ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تجاہل عارفانہ: بھاری قیمت
تجاہل عارفانہ: بھاری قیمت
سولہ دسمبر کے ’سانحۂ پشاور‘ نے دہشت گرد واقعات کی ترتیب و تفصیلات میں
دردناک باب کا اِضافہ کیا ہے اور اگرچہ سال دو ہزار چودہ رخصت ہو چکا لیکن
نئے سال میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے ساتھ ارباب اختیار کی توجہ چند
ایسے اقدامات کی جانب مبذول کرانا ضروری ہے جن کا خمیازہ عام آدمی کو
بھگتنا پڑا ہے‘ اِس سلسلے میں اعدادوشمار مرتب کرنے میں کئی ایک غیرسرکاری
اداروں نے بڑی محنت کے بعد نتیجہ دیا ہے کہ سال دو ہزار چودہ کے دوران دہشت
گرد واقعات میں شدت پسندوں کے حملوں‘ فرقہ ورانہ تشدد‘ ٹارگٹ کلنگ‘
سیکورٹی آپریشنز اور ڈرون حملوں کے سبب پاکستان میں کل 7 ہزار 655 ہلاکتیں
ہوئیں اور اگر سال گذشتہ کا موازنہ دو ہزار تیرہ سے کیا جائے تو سیکورٹی
آپریشنز کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ ہوا لیکن عسکریت
پسندوں کے حملوں‘ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات
میں پندرہ فیصد کمی بھی دیکھنے میں آئی۔ ارباب اختیار کی توجہ اگر عسکریت
پسندوں کی جانب ہے تو انہیں انتہاء پسندوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے جن
کی وجہ سے دوہزار تیرہ میں پانچ ہزار چھ سو ستاسی جبکہ گذشتہ برس فیصد
اضافے کے ساتھ ہلاکتیں ہوئیں۔ جمعۃ المبارک کے روز نماز سے قبل تقاریر ہی
پر نظر کی جائے تو شدت پسندی و انتہاء پسندی پھیلنے کی وجوہات سمجھ میں آ
جائیں گی! ہفتہ وار یا مساجد میں تقاریر کرنے کے لئے سعودی عرب کی طرز پر
موضوعات و تفصیلات کا اجرأ حکومتی ادارے کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر ہر ضلع میں
سرکاری ملازمین کے لئے یہ قانون بن سکتا ہے کہ انہیں اپنے آبائی ضلع ہی
میں ملازمت دی جائے تو ایسا مساجد کے ساتھ کیوں نہیں ہوسکتا کہ وہ مقامی
افراد کو بطور خطیب و پیش امام تعینات کیا جائے؟
سال گذشتہ پر نظر ڈالتے ہوئے قبائلی علاقوں میں ہوئے تین ہزار تین سو ننانوے افراد کی ہلاکتوں پر حیرت ہوتی ہے‘ ان اعدادوشمار آزاد ہوئے اور یہ تعداد دو ہزار تیرہ کی ایک ہزار چارسو ستاون ہلاکتوں کے مقابلے غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ’امن و امان کے قیام‘ کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کی آئینی حیثیت میں تبدیلی لائی جائے اور قبائلی علاقوں کو جو امتیاز حاصل ہے‘ اُسے ملک کے دیگر حصوں کے مساوی لایا جائے۔
خیبرپختونخوا میں سالانہ ایک ہزار اوسطا اموات ہوتی ہیں۔ سال گذشتہ نوسو پینتالیس جبکہ دو ہزار تیرہ میں ایک ہزار اکتیس اموات ہوئیں۔ جس ملک میں ایک سال کے دوران 133 خواتین اور 270 بچوں کی اموات ہوئی ہوں‘ جہاں چالیس سکولوں اور تین کالجوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہو جہاں تین سو پینسٹھ دنوں میں ڈیرھ سو سے زائد طالب علم‘ چھبیس پرنسپل‘ پروفیسر اور ٹیچرز ہلاک ہوئے ہوں وہاں کے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ غلطی جہاں کہیں بھی ہو رہی ہے اور پالیسیاں جن محرکات کی وجہ سے ناکام ثابت ہو رہی ہیں‘ انہیں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سال دو ہزار چودہ کے دوران پشاور میں 431 ہلاکتیں ہوئیں! لمحۂ فکریہ ہے کہ جنوب ایشیاء کے سب سے قدیم زندہ تاریخی شہر میں ہر روز اوسطاً ایک سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہوں! پشاور کو اُس کی مسکراہٹیں‘ رونقیں اور زندگی واپس دلانے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام علاقے جو قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے متصل ’نوگو ایریاز‘ بنے ہوئے ہیں وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے قدم جمانا ہوں گے۔ گلی گلی اور گھر گھر سرچ آپریشن کیوں ممکن نہیں؟ تجویز ہے کہ بغلیں جھانکنے کی بجائے پشاور کے پانچ زونز میں بالترتیب اور بیک وقت سرچ آپریشن کیا جائے۔ اگر ایک دن کے لئے پورے پشاور میں موبائل فون سروسیز معطل ہوں گی تو اس سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ اگر ایک روز کے لئے ہر قسم کی عمومی آمدروفت پر پابندی عائد کر کے صرف علاج معالجے کی ضروریات کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہو تو اسے عوامی حلقوں کی پذیرائی ملے گی کیونکہ مسئلہ سماج دشمن عناصر سے نمٹنے کا ہے جو شہری علاقوں میں موجود ہیں اور وارداتیں کرنے کے بعد روپوش ہو جاتے ہیں۔ پشاور بارود اور اسلحے کے ڈھیر پر ایستادہ ہے‘ اگر افرادی وسائل کی کمی کے سبب بیک وقت پورے پشاور میں سرچ آپریشن ممکن نہیں تو اسے رنگ روڈ سے متصل علاقوں سے ابتدأ کی جاسکتی ہے جس کی دونوں اطراف مشرومز کی طرح پھیلنے والی آبادیوں کے بارے میں حکام نہیں جانتے کہ وہاں رہائش پذیر افراد کا تعلق کن قماش سے ہے اور کہیں ایسا تو نہیں یہی علاقے اغوأ برائے تاوان کرنے والوں کا پہلا ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں‘ جہاں چند ہفتے رکھنے کے بعد مغویوں کو ملحقہ قبائلی علاقوں کے ذریعے اَفغانستان منتقل کردیا جاتا ہو!
پشاور کی سیکورٹی پر یہ تجاہل عارفانہ ایک سنجیدہ سوال ہے‘ اکثر مغویوں نے بازیابی یا رہائی کے بعد ’آف دی ریکارڈ‘ کہا کہ اُنہیں کئی دنوں تک جس مقام پر تہہ خانوں میں رکھا گیا‘ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں!‘‘ کیا یہ باتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلوم نہیں؟ کیا خفیہ اداروں کے نیٹ ورکس کو فعال کئے بناء امن وامان کی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے؟ محض پولیس تک ’ایس اُو ایس‘ پیغام پہنچانے کے بعد ’مستعدی‘ کی توقع کرنی چاہئے جبکہ منظم جرائم پیشہ عناصر پولیس کی ناک تلے اودھم مچائے ہوئے ہیں۔ آج کے پشاور کی حقیقت تلخ‘ ناقابل بیان اور افسوسناک حدوں کو چھو رہی ہے‘ جس پر جسقدر تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہوگا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال گذشتہ پر نظر ڈالتے ہوئے قبائلی علاقوں میں ہوئے تین ہزار تین سو ننانوے افراد کی ہلاکتوں پر حیرت ہوتی ہے‘ ان اعدادوشمار آزاد ہوئے اور یہ تعداد دو ہزار تیرہ کی ایک ہزار چارسو ستاون ہلاکتوں کے مقابلے غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ’امن و امان کے قیام‘ کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کی آئینی حیثیت میں تبدیلی لائی جائے اور قبائلی علاقوں کو جو امتیاز حاصل ہے‘ اُسے ملک کے دیگر حصوں کے مساوی لایا جائے۔
خیبرپختونخوا میں سالانہ ایک ہزار اوسطا اموات ہوتی ہیں۔ سال گذشتہ نوسو پینتالیس جبکہ دو ہزار تیرہ میں ایک ہزار اکتیس اموات ہوئیں۔ جس ملک میں ایک سال کے دوران 133 خواتین اور 270 بچوں کی اموات ہوئی ہوں‘ جہاں چالیس سکولوں اور تین کالجوں کو بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہو جہاں تین سو پینسٹھ دنوں میں ڈیرھ سو سے زائد طالب علم‘ چھبیس پرنسپل‘ پروفیسر اور ٹیچرز ہلاک ہوئے ہوں وہاں کے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ غلطی جہاں کہیں بھی ہو رہی ہے اور پالیسیاں جن محرکات کی وجہ سے ناکام ثابت ہو رہی ہیں‘ انہیں تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سال دو ہزار چودہ کے دوران پشاور میں 431 ہلاکتیں ہوئیں! لمحۂ فکریہ ہے کہ جنوب ایشیاء کے سب سے قدیم زندہ تاریخی شہر میں ہر روز اوسطاً ایک سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہوں! پشاور کو اُس کی مسکراہٹیں‘ رونقیں اور زندگی واپس دلانے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام علاقے جو قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے متصل ’نوگو ایریاز‘ بنے ہوئے ہیں وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے قدم جمانا ہوں گے۔ گلی گلی اور گھر گھر سرچ آپریشن کیوں ممکن نہیں؟ تجویز ہے کہ بغلیں جھانکنے کی بجائے پشاور کے پانچ زونز میں بالترتیب اور بیک وقت سرچ آپریشن کیا جائے۔ اگر ایک دن کے لئے پورے پشاور میں موبائل فون سروسیز معطل ہوں گی تو اس سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ اگر ایک روز کے لئے ہر قسم کی عمومی آمدروفت پر پابندی عائد کر کے صرف علاج معالجے کی ضروریات کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہو تو اسے عوامی حلقوں کی پذیرائی ملے گی کیونکہ مسئلہ سماج دشمن عناصر سے نمٹنے کا ہے جو شہری علاقوں میں موجود ہیں اور وارداتیں کرنے کے بعد روپوش ہو جاتے ہیں۔ پشاور بارود اور اسلحے کے ڈھیر پر ایستادہ ہے‘ اگر افرادی وسائل کی کمی کے سبب بیک وقت پورے پشاور میں سرچ آپریشن ممکن نہیں تو اسے رنگ روڈ سے متصل علاقوں سے ابتدأ کی جاسکتی ہے جس کی دونوں اطراف مشرومز کی طرح پھیلنے والی آبادیوں کے بارے میں حکام نہیں جانتے کہ وہاں رہائش پذیر افراد کا تعلق کن قماش سے ہے اور کہیں ایسا تو نہیں یہی علاقے اغوأ برائے تاوان کرنے والوں کا پہلا ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں‘ جہاں چند ہفتے رکھنے کے بعد مغویوں کو ملحقہ قبائلی علاقوں کے ذریعے اَفغانستان منتقل کردیا جاتا ہو!
پشاور کی سیکورٹی پر یہ تجاہل عارفانہ ایک سنجیدہ سوال ہے‘ اکثر مغویوں نے بازیابی یا رہائی کے بعد ’آف دی ریکارڈ‘ کہا کہ اُنہیں کئی دنوں تک جس مقام پر تہہ خانوں میں رکھا گیا‘ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں!‘‘ کیا یہ باتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلوم نہیں؟ کیا خفیہ اداروں کے نیٹ ورکس کو فعال کئے بناء امن وامان کی صورتحال میں بہتری لائی جاسکتی ہے؟ محض پولیس تک ’ایس اُو ایس‘ پیغام پہنچانے کے بعد ’مستعدی‘ کی توقع کرنی چاہئے جبکہ منظم جرائم پیشہ عناصر پولیس کی ناک تلے اودھم مچائے ہوئے ہیں۔ آج کے پشاور کی حقیقت تلخ‘ ناقابل بیان اور افسوسناک حدوں کو چھو رہی ہے‘ جس پر جسقدر تشویش کا اظہار کیا جائے کم ہوگا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment