Monday, January 26, 2015

Jan2015: Schools Reopen

ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
تعلیمی اِدارے اُور ہوم ورک
خیبرپختونخوا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ’تعلیمی اِداروں کی تعطیلات میں مزید اضافہ نہ کرتے ہوئے میدانی علاقوں میں بارہ جنوری سے درس وتدریس کا عمل پھر سے شروع کر دیا جائے‘ جو سولہ دسمبر کے روز پشاور میں ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے کے بعد سے تعطل کا شکار ہے جبکہ صوبے کے بالائی (پہاڑی) علاقوں میں قبل از وقت موسم سرما کی تعطیلات مارچ کے دوسرے ہفتے تک جاری رہیں گی۔ اگرچہ دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں اور تعلیمی اداروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے متعدد اقدامات بھی کئے گئے ہیں‘ جن میں مشتبہ افراد کی تلاش وگرفتاری کی کارروائیاں‘ تعلیمی اداروں کو یہ احکامات کہ وہ عمارتیں محفوظ بنانے کے لئے دیواروں کو کم اَزکم آٹھ فٹ بلند کریں‘ کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) کیمروں کے ذریعے داخلی و خارجی راستوں اور چار دیواری کی نگرانی‘ تعلیمی اداروں اور اِن سے ملحقہ دیگر تنصیبات کی مسلح نگرانی کے لئے اسلحہ لائسینسوں کا اجرأ‘ سیکورٹی انتظامات کے لئے ریٹائرڈ پولیس و فوجی اہلکاروں کی خدمات سے استفادہ اُور کسی ہنگامی صورتحال میں پولیس کے اعلیٰ حکام و قریب ترین پولیس اسٹیشن کو مطلع کرنے کے لئے برق رفتار مواصلاتی نظام (موبائل ٹیکنالوجی) سے استفادے کی تدبیر وغیرہ جیسے درجنوں قابل ستائش و ذکر اقدامات شامل ہیں تاہم کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ایک ماہ تک جاری رہنے والی تعطیلات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اساتذہ کو غیرمعمولی حالات سے نمٹنے کے لئے (شہری دفاع اور ابتدائی طبی امداد پہنچانے کی) تربیت دی جاتی جس سے اُن کا اعتماد بھی بحال ہوتا اور والدین کے تفکرات میں بھی کمی ہوتی کہ کوئی ہے جسے اُن کے بچوں کی فکر کھائے جا رہی ہے اور اِسی عرصے کے دوران سکول انتظامیہ‘ اساتذہ اور والدین کے درمیان ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام ضروری تھا‘ جس میں جملہ فریق ایک دوسرے کے تحفظات و احساسات کو سمجھنے اور سیکورٹی خدشات کے مطابق ضروریات کا تعین کرنے کے لئے سوچ بچار کرتے۔ ایک دوسرے کے نکتۂ نظر کو احترام سے سنتے تو عین ممکن ہوتا کہ اعتمادسازی کے ماحول میں زیادہ چالاک و شاطر دشمن کو شکست دینے میں مدد ملتی لیکن ہمارے ہاں المیہ رہا ہے کہ ادارے نہ تو خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہیں اور نہ ہی خود کو عوام کے سامنے جوابدہ تصور کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ تھانے‘ کچہری‘ ہسپتال سے لیکر تعلیمی اداروں تک کے نظام میں ’تعلق اور سفارش‘ کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے۔ ’سانحۂ پشاور‘ سے گزرنے والی قوم کو سوچنا ہوگا کہ اُن سے کہاں اور کیسی کیسی سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں‘ جن کا خمیازہ (بعدازاں) ڈیڑھ سو سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع و ذہنی صدمے کی صورت پوری قوم کو بھگتنا پڑی ہیں!

تعلیمی اِداروں کے معمولات اَگرچہ معمول پر آنے کے لئے ابھی مزید کئی ہفتے درکار ہوں گے لیکن سردست اَساتذہ کی تشویش ضرور کم ہوئی ہے جنہیں ماۂ فروری کے آخر اور مارچ میں ہونے والے سالانہ امتحانات کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ والدین اپنی جگہ تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ کس طرح دل پر پتھر رکھ کر اپنے بچوں کو سکول بھیجیں جبکہ اگر سکولوں کی عمارتیں محفوظ بنا بھی لی گئیں ہیں تو بچوں کی آمدروفت (سکول لانے لیجانے والی گاڑیوں) کی حفاظت کے لئے کیا کچھ اقدامات بھی کئے گئے ہیں؟ اِس بات کی ضمانت کون دے گا کہ حسب حکم تمام سرکاری و نجی سکولوں کی چاردیواریاں بلند کر لی گئیں ہیں اور ماضی کے مقابلے وہاں سیکورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کی حسب حکم تعمیل کر لی گئی ہے؟ عمومی طور پر سکولوں کی انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کے دفاتر سکولوں کے اندر ہی قائم ہوتے ہیں‘ جن تک رسائی کے لئے سرسری پوچھ گچھ کے بعد اندر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے تجویز ہے کہ جملہ سکولوں کے لئے نئے سیکورٹی پلان کے تحت انتظامیہ کے دفاتر الگ حصے میں قائم کئے جائیں جہاں اگر زیرتعلیم بچوں یا دیگر افراد کی آمدورفت ہوتی بھی ہے تو اس سے طلبہ کے لئے خطرہ کا امکان نہ ہو۔ بچوں کو فائر الارم اور ہنگامی حالات میں کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے؟ سکول سے نکلنے کے لئے ایک سے زائد راستوں کا تعین اور سکول میں کام کرنے والے تدریسی و غیرتدریسی عملے کے کوائف نادرا سے تصدیق شدہ کسی فارم کی بنیاد پر مرتب کرکے متعلقہ تھانے کو اس سے مطلع کیا جائے‘ تاکہ تعلیمی اداروں کے آس پاس منڈلانے یا آمدروفت کرنے والے غیرمتعلقہ افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاسکے۔ سکولوں کے اردگرد ایسی تجارتی (کمرشل) سرگرمیوں حتیٰ کہ تیز ہارن تک بجانے پر پابندی جیسے قواعد موجود ہیں جن پر بلاامتیاز و رعائت عمل درآمد کرانے کا اِس سے مناسب وقت کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔

تجویز ہے کہ طلبہ کے آمدورفت کے لئے استعمال ہونے والی گاڑیوں حتیٰ کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ’جی پی ایس‘ آلات نصب کرکے اُنہیں پولیس کے مرکزی کنٹرول روم سے (وائرلیس طورپر) منسلک کر دیا جائے تاکہ سکول بسوں کی مخصوص اوقات میں مقررہ روٹس پر آمدورفت پر کڑی نظر رکھی جا سکے اور اگر کوئی گاڑی اپنے مقررہ روٹ کے علاؤہ سفر کرے تو اس کی اطلاع خودکار نظام کے تحت ’مرکزی کنٹرول روم‘کو فوری طورپر ہو سکے گی۔

ہمارے ہاں نجی تعلیمی اداروں کی بسوں میں گنجائش سے زیادہ بچوں کو سوار کرنا معمول کی بات ہے‘ کسی ایک بس میں سو سے زائد بچوں کو ٹھونسنا‘ اگر ٹریفک قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے تو سیکورٹی کے نکتۂ نظر سے بھی اِس رجحان اور ناجائز منافع خوری پر مبنی علت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے کیونکہ ابھی ’سانحۂ پشاور‘ سے لگنے والے زخم تازہ ہیں‘ جنہیں کریدنے کی دھمکیاں‘ امکانات اور جملہ ممکنہ خطرات سے مکمل طور پر نمٹا نہیں جاسکا ہے۔ یقیناًقانون نافذ کرنے والے اِداروں کے ذمے ابھی بہت سا ’ہوم ورک‘ باقی ہے‘ ابھی اُنہیں بہت سے امتحانی مراحل سے بھی گزرنا ہے‘ کیونکہ احکامات اپنی جگہ لیکن جب تک عام آدمی کو تحفظ کا عملی طورپر احساس نہیں ہوگا‘ (شنیدہ کی بود مانند دیدہ) اُس وقت تک بات نہیں بنے گی۔

اِس مرحلۂ فکر پر جملہ تعلیمی اِداروں کو سیکورٹی کے حوالے سے اَحکامات کا بہرصورت پابند بنانا اور قواعد پر بہرصورت عمل درآمد کو یقینی بنانے کی راہ میں حائل جملہ رکاوٹیں (نرمی‘ سفارش و رعائت) جیسی عمومی پریکٹس (معمول و رویئے) سے چھٹکارہ ضروری ہے۔ ہاں یاد آیا ’سانحۂ پشاور‘کو ایک ماہ تو ہونے کو ہے‘ ہمارے ہاں قانونی و غیرقانونی طورپر مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی یا اُن کی نقل و حرکت اُور معاشرت خیمہ بستیوں تک محدود کرنے کے حوالے سے کتنی پیش رفت ہو چکی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment