام پر التجا کی جاسکتی ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ کے نمائشی دورے اور ’بچوں کے ساتھ تصاویر‘ بنوا کر سستی شہرت حاصل کرنے سے گریز کیا جائے؟ جو ہوچکا وہی نقصان و خسارہ کافی ہے۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ جہاں ناقابل تلافی جانی نقصانات ہوئے وہیں بہت سا وقت درس و تدریس معطل رہنے کی وجہ سے بھی ضائع ہوچکا ہے۔
کیا طالب علموں کا اُن کی پڑھائی پر توجہ مبذول کرنے‘ معصوم ذہنوں پر نقش ہونے والے لمحات کی چھبن سے آزادی اور شدید نوعیت کے اعصابی صدمے سے باہر آنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمارے ’وی وی آئی پیز‘ اُن والدین کی طرح سوچ سکتے ہیں‘ جنہیں معیار تعلیم کے ساتھ بچوں کی حفاظت کی فکر اندر ہی اندر سے کھائے جا رہی ہے؟ ’’ظاہر کرے تُو جو بھی مگر دل ملول ہے۔۔۔ مجھ سے کوئی بھی بات چھپانا فضول ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودہ دسمبر کے روز متاثرین ’سانحۂ پشاور‘ نے ’شہدأ فورم‘ کے نام سے جس جدوجہد کا باضابطہ آغاز و اعلان کیا ہے‘ اُسے زیادہ وسیع البنیاد ہونا چاہئے تھا اور دیگر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کے لئے بھی گنجائش رکھنی چاہئے تھی تاکہ ہر آمدنی اور پیشے کے لحاظ سے ہر طبقے اور آمدنی کی نمائندگی ہوسکے۔ خیبرپختونخوا اور بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور کی سطح پر اساتذہ کے کردار‘ تعلیم کے معیار اور بشمول تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات کے حوالے سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ہر ایک کو شعوری کوششوں اور ’ہراوّل دستے‘کا حصہ بننا ہوگا‘ کیونکہ اجتماعی جدوجہد ہی بابرکت اور باثمر ہو سکتی ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں منتخب عوامی نمائندے کہاں ہیں؟ اگر خود کو قانون ساز ایوانوں کا رکن کہلانے پر فخر محسوس کرنے اور مراعات پانے والوں میں احساس زندہ ہوتا تو والدین کو فکر اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ محکمۂ تعلیم اور وزارت تعلیم کے ہزاروں مراعات یافتہ ملازمین و نگران آخر کس مرض کی دوا ہیں اور اُن کی ذمہ داریاں کیوں محدود ہو کر رہ گئیں ہیں؟
ایک ماہ گزرنے کے باوجود ’سانحۂ پشاور‘ کی یاد میں نہ تو ’یادگار کا تعین یا تعمیر‘ کی جاسکی ہے اور نہ ہی اِجتماعی اَفسوس یا اِظہار یک جہتی کے لئے ہاتھ آئے ایک موقع سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھایا جاسکا ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ’آرمی پبلک سکول‘ جا پہنچتا ہے جو جتنا بڑا اور اہم (’وی وی آئی پی‘) اُسی قدر حفاظتی حصار میں اُسے سکول تک لیجایا جاتا ہے کسی کو پرواہ نہیں کہ یونیورسٹی روڈ سے پشاور شہر یا بیرون پشاور جانے والی ٹریفک کے بہاؤ کتنا متاثر ہوتا ہے۔ ایک طرف امریکی سفارتخانہ ہے جس نے پوری سڑک پندرہ برس سے بند کر رکھی ہے جو حیات ایونیو کو صدر سے ملاتی تھی اور دوسری طرف ’ورسک روڈ چوک‘ پر بھی آئے روز ٹریفک معطل رہتی ہے بالخصوص دیگر تعلیمی اداروں کو جانے والے اساتذہ اور بچوں کو جس زحمت سے گزرنا پڑتا ہے‘ اِس کا احساس کرنے والوں کا تعلق انتظامیہ سے نہیں۔ کیا خدا کے نام پر التجا کی جاسکتی ہے کہ ’آرمی پبلک سکول‘ کے نمائشی دورے اور ’بچوں کے ساتھ تصاویر‘ بنوا کر سستی شہرت حاصل کرنے سے گریز کیا جائے؟ جو ہوچکا وہی نقصان و خسارہ کافی ہے۔ ہم نہیں بھول سکتے کہ جہاں ناقابل تلافی جانی نقصانات ہوئے وہیں بہت سا وقت درس و تدریس معطل رہنے کی وجہ سے بھی ضائع ہوچکا ہے۔
کیا طالب علموں کا اُن کی پڑھائی پر توجہ مبذول کرنے‘ معصوم ذہنوں پر نقش ہونے والے لمحات کی چھبن سے آزادی اور شدید نوعیت کے اعصابی صدمے سے باہر آنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے؟ کیا ہمارے ’وی وی آئی پیز‘ اُن والدین کی طرح سوچ سکتے ہیں‘ جنہیں معیار تعلیم کے ساتھ بچوں کی حفاظت کی فکر اندر ہی اندر سے کھائے جا رہی ہے؟ ’’ظاہر کرے تُو جو بھی مگر دل ملول ہے۔۔۔ مجھ سے کوئی بھی بات چھپانا فضول ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment