ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مبنی بر مفادات: سیاست!
مبنی بر مفادات: سیاست!
وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور میں ایک مشیر کا ’پرسکون و پراسرار‘ کمرہ ’گوشۂ
عافیت‘ سے کم نہیں تھا۔ دو درجن سے زائد انرجی سیور بلبوں سے جگمگانے والے
اِس کمرے میں ایک وسیع و عریض میز‘ درآمد شدہ آرام دہ کرسی اور اُس کی
بائیں جانب بجلی کا ہیٹر جل رہا تھا‘ جو شاید سورج طلوع ہونے سے قبل ہی آن
کر دیا گیا ہوگا۔ یہ منطق سمجھ سے بالاتر تھی کہ ایک طرف تو بجلی بچانے کے
لئے ’انرجی سیور بلب‘ استعمال کئے جا رہے تھے اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ
ایک ہی کمرے میں دو درجن بلب کیا معنی رکھتے تھے اگر بجلی کی بچت ہی مقصود
تھی تو پھر تین ہزار واٹ کا ہیٹر کیوں استعمال کیا جارہا تھا۔ حقیقت یہ ہے
کہ ہمارے قول و فعل اور فکر و تفکر کے زوائیوں میں تضادات ہیں۔ کم وبیش یہی
منظر اُس عمارت کے کئی ایک کمروں میں تھا‘ جس کی راہداریاں سرد اور کمرے
اس قدر گرم تھے کہ باہر سے آنے والوں کو کچھ ہی دیر بعد خود کو ہلکا کرنے
کی ضرورت پیش آتی۔ جو پانی طلب کرتا اُسے گلاس پیش کرنے کی بجائے ’منرل
واٹر‘کی ایک عدد ’چھوٹی دستی بوتل‘ تھما دی جاتی‘ جس کی قیمت (اگر ہول سیل
میں خریدی گئی ہو) تو بیس روپے سے کم نہیں تھی۔ سرکاری خزانے سے مہمانوں کی
تواضع دو گلاس پانی یعنی بیس روپے سے کی جا رہی تھی‘ جس کے بعد چائے اور
قہوہ حسب عہدہ نہایت ہی باادب‘ احترام اور نفاست کے ساتھ پیش کئے جا رہے
تھے۔ کم و بیش چار درجن کمروں میں ہر ایک کمرے میں ’سرکاری خزانے سے مہمان
نوازی‘ کا یہی حال تھا‘ ایک ہی طرح کا کام کرنے کے لئے کئی کئی ملازمین تھے
جن کی شان‘ بول چال اور نازک اندامی سے اُٹھنے بیٹھنے کے انداز ہی نرالی
تھے۔ یہاں ہونے والا چراغاں اور خوردونوش سمیت جملہ اخراجات خیبرپختونخوا
کا وہ عام آدمی برداشت کر رہا تھا‘ جس کا اِن ایوانوں میں داخلہ ممنوع ہے
اور اگر اِن راہداریوں اور آسائشوں کی تصاویر کسی دیہی یا شہری علاقے کے
رہنے والوں کو دکھائی جائیں تو وہ بوجھ بھی نہیں پائیں گے کہ یہ کون سی جگہ
ہے اور یہ آقا نظر آنے والے لوگ کون ہیں! افسرشاہی کا سرکاری وسائل سے
’اِنصاف‘ کس قدر ’مبنی برانصاف‘ ہے‘ اِس بارے سوچنے کے لئے موضوعات کی کمی
نہیں۔ سردست اُس چھت تلے موجود اراکین صوبائی اسمبلی کی ایک دوسرے سے بات
چیت کا احوال سنیئے جو ایک ایسی قانون سازی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا
اظہار کررہے تھے جس کی منظوری کی صورت سیاست دانوں کے ذاتی کاروباری‘ اور
سیاسی مفادات کا تعین کرتے ہوئے انہیں کوئی بھی ایسی انتظامی ذمہ داری یا
ایسے شعبے سے متعلق فیصلہ سازی کا اختیار نہیں دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر
اگر کوئی رکن اسمبلی یا اُس کا خاندان لکڑی کی فروخت کا کاروبار کرتا ہے
تو ایسے رکن اسمبلی کو جنگلات کی وزارت نہیں دی جائے گی!
معلومات تک رسائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی یہ دوسری ’غیرمعمولی قانون سازی‘ ہوگی (اگر ہو جائے تو)‘ جس سے بہتر و شفاف طرز حکمرانی (گڈ گورننس) کے اہداف حاصل کرنے میں نہ صرف موجودہ دور حکومت بلکہ آنے والی حکومتوں کے ادوار میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ دنیا کے جمہوری معاشروں میں ایسے قوانین و قواعد پہلے ہی سے موجود ہیں جن کی وجہ سے سیاست دان ایسا عملی وفکری کردار نہیں رکھتے جس سے اُن کے ’خالصتاً اُنہی کے مفادات کا تحفظ‘ ہو۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسی مثال بھی نہیں ملتی کہ برسراقتدار افراد خود ایسے کاروبار کریں جن کے بارے میں قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا اطلاق بھی خود اُنہیں کے ہاتھ میں ہو۔ یہ خرابی صرف اور صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے جس کا علاج بذریعہ قانون کرنے کی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ دس جنوری کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی نے معاملہ نمٹانے کی بجائے اِسے مزید طول دے دیا ہے اور اب فیصلہ یہ ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں جملہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے نئی قانون سازی کے حوالے سے مشاورت اور نئے مجوزہ قانون کی ہر ایک شق کا جائزہ لیا جائے حالانکہ یہ معاملہ بالکل ’سیدھا اور سادا‘ ہے۔ اِس میں کوئی ابہام‘ شک و شبہ اور اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ فیصلہ سازی اور قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ مختلف رعایتیں دینے کا اختیار صرف اور صرف اُن کے پاس ہونا چاہئے جن کے اپنے مفادات اُس فیصلے سے وابستہ نہ ہوں لیکن جس انداز میں اراکین اسمبلی نجی محفلوں میں اِس نئی قانون سازی سے متعلق تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ذاتی مفادات اور اجتماعی مفادات کے درمیان تمیز ہونا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔ یاد رہے کہ6جون 2014ء کے روز صوبائی اسمبلی میں ’مفادات سے متصادم‘ قانون سازی کا مسودہ پیش کیا گیا تھا جسے فی الفور اور خندہ پیشانی سے منظور کرنے کی بجائے قومی وطن پارٹی کے پارلیمانی رہنما کی جانب سے متعدد اعتراضات اور ترامیم پیش کی گئیں‘ جس کے بعد 19 نومبر کے روز قانون کو ’جامع‘ بنانے کے لئے حسب قواعد ’سلیکٹ کمیٹی‘ کے سپرد کردیا گیا۔ 10جنوری کو جب سلیکٹ کمیٹی نے اِس مسودۂ قانون پر بحث کا آغاز کیا تو ذرائع کے مطابق ’’ہر سیاسی جماعت کو اِس مسودۂ قانون میں اِستعمال کئے گئے لب و لہجے اور الفاظ پر اعتراضات ہیں!‘‘
مشیر کی آمد سے قبل باآواز بلند سرگوشیوں میں ایک رکن اسمبلی نے ساتھیوں سے سوال کیا ۔۔۔ ’’کیا حکومت ہمیں پچاس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دیتی ہے جو قانون کے ذریعے پابندی عائد کی جا رہی ہے کہ ہم ذاتی کاروبار نہیں کریں گے اور کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے جو کسی مالی فائدے سے جڑی ہو؟‘‘ تائید میں سر ہلائے جا رہے تھے کہ دراز قد مشیر صاحب داخل ہوتے ہیں‘ سب نے کھڑے ہو کر استقبال کیا‘ مسکراہٹوں اور قہقوں کی گونج میں گرمجوشی کے ساتھ بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی گئی اور مجھ سمیت غیرمتعلقہ افراد کو سرسری ’حال احوال‘ کے بعد رخصت کر دیا گیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلومات تک رسائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں خیبرپختونخوا حکومت کی یہ دوسری ’غیرمعمولی قانون سازی‘ ہوگی (اگر ہو جائے تو)‘ جس سے بہتر و شفاف طرز حکمرانی (گڈ گورننس) کے اہداف حاصل کرنے میں نہ صرف موجودہ دور حکومت بلکہ آنے والی حکومتوں کے ادوار میں بھی بڑی مدد ملے گی۔ دنیا کے جمہوری معاشروں میں ایسے قوانین و قواعد پہلے ہی سے موجود ہیں جن کی وجہ سے سیاست دان ایسا عملی وفکری کردار نہیں رکھتے جس سے اُن کے ’خالصتاً اُنہی کے مفادات کا تحفظ‘ ہو۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسی مثال بھی نہیں ملتی کہ برسراقتدار افراد خود ایسے کاروبار کریں جن کے بارے میں قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا اطلاق بھی خود اُنہیں کے ہاتھ میں ہو۔ یہ خرابی صرف اور صرف ہمارے ہاں پائی جاتی ہے جس کا علاج بذریعہ قانون کرنے کی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ دس جنوری کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی نے معاملہ نمٹانے کی بجائے اِسے مزید طول دے دیا ہے اور اب فیصلہ یہ ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں جملہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے نئی قانون سازی کے حوالے سے مشاورت اور نئے مجوزہ قانون کی ہر ایک شق کا جائزہ لیا جائے حالانکہ یہ معاملہ بالکل ’سیدھا اور سادا‘ ہے۔ اِس میں کوئی ابہام‘ شک و شبہ اور اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ فیصلہ سازی اور قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کے ساتھ مختلف رعایتیں دینے کا اختیار صرف اور صرف اُن کے پاس ہونا چاہئے جن کے اپنے مفادات اُس فیصلے سے وابستہ نہ ہوں لیکن جس انداز میں اراکین اسمبلی نجی محفلوں میں اِس نئی قانون سازی سے متعلق تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں‘اُسے مدنظر رکھتے ہوئے ذاتی مفادات اور اجتماعی مفادات کے درمیان تمیز ہونا آسان دکھائی نہیں دے رہا۔ یاد رہے کہ6جون 2014ء کے روز صوبائی اسمبلی میں ’مفادات سے متصادم‘ قانون سازی کا مسودہ پیش کیا گیا تھا جسے فی الفور اور خندہ پیشانی سے منظور کرنے کی بجائے قومی وطن پارٹی کے پارلیمانی رہنما کی جانب سے متعدد اعتراضات اور ترامیم پیش کی گئیں‘ جس کے بعد 19 نومبر کے روز قانون کو ’جامع‘ بنانے کے لئے حسب قواعد ’سلیکٹ کمیٹی‘ کے سپرد کردیا گیا۔ 10جنوری کو جب سلیکٹ کمیٹی نے اِس مسودۂ قانون پر بحث کا آغاز کیا تو ذرائع کے مطابق ’’ہر سیاسی جماعت کو اِس مسودۂ قانون میں اِستعمال کئے گئے لب و لہجے اور الفاظ پر اعتراضات ہیں!‘‘
مشیر کی آمد سے قبل باآواز بلند سرگوشیوں میں ایک رکن اسمبلی نے ساتھیوں سے سوال کیا ۔۔۔ ’’کیا حکومت ہمیں پچاس لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دیتی ہے جو قانون کے ذریعے پابندی عائد کی جا رہی ہے کہ ہم ذاتی کاروبار نہیں کریں گے اور کسی بھی ایسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے جو کسی مالی فائدے سے جڑی ہو؟‘‘ تائید میں سر ہلائے جا رہے تھے کہ دراز قد مشیر صاحب داخل ہوتے ہیں‘ سب نے کھڑے ہو کر استقبال کیا‘ مسکراہٹوں اور قہقوں کی گونج میں گرمجوشی کے ساتھ بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی گئی اور مجھ سمیت غیرمتعلقہ افراد کو سرسری ’حال احوال‘ کے بعد رخصت کر دیا گیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment