ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
رائیگاں اَیام
رائیگاں اَیام
سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کے لئے مرتب کی جانے والی
اَٹھائیس نکاتی حکمت عملی میں درس و تدریس کے اُوقات میں ’موبائل فون‘ کے
اِستعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکول کی اِنتظامیہ کو
احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ طالبعلموں اور تدریسی و دیگر متعلقہ عملے کے
سے موبائل فون ہر صبح جمع کئے جائیں اور تعلیمی اداروں کے اوقات کے دوران
کسی کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ایک ایسا
حکم ہے‘ جس پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی موبائل فون اپنی ساخت
کے لحاظ سے اِس حد تک خطرناک یا مضر ہیں کہ اُن کے وجود ہی سے نفرت کی
جائے۔ اگر تمام طالبعلم‘ اساتذہ اور دیگر عملہ موبائل فون نہ رکھتے ہوں اور
خدانخواستہ اُس سکول میں مسلح دہشت گرد گھس آئیں‘ جن کے بارے میں اطلاع
دینے کی انتظامیہ کو مہلت نہ ملے تب کیا ہوگا۔ اصولی طور پر تعلیمی اداروں
میں موبائل فون جیمرز (jammers) نصب کرنے چاہیءں تاکہ کوئی بھی شخص اگر
موبائل فون کے ساتھ سکول کے اندر آتا ہے یا سکول کی دیوار یا اندرونی احاطے
میں ایسے بم نصب کئے جاتے ہیں جن کا کنٹرول موبائل فونز کی سموں سے کیا
جاتا ہے تو اِس امکان کو ختم کیا جاسکے۔ موبائل فون بطور آلہ خوبیوں اور
خامیوں کا مرکب ہے اور یہ خوبیاں خامیاں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہیں۔
مثال کے طور پر بارہ جنوری کے روز ایوان بالا (سینیٹ) کو بتایا گیا کہ
’’پاکستان میں دس کروڑ سے زائد ایسے کنکشن ہیں جن کی تصدیق ہونا ابھی باقی
ہے۔ ملک میں کل پندرہ کروڑ موبائل فون کنکشنز ہیں جن میں سے چار کروڑ کی
تصدیق ہو چکی ہے جبکہ باقی دس کروڑ سے زائد کی ’بائیو میٹرک تصدیق‘ کا عمل
آئندہ چار ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا جس کے لئے وفاقی حکومت ہرصوبے کو
ایک ایک ہزار افراد پر مشتمل عملہ فراہم کرے گی۔‘‘ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ
کسی ایک بھی سینیٹر نے موبائل فون (ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے حرص و طمع کو
نشانہ نہیں بنایا جنہوں نے خالصتاً اپنے منافع کے لئے پاکستان کی داخلی و
خارجی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ جب ’پاکستان ٹیلی کیمونیکشن
اتھارٹی (پی ٹی اے)‘ کی جانب سے موبائل فون کنکشن جاری کرنے کے لئے واضح
ہدایات موجود ہیں اور کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ میں درج کوائف کی بناء
تصدیق فون کنکشن نہیں دیا جاسکتا تو پھر کروڑوں کی تعداد میں موبائل فون
کنکشن کیسے فروخت کر دیئے گئے؟ دوسری اہم بات موبائل فونز کی رومنگ
(roaming) سے متعلق ہے‘ جب ’پی ٹی اے‘ کے واضح احکامات موجود ہیں اور دہشت
گردی کے خطرات کے پیش نظر اضافی قواعد سے موبائل فون کمپنیوں کو مطلع کر
دیا گیا ہے کہ وہ بیرون پاکستان رجسٹرڈ موبائل کنکشنز کی رومنگ ختم کردیں
تو اِس قاعدے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ گلی گلی اور دکان دکان
موبائل فون کی سموں فروخت ہونے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ پاکستان میں
امن وامان کی صورتحال کے لئے اگر خطرہ ہے‘ تو اس سے سرمایہ داروں کو کوئی
خطرہ نہیں کیونکہ جہاں وہ رہتے ہیں اُن علاقوں کو زونز میں تقسیم کرکے
محفوظ بنا لیا گیا ہے!
خیبرپختونخوا سمیت دیگر صوبوں میں ہوئے بم دھماکوں سے متعلق خود وزارت داخلہ کی رپورٹیں اور وزیر داخلہ کے بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں کہ اُن میں موبائل فون کی سمیں استعمال کی گئیں اور منظم جرائم پیشہ گروہ بھی انہی مواصلاتی رابطوں کا استعمال دہشت گرد کارروائیوں کے لئے کر رہے ہیں تو پھر اِس تخریب کاری کے اِمکان کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ سینیٹرز کیوں نہیں کہتے کہ ’’موبائل فون کمپنیاں اِس پوری صورتحال کے لئے ذمہ دار ہیں‘ جنہیں تصدیق کے جاری مرحلے کے جملہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے؟‘‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے قانون ساز ایوان بالا و زریں کے اراکین کے مفادات بھی موبائل فون کمپنیوں کے منافع سے جڑے ہوں؟
خیبرپختونخوا میں تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے لئے احکامات جاری کرنے پر اکتفا مسئلے کا حل نہیں۔ ضرورت سیکورٹی عملاً دکھائی دینے کی ہے جس کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن پر اساتذہ‘ والدین اور بچوں کو اطمینان ہو۔ بارہ جنوری سے میدانی علاقوں میں درس و تدریس کا عمل بہت سے خدشات اور تحفظات کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری تعلیمی اِداروں میں حفاظتی انتظامات کی حالت سولہ دسمبر کے روز جیسی ہی ہے‘ جب ’آرمی پبلک سکول‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبرپختونخوا میں طلباء و طالبات کے لئے 23 ہزار 290 پرائمری‘ 2 ہزار 639 مڈل‘ 2 ہزار 29 ہائی اور 361 ہائر سیکنڈری سکولز ہیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2014-15ء کے لئے 234صفحات پر مشتمل سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں دو صفحات پر آٹھ نئے منصوبوں کے لئے مالی وسائل مختص کئے گئے اور جب یہ ترقیاتی حکمت عملی مرتب ہو رہی تھی‘ تب ’سولہ دسمبر‘ پیش آنے سے متعلق امور کسی کے دھیان میں نہیں تھے۔ فی الوقت سب سے زیادہ خطرہ سرکاری تعلیمی اداروں کو ہے‘ جہاں نہ تو دیواریں بلند ہونے کا کام مکمل ہوسکا ہے اور نہ ہی کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کی تنصیب ہو سکی ہے۔ سکولوں کی حفاظت کے لئے افرادی قوت بھی وہی ہے‘ جو کئی ایک مقامات پر اعلیٰ حکام کے رہائشگاہوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’سولہ دسمبر سے بارہ جنوری‘ تک کی تعطیلات کا عرصہ ضائع کیا گیا‘ حالانکہ سکولوں کی اِن طویل تعطیلات میں ایسا بہت کچھ کیا جاسکتا تھا‘ جس سے والدین‘ اساتذہ اور سرکاری سکولوں کے ملازمین کی تشویش میں کچھ نہ کچھ‘ اُور کسی نہ کسی حد تک کمی لائی جاسکے۔ ’’آج بھی دھڑکنیں معمول پہ ہیں۔۔۔آج کا دن بھی رائیگاں گزرا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیبرپختونخوا سمیت دیگر صوبوں میں ہوئے بم دھماکوں سے متعلق خود وزارت داخلہ کی رپورٹیں اور وزیر داخلہ کے بیانات ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہیں کہ اُن میں موبائل فون کی سمیں استعمال کی گئیں اور منظم جرائم پیشہ گروہ بھی انہی مواصلاتی رابطوں کا استعمال دہشت گرد کارروائیوں کے لئے کر رہے ہیں تو پھر اِس تخریب کاری کے اِمکان کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ سینیٹرز کیوں نہیں کہتے کہ ’’موبائل فون کمپنیاں اِس پوری صورتحال کے لئے ذمہ دار ہیں‘ جنہیں تصدیق کے جاری مرحلے کے جملہ اخراجات برداشت کرنا ہوں گے؟‘‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے قانون ساز ایوان بالا و زریں کے اراکین کے مفادات بھی موبائل فون کمپنیوں کے منافع سے جڑے ہوں؟
خیبرپختونخوا میں تعلیمی اِداروں کی سیکورٹی کے لئے احکامات جاری کرنے پر اکتفا مسئلے کا حل نہیں۔ ضرورت سیکورٹی عملاً دکھائی دینے کی ہے جس کے لئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن پر اساتذہ‘ والدین اور بچوں کو اطمینان ہو۔ بارہ جنوری سے میدانی علاقوں میں درس و تدریس کا عمل بہت سے خدشات اور تحفظات کے ساتھ شروع کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری تعلیمی اِداروں میں حفاظتی انتظامات کی حالت سولہ دسمبر کے روز جیسی ہی ہے‘ جب ’آرمی پبلک سکول‘ کو نشانہ بنایا گیا۔ خیبرپختونخوا میں طلباء و طالبات کے لئے 23 ہزار 290 پرائمری‘ 2 ہزار 639 مڈل‘ 2 ہزار 29 ہائی اور 361 ہائر سیکنڈری سکولز ہیں۔ یاد رہے کہ مالی سال 2014-15ء کے لئے 234صفحات پر مشتمل سالانہ ترقیاتی پروگرام (اے ڈی پی) میں دو صفحات پر آٹھ نئے منصوبوں کے لئے مالی وسائل مختص کئے گئے اور جب یہ ترقیاتی حکمت عملی مرتب ہو رہی تھی‘ تب ’سولہ دسمبر‘ پیش آنے سے متعلق امور کسی کے دھیان میں نہیں تھے۔ فی الوقت سب سے زیادہ خطرہ سرکاری تعلیمی اداروں کو ہے‘ جہاں نہ تو دیواریں بلند ہونے کا کام مکمل ہوسکا ہے اور نہ ہی کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کی تنصیب ہو سکی ہے۔ سکولوں کی حفاظت کے لئے افرادی قوت بھی وہی ہے‘ جو کئی ایک مقامات پر اعلیٰ حکام کے رہائشگاہوں پر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
یہ بات شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’سولہ دسمبر سے بارہ جنوری‘ تک کی تعطیلات کا عرصہ ضائع کیا گیا‘ حالانکہ سکولوں کی اِن طویل تعطیلات میں ایسا بہت کچھ کیا جاسکتا تھا‘ جس سے والدین‘ اساتذہ اور سرکاری سکولوں کے ملازمین کی تشویش میں کچھ نہ کچھ‘ اُور کسی نہ کسی حد تک کمی لائی جاسکے۔ ’’آج بھی دھڑکنیں معمول پہ ہیں۔۔۔آج کا دن بھی رائیگاں گزرا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment