Monday, January 26, 2015

Jan2015: PK45 Forgotten Promises

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
انتخابی وعدے: توجہ دلاؤ مطالبہ!
خیبرپختونخوا قانون ساز اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ کے لئے ضمنی عام انتخابات کے موقع پر صوبائی حکومت اور حکمراں اِتحاد کی قیادت کرنے والی جماعت ’تحریک انصاف‘ کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے جو وعدے کئے گئے تھے‘ اُن کی تعمیل ’حسب وعدہ‘ نہیں ہو سکی۔ اِس سلسلے میں سرکل بکوٹ کی آٹھ یونین کونسلوں (بکوٹ‘ بیروٹ‘ بوئی‘ پٹن کلاں‘ دلولہ‘ ککمنگ‘ نمبل اور پلک) سے تحریک انصاف کے کارکنوں نے رکن قومی اسمبلی (این اے سترہ) ڈاکٹر محمد اظہر خان جدون کی وساطت سے ایک درخواست صوبائی حکومت اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو ارسال کی ہے‘ جس میں اُنہیں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کئے گئے وعدے یاد دلائے گئے ہیں۔

یادش بخیر ’ہزارہ ڈویژن‘ جنت نظیر وادیوں اور سیاحت کے امکانات سے مالامال خطہ ہے جس کے ’سرکل بکوٹ‘ کا کچھ حصہ مقبول عام ’گلیات‘ کا حصہ ہے لیکن بہت کم پاکستانی جانتے ہوں گے کہ ’گلیات سے زیادہ سرسبزوشاداب اور قدرتی حسن رکھنے والی دیگر کئی ایک وادیاں بھی ہیں‘ جہاں تک رسائی آسان اور سہولیات نہ ہونے کے سبب‘ اِن علاقوں میں صحت و تعلیم جیسی بنیادی ضروریات جبکہ سیاحت جیسا اہم شعبے خاطرخواہ ترقی سے محروم ہے۔ امن و امان اور خوشگوار موسم و صحت افزأ مقام ہونے کے باوجود اِن علاقوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ یہ بات ’سرکل بکوٹ‘ کی بدقسمتی نہیں تو اُور کیا ہے کہ اِس کی یونین کونسلیں آپس میں منسلک نہیں اور اس کی وجہ وہ اُنیس کلومیٹر کی شاہراہ ہے‘ جس پر تعمیراتی کام اگر انتہائی سست روی سے بھی جاری رہتا تو تیس برس میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے اور اہل علاقہ یہ بات پورے یقین و ذمہ داری سے بیان کرتے ہیں کہ ’’اُنہیں جان بوجھ کر پسماندہ اور ترقی سے محروم رکھا گیا ہے‘ جس کے سیاسی محرکات ہیں۔‘‘ افسوس ایسی تعصب والی سوچ اور سیاست پر‘ کہ جس میں عوام کو محکوم رکھا جائے لیکن کیا گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے لئے ’تحریک انصاف‘ کو ووٹ دینے والوں کی جملہ توقعات پوری ہوئی ہیں؟ یہ ایک ایسا چھبتا ہوا سوال ہے جس کا تحریک انصاف کی مرکزی قیادت جواب دینے سے کتراتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ضلع ایبٹ آباد سے کئے گئے جملہ ترقیاتی وعدے ہنوز پورے نہیں کئے گئے۔

پی کے پینتالیس کے ضمنی انتخابات سے قبل چیئرمین عمران خان نے سرکل بکوٹ میں چار جلسۂ عام جبکہ متعدد مقامات پر غیراعلانیہ درجن بھر چھوٹے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور کارکنوں سے وعدہ کیا کہ وہ سرکل بکوٹ کو تحصیل کا درجہ دیں گے جو کہ اہل علاقہ کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا لیکن اِس وعدے کی تکمیل سے قبل ’بوئی سوار گلی روڈ‘ کا 19 کلومیٹر حصہ تعمیر ہونا ضروری ہے۔ اُن کا دوسرا وعدہ ضلع ایبٹ آباد کو چھ کالج دینے کا تھا۔ اگر اِس سلسلے میں سرکل بکوٹ کو دو عدد کالج بھی دے دیئے جاتے ہیں تو یہ فی الوقت آبادی کے تناسب سے ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہوگا۔ گذشتہ برس پی کے پینتالیس کے ضمنی عام انتخابات کے موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بھی ترقیاتی کاموں کے چند ایک ’ضمنی وعدے‘ کئے تھے جن میں گلیات و سرکل بکوٹ کے لئے ’ایک ارب روپے‘ مالیت کے مختلف ترقیاتی منصوبے یعنی مالی وسائل دینے کا اعلان کیاگیاتھا۔یہ سبھی وعدے ’آن دی ریکارڈ‘ ہیں۔ اِسی طرح وزیراعلیٰ نے ایبٹ آباد میں جلسۂ عام سے خطاب کے دوران یونیورسٹی کے قیام اور شاہراہوں کی توسیع کے لئے جس خصوصی ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رکھا ہے اُس حوالے سے بھی رکن قومی اسمبلی نے اُن کی توجہ چاہی ہے کیونکہ سب سے زیادہ مشکل تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے مقامی منتخب نمائندوں کو پیش آ رہی ہے جنہیں کارکنوں کی جانب سے نرمی و گرم گلے شکوے جبکہ سیاسی مخالفین کی جانب سے چھبتے ہوئے طنز و کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں این اے سترہ (ایبٹ آباد) کے لئے ’تین لاکھ تیرہ ہزار آٹھ سواٹھارہ‘ رجسٹرڈ ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے حصے میں ’چھیانوے ہزار ایک سو پچاسی‘ ووٹ آئے جس میں بڑا حصہ ’سرکل بکوٹ‘ سے ملنے والی فیصلہ کن و فاتح تائید تھی۔ یہ وہی علاقہ ہے جو تین عشروں تک پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا گڑھ رہا اور اِس بارے میں تصور بھی نہیں جاسکتا تھا کہ نواز لیگ کو یہاں سے شکست دی جاسکے گی لیکن ’سماجی خدمت جیت گئی‘ اور تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ اگر تحریک آگے چل کر بھی دانشمندانہ فیصلے کرتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے ضمنی انتخاب بھی تحریک انصاف ہی کے نام ہوتا۔

غلطیوں کی اصلاح غلطیوں سے نہیں کی جاتی۔ ضرورت تو اِس بات کی تھی کہ ڈاکٹر اظہر جدون کو خود طلب کرکے تمام انتخابی وعدے پورے کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی اور مرکزی و صوبائی قائدین ضلع ایبٹ آباد بشمول سرکل بکوٹ جیسے دیہی و پہاڑی علاقے کی اہمیت کو سمجھتے جہاں محرومیوں اور مایوسیوں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسا تاحال نہیں ہو سکا۔ اس سلسلے میں منتخب نمائندے نے ’حق نمائندگی‘ پورا کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو تحریری طورپر آگاہ کر دیا ہے کہ ’’سرکل بکوٹ کی قسمت بدلنے کے لئے جس کسی نے‘ جو بھی وعدے کر رکھے ہیں‘ برائے مہربانی انہیں اگر بیک وقت نہ سہی لیکن مرحلہ وار انداز میں پورا کیا جائے۔‘‘ قوئ اُمید ہے کہ یہ ایک توجہ دلاؤ مطالبہ ’نقار خانے میں طوطی کی آواز‘ ثابت نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment