ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
میڈیکل آڈٹ: علاج و خطرات
میڈیکل آڈٹ: علاج و خطرات
سردرد کے لئے گولی کی طلب میں ایک میڈیکل سٹور پر چند منٹ کھڑے ہونے کا
موقع ملا‘ جہاں پہلے ہی دو افراد دکاندار سے بحث کر رہے تھے۔ مسئلہ ادویات
کی قیمت کی وجہ سے تھا جس کا حل یہ نکالا گیا کہ دس دن کی بجائے صرف تین دن
کی ادویات ہی خرید لی جائیں اور دکاندار قینچی کی مدد سے گولیوں کو کاٹ
کاٹ کر الگ کر رہا تھا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک مصروف ترین اور
مرکزی بازار سے ملحقہ رہائشی علاقے میں اگر غربت کی یہ انتہاء تھی تو دور
دراز علاقوں کے رہنے والوں کی حالت کیا ہوگی! میرے سردرد کی کیفیت میں
اضافہ ہوتا محسوس ہونے لگا!
صحت کے شعبے میں ہمارا نظام کئی خرابیوں کا مجموعہ ہے اور اس سلسلے میں جب بھی دردمند مؤقف رکھنے والے طبی ماہرین یہ بات کی جائے وہ بطور خاص اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ضمانت نہیں دیتے کہ سرکاری و نجی علاج گاہوں سے رجوع کرنے والے کسی دوسری زیادہ مہلک بیماری کا شکار نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ نہ صرف تشخیص کا سطحی طریقہ ہے بلکہ سہولیات پر بوجھ کی وجہ سے ہسپتال‘ بنیادی صحت کے مراکز یا ڈسپنسریوں پر کلی انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں ڈاکٹر اور میڈیکل ٹیمیں بسا اوقات مریضوں کے علاج کے دوران مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی ہیں اور ایسا خاص طور پر زندگی بچانے کے لئے جراحت (سرجری) کے مراحل (آپریشنز) میں ہوتا ہے۔ میڈیکل آڈٹ کے قوانین موجود ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل موجود ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجود نہیں ہے۔ مریضوں کی بھلائی اور حفاظت یقینی بنانے کے بجائے طبی ماہرین (میڈیکل پروفیشنلز) کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے‘ جس کی وجہ سے غفلت اور غلطیاں عام ہیں اور ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ کچھ بھی کرنے‘ یہاں تک کہ ان کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھی آزاد ہیں۔ اس کے علاؤہ ایسے کوئی بھی قوانین موجود نہیں ہیں جس کے تحت ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص اور مستقبل میں اس کی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے مریض یا اس کے گھرانے کو آگاہ کرنے کے پابند ہوں‘ یہاں تک کہ ملک کے چوٹی کے ہسپتالوں (یعنی بڑے کاروبار) میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس اہم و پریشان کن مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لئے کئی ایک واقعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ صفوت غیور شہید قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکا تاج تھے۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں جانفشانی سے کام کیا اور اُنہیں جب شہید کیا گیا تب بھی وردی پہنے ہوئے تھے۔ صفوت غیور کو یرقان تھا‘ جس سے وہ زندگی بھر مقابلہ کرتے رہے اور یہ یرقان انہیں انتقال خون کے دوران ہوا تھا۔
ہمارے ہاں ہسپتالوں میں زندگی بٹتی ہے یا موت اِس بات سے کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی لیکن علاج گاہیں منافع کا بہترین ذریعہ ہیں‘ جن کے ساتھ کئی طبقات کے روزگار وابستہ ہیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت کے سینکڑوں واقعات ہیں‘ ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن سب سے بنیادی اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں ’’میڈیکل آڈٹ‘‘ کی غیر موجودگی پر احتجاج کرنا ہے۔ مریض کی مکمل طبی معلومات سامنے موجود ہونا درست اور مناسب علاج کے لئے پہلی مطلوب چیز ہے۔ پاکستان میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی مریض کے بارے میں مکمل و مصدقہ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف غلط علاج کیا جاتا ہے بلکہ نجی ہسپتالوں کے خود ساختہ میڈیکل بورڈز آسانی سے نان میڈیکل لوگوں کی شکایات کو مسترد کردیتے ہیں۔ غیرمعمولی و انوکھی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لئے ایسی ادویات عام تجویز کر دی جاتی ہیں‘جنہیں تجویز کرنے سے قبل ’میڈیکل بورڈز‘ کی سطح پر مشاورت ضروری ہوتی ہے اور ایسی ادویات کبھی کبھی لاحق ہونے والے خطرناک امراض میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر جب ادویات تجویز کردی جائیں تو اُن کا حصول بھی الگ سے مسئلہ ہوتا ہے‘ جسے حل ہونا چاہئے۔ سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اس طرح کی دوائیں حاصل کرنے کا اِداروں کی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ قانونی تقاضوں یا مصلحتوں اور معلوم وجوہات کی بناء پر ادویہ ساز ادارے (فارماسیوٹیکل کمپنیاں) ’آرفِن ڈرگز‘ پاکستان درآمد کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ بقول ایک ماہر ’آرفِن ڈرگز‘ کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ ایک غریب ملک میں ان کی بہت زیادہ طلب نہیں اور کمرشل طور پر تیار نہیں ہورہیں۔ پاکستان میں ان دواؤں تک رسائی قوتِ خرید سے جڑی ہوئی ہے جو آئینی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔ سرکاری اداروں جیسے نئے قائم شدہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو پاکستان میں ادویات‘ خاص طور پر آرفِن ڈرگز دستیاب کروانے اور صحت تک کم قیمت میں رسائی تمام شہریوں کے لئے ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔ اسی طرح مرگی کے مرض میں استعمال ہونے والی ادویات کی قلت اور عدم دستیابی‘ آئے روز قیمتوں میں اضافہ بھی توجہ چاہتا ہے۔
طب کی تعلیم کی طرح ادویات کا شعبہ بھی ایسا ہی ہے جہاں نجی مفادات اور مریضوں کی جان کی قیمت پر مال بنانے کے رجحان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ تجویز ہے کہ غیرمعمولی و نایاب بیماریوں کے علاج کے لئے ایک ادارہ قائم کیاجائے جبکہ مرض کی تشخیص و علاج کے ذیل میں غفلت کے مرتکب ہونے والے ڈاکٹروں خلاف سخت قانون سازی ہونی چاہئے۔ اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ ادویات نہیں خرید سکتے۔ کیا حکومت ایسے مریضوں کی معاونت نہیں کرسکتی جن کے پاس خاص امراض میں ادویات خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ یرقان سے متاثرہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ہیں جو ویکسین خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے۔ ہمارا صحت کا نظام مجرمانہ حد تک نامناسب ہے جو مریضوں کے لئے کسی بارودی سرنگ جیسا ہی ہے۔ معنی خیزعملی اقدامات کے ساتھ مسیحاؤں کی اکثریت میں انسانیت کے جذبات اُبھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے‘ سب انسان ہیں‘ سب اشرف المخلوقات ہیں وہ بھی جن کے پاس ادویات خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحت کے شعبے میں ہمارا نظام کئی خرابیوں کا مجموعہ ہے اور اس سلسلے میں جب بھی دردمند مؤقف رکھنے والے طبی ماہرین یہ بات کی جائے وہ بطور خاص اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ضمانت نہیں دیتے کہ سرکاری و نجی علاج گاہوں سے رجوع کرنے والے کسی دوسری زیادہ مہلک بیماری کا شکار نہیں ہوں گے اور اس کی وجہ نہ صرف تشخیص کا سطحی طریقہ ہے بلکہ سہولیات پر بوجھ کی وجہ سے ہسپتال‘ بنیادی صحت کے مراکز یا ڈسپنسریوں پر کلی انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان میں ڈاکٹر اور میڈیکل ٹیمیں بسا اوقات مریضوں کے علاج کے دوران مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی ہیں اور ایسا خاص طور پر زندگی بچانے کے لئے جراحت (سرجری) کے مراحل (آپریشنز) میں ہوتا ہے۔ میڈیکل آڈٹ کے قوانین موجود ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل موجود ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجود نہیں ہے۔ مریضوں کی بھلائی اور حفاظت یقینی بنانے کے بجائے طبی ماہرین (میڈیکل پروفیشنلز) کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہے‘ جس کی وجہ سے غفلت اور غلطیاں عام ہیں اور ڈاکٹر اپنے مریضوں کے ساتھ کچھ بھی کرنے‘ یہاں تک کہ ان کی جانوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھی آزاد ہیں۔ اس کے علاؤہ ایسے کوئی بھی قوانین موجود نہیں ہیں جس کے تحت ڈاکٹرز بیماری کی تشخیص اور مستقبل میں اس کی ممکنہ صورتحال کے حوالے سے مریض یا اس کے گھرانے کو آگاہ کرنے کے پابند ہوں‘ یہاں تک کہ ملک کے چوٹی کے ہسپتالوں (یعنی بڑے کاروبار) میں بھی ایسا ہی ہے۔ اس اہم و پریشان کن مسئلے پر روشنی ڈالنے کے لئے کئی ایک واقعات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ صفوت غیور شہید قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سرکا تاج تھے۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں جانفشانی سے کام کیا اور اُنہیں جب شہید کیا گیا تب بھی وردی پہنے ہوئے تھے۔ صفوت غیور کو یرقان تھا‘ جس سے وہ زندگی بھر مقابلہ کرتے رہے اور یہ یرقان انہیں انتقال خون کے دوران ہوا تھا۔
ہمارے ہاں ہسپتالوں میں زندگی بٹتی ہے یا موت اِس بات سے کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی لیکن علاج گاہیں منافع کا بہترین ذریعہ ہیں‘ جن کے ساتھ کئی طبقات کے روزگار وابستہ ہیں۔ ڈاکٹروں کی غفلت کے سینکڑوں واقعات ہیں‘ ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن سب سے بنیادی اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں ’’میڈیکل آڈٹ‘‘ کی غیر موجودگی پر احتجاج کرنا ہے۔ مریض کی مکمل طبی معلومات سامنے موجود ہونا درست اور مناسب علاج کے لئے پہلی مطلوب چیز ہے۔ پاکستان میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی مریض کے بارے میں مکمل و مصدقہ معلومات کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف غلط علاج کیا جاتا ہے بلکہ نجی ہسپتالوں کے خود ساختہ میڈیکل بورڈز آسانی سے نان میڈیکل لوگوں کی شکایات کو مسترد کردیتے ہیں۔ غیرمعمولی و انوکھی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لئے ایسی ادویات عام تجویز کر دی جاتی ہیں‘جنہیں تجویز کرنے سے قبل ’میڈیکل بورڈز‘ کی سطح پر مشاورت ضروری ہوتی ہے اور ایسی ادویات کبھی کبھی لاحق ہونے والے خطرناک امراض میں استعمال ہوتی ہیں۔ پھر جب ادویات تجویز کردی جائیں تو اُن کا حصول بھی الگ سے مسئلہ ہوتا ہے‘ جسے حل ہونا چاہئے۔ سرکاری و نجی ہسپتالوں میں اس طرح کی دوائیں حاصل کرنے کا اِداروں کی سطح پر کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ قانونی تقاضوں یا مصلحتوں اور معلوم وجوہات کی بناء پر ادویہ ساز ادارے (فارماسیوٹیکل کمپنیاں) ’آرفِن ڈرگز‘ پاکستان درآمد کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ بقول ایک ماہر ’آرفِن ڈرگز‘ کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ ایک غریب ملک میں ان کی بہت زیادہ طلب نہیں اور کمرشل طور پر تیار نہیں ہورہیں۔ پاکستان میں ان دواؤں تک رسائی قوتِ خرید سے جڑی ہوئی ہے جو آئینی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔ سرکاری اداروں جیسے نئے قائم شدہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو پاکستان میں ادویات‘ خاص طور پر آرفِن ڈرگز دستیاب کروانے اور صحت تک کم قیمت میں رسائی تمام شہریوں کے لئے ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔ اسی طرح مرگی کے مرض میں استعمال ہونے والی ادویات کی قلت اور عدم دستیابی‘ آئے روز قیمتوں میں اضافہ بھی توجہ چاہتا ہے۔
طب کی تعلیم کی طرح ادویات کا شعبہ بھی ایسا ہی ہے جہاں نجی مفادات اور مریضوں کی جان کی قیمت پر مال بنانے کے رجحان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ تجویز ہے کہ غیرمعمولی و نایاب بیماریوں کے علاج کے لئے ایک ادارہ قائم کیاجائے جبکہ مرض کی تشخیص و علاج کے ذیل میں غفلت کے مرتکب ہونے والے ڈاکٹروں خلاف سخت قانون سازی ہونی چاہئے۔ اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ ادویات نہیں خرید سکتے۔ کیا حکومت ایسے مریضوں کی معاونت نہیں کرسکتی جن کے پاس خاص امراض میں ادویات خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ یرقان سے متاثرہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ ہیں جو ویکسین خریدنے کی مالی سکت نہیں رکھتے۔ ہمارا صحت کا نظام مجرمانہ حد تک نامناسب ہے جو مریضوں کے لئے کسی بارودی سرنگ جیسا ہی ہے۔ معنی خیزعملی اقدامات کے ساتھ مسیحاؤں کی اکثریت میں انسانیت کے جذبات اُبھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے‘ سب انسان ہیں‘ سب اشرف المخلوقات ہیں وہ بھی جن کے پاس ادویات خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment