ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
اِمتحاں در اِمتحاں
اِمتحاں در اِمتحاں
سولہ دسمبر کے روز ’آرمی پبلک سکول‘ پر حملے نے جہاں ملک کے دیگر حصوں کی
نسبت پشاور کے رہنے والوں کو زیادہ سوگوار اور زیادہ متاثر چھوڑا‘ وہیں درس
و تدریس کا عمل معمول کے مطابق شروع ہونے کے ذکر پر والدین کے چہروں پر
سنجیدگی غالب آ جاتی ہے‘ انہیں ایک طرف اپنے بچوں کی تعلیم معطل ہونے کی
فکر کھائے جا رہی ہے تو دوسری جانب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بچوں کو سکول
بھیجیں یا نہ بھیجیں! چند والدین سمجھتے ہیں کہ سکول کھلنے کے ابتدائی چند
دن اگر بچوں کو حفظ ماتقدم کے طور پر نہ بھیجا جائے اور حالات کا جائزہ لیا
جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ جس قدر حرج ہونا تھا وہ تو پہلے
ہی ہو چکا ہے! والدین کی جانب سے نجی و سرکاری سکولوں کی حفاظت کے حوالے سے
انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے یہ مطالبہ
بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں سے متعلق حفاظتی حکمت عملی
(غیرمعمولی انتظامات) کے ساتھ سیکورٹی کے لئے ذمہ دار مقرر کرکے اُن کے
حوالے خالصتاً تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کی جائے تاکہ بعدازاں کسی
ناخوشگوار واقعے یا (خدانخواستہ) حادثے کی صورت ’پوچھ گچھ‘ کی جاسکے کیونکہ
پولیس کا موجودہ نظام جن طورطریقوں اور حسب سہولت مرتب کیا گیا ہے‘ اُس کا
حسن و جمال اور خوبی و کمال یہ ہے کہ سب سے پہلے جرائم کے اِرتکاب کا
اِنتظار کیا جاتا ہے۔ پھر جب جرم سرزد ہو جائے تو اُس کے گواہوں کی تلاش کی
جاتی ہے لیکن پولیس پر اعتماد کا حال یہ ہے کہ دن دیہاڑے ہونے والی
وارداتوں کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے والے بھی صاف منکر ہو جاتے ہیں کہ انہوں
نے کچھ نہیں دیکھا۔ جب گواہ نہیں ملتے اُور جرم کے ثبوت جمع کرنے میں
دلچسپی صرف اُس صورت لی جاتی ہے جہاں کسی صاحب ثروت یا اَثرورسوخ کے حامل
افراد متاثر ہوئے ہوں تو تفتیش کا عمل بے معنی دکھائی دینے لگتا ہے‘
خیبرپختونخوا میں سالانہ اوسطاً دس فیصد وارداتوں میں ملوث افراد کا سراغ
لگانے کی شرح کیا اپنی جگہ لائق تشویش نہیں!؟ یہی سبب ہے کہ عام آدمی کو
’پولیسنگ‘ پر اِعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ تعلیمی اِداروں کی جانب سے
سیکورٹی کے لئے اِنتظامات سے متعلق والدین کو آگاہ کرنا ضروری نہیں سمجھا
جاتا اور بالخصوص سرکاری اِداروں کا تو اللہ ہی نگہبان ہے۔
تشویش بھرے اِس پورے ماحول کے تناؤ اور سنگینی کا اَندازہ ایک سرکاری سکول سے تعلق رکھنے والی فرض شناس معلمات کی جانب سے تحریر کردہ ایک مکتوب سے لگایا جاسکتا ہے‘ جس میں کئی ایک تجاویز محکمۂ تعلیم اَرباب اِختیار اور صوبائی حکومت تک پہنچانے کی درخواست کی گئی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے جس اِجتماعی مسئلے سے بات کا آغاز کیا گیا‘ وہ ماہ مارچ میں بورڈ کی سطح پر ہونے والے سالانہ اِمتحانات ہیں‘ جس کے لئے کورس مکمل نہیں ہوسکا ہے کیونکہ سولہ دسمبر سانحے کی وجہ سے ہوئی موسم سرما کی تعطیلات بڑھا دی گئیں ہیں لہٰذا کیا پشاور کا تعلیمی بورڈ اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں تعلیمی بورڈ مارچ میں ہونے والے سالانہ امتحانات کی تاریخیں آگے بڑھائیں گے یا اِس مرتبہ پرچہ جات بناتے ہوئے اُن اسباق کو کورس کے حصے کو منہا کر دیا جائے گا‘ جو تعطیلات کی وجہ سے طلباء و طالبات نہیں پڑھ سکے۔ محکمۂ تعلیم نجی و سرکاری سکولوں کے تدریسی و انتظامی عملے کو اس سلسلے میں خصوصی تربیت (کورس) کرائے جائیں‘ تاکہ وہ آئندہ چند ہفتوں میں باقی ماندہ نصاب کے خاص حصے یا چیدہ چیدہ موضوعات کے بارے میں ایک جیسی (یونیفارم) تدریسں مکمل کر سکیں۔ کورس (نصاب کے اَسباق) مکمل نہ ہونے اور ضائع ہونے والے تدریسی ہفتوں کا کچھ نہ کچھ نعم البدل مقرر ہونا چاہئے۔
تجویز ہے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے تدریسی عملے اور ہر ایک طالب علم کا بیمہ (انشورنس) کرایا جائے‘ جس کے لئے ملک گیر سطح پر حکومتی انشورنس کے ادارے کی خدمات سے استفادہ بہتر رہے گا۔ اِس طرح نہ صرف قومی سطح پر طالبعلموں کو بچت کے بارے میں شعور ملے گا بلکہ تعلیمی عمل مکمل ہونے پر اُن کے ہاتھ ایک خطیر رقم بھی ہاتھ آ سکے گی‘ جس سے وہ اپنی پیشہ ورانہ عملی زندگی کا آغاز یا بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکیں گے۔
تجویز ہے کہ ’سانحۂ پشاور‘ کے شہدأ کی یاد میں ’آرمی سٹیڈیم (کرنل شیر خان شہید سٹیڈیم)‘ میں یادگار تعمیر کی جائے‘ جس سے متصل ’لائبریری‘ آڈیٹوریم اور کھیل‘ کے میدان میں نجی و سرکاری سکولوں کے طالبعلموں کے مابین مقابلوں کا انعقاد معمول کے مطابق ہم نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہونا چاہئے‘ جن بچوں نے زندگی و موت کو قریب سے دیکھا‘ بم دھماکوں‘ گولیوں کی بوچھاڑ‘ سیکورٹی اہلکاروں کی یلغار‘ زخمیوں کی چیخ وپکار‘ خون آلودہ ہم جماعت و ہم سکول ساتھیوں کی لاشیں اور ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائے جانے والے زیادہ دردناک مناظر کو شعوری آنکھوں سے دیکھا‘ اُنہیں شدید ذہنی صدمے اور خوف سے نکالنے میں اس سے زیادہ بہتر‘ مؤثر اُور متبادل طریقۂ علاج کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کریں گے بچوں کو تعطیلات دے کر مصروفیت سے الگ رکھنا اور انہیں گھروں تک محدود کردینے سے پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگا‘ جبکہ اُنہیں نارمل بچوں سے گھلنے ملنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ تعلیمی اداروں کی تعطیلات اور گھروں میں غم و صدمے کی کیفیات دیکھ دیکھ کر بچے زیادہ بڑی مصیبت اور ذہنی کوفت سے دوچار ہیں‘ گویا ہم بڑوں (فیصلہ سازوں) نے بچوں پر ’سولہ دسمبر‘ کا دن مسلط کردیا ہے‘ وہ ایک دن جسے گزر جانا چاہئے تھا‘ ٹھہر سا گیا ہے!
تجویز ہے کہ جس اَنداز میں ’سانحۂ پشاور‘ کی نمائش و فروخت سے پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ نے اَپنی اَپنی مقبولیت (ratings) میں اضافہ کیا اور بالخصوص ٹیلی ویژن چینلز نے جس اَنداز میں ’اپنے ناخنوں سے زخم کریدے‘ اُس کا ازالہ بھی ہونا چاہئے۔ متاثرہ بچوں کی دیگر شہروں کے بچوں کے ساتھ رابطہ کاری‘ انہیں نسبتاً پرسکون اَضلاع یا محفوظ ماحول میں سکول کے خوف سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ذہن میں سکول خوف کی علامت بن چکے ہیں اور یہ منفی تاثر ذرائع ابلاغ پر کارٹونوں یا پتلی تماشوں جیسے کرداروں کی مدد سے زائل کیا جاسکتا ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ تدریس کا عمل معطل کرنے کی بجائے اس کا اہتمام پہلے سے زیادہ اہتمام سے ہونا چاہئے۔ قومی ترانہ پہلے سے زیادہ جذبے اور بلند آواز سے پڑھا جائے۔ اِس سلسلے میں مخیر حضرات‘ صنعتی و مالیاتی اِدارے بھی اَپنا اَپنا کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ سانحۂ پشاور کی یاد میں محض آنسو بہانا اُور سسکیاں بھرنا کافی نہیں بلکہ متاثرہ بچوں اور غم زدہ والدین کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کو خوف و دہشت پھیلانے والوں سے واپس لینے کے لئے قربانیوں کا جذبہ جوان رہنا چاہئے۔ حسب سابق پے در پے ہوئی دہشت گرد وارداتوں کے بعد ’رات گئی بات گئی‘ جیسے اَندیشے سر نہیں اُٹھانے چاہیءں۔ سانحۂ پشاور کے غم اور دُکھ کا احساس اپنی جگہ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’وہ میری میت پہ آئے‘ رو گئے‘ منہ دھو گئے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشویش بھرے اِس پورے ماحول کے تناؤ اور سنگینی کا اَندازہ ایک سرکاری سکول سے تعلق رکھنے والی فرض شناس معلمات کی جانب سے تحریر کردہ ایک مکتوب سے لگایا جاسکتا ہے‘ جس میں کئی ایک تجاویز محکمۂ تعلیم اَرباب اِختیار اور صوبائی حکومت تک پہنچانے کی درخواست کی گئی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے جس اِجتماعی مسئلے سے بات کا آغاز کیا گیا‘ وہ ماہ مارچ میں بورڈ کی سطح پر ہونے والے سالانہ اِمتحانات ہیں‘ جس کے لئے کورس مکمل نہیں ہوسکا ہے کیونکہ سولہ دسمبر سانحے کی وجہ سے ہوئی موسم سرما کی تعطیلات بڑھا دی گئیں ہیں لہٰذا کیا پشاور کا تعلیمی بورڈ اور خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں تعلیمی بورڈ مارچ میں ہونے والے سالانہ امتحانات کی تاریخیں آگے بڑھائیں گے یا اِس مرتبہ پرچہ جات بناتے ہوئے اُن اسباق کو کورس کے حصے کو منہا کر دیا جائے گا‘ جو تعطیلات کی وجہ سے طلباء و طالبات نہیں پڑھ سکے۔ محکمۂ تعلیم نجی و سرکاری سکولوں کے تدریسی و انتظامی عملے کو اس سلسلے میں خصوصی تربیت (کورس) کرائے جائیں‘ تاکہ وہ آئندہ چند ہفتوں میں باقی ماندہ نصاب کے خاص حصے یا چیدہ چیدہ موضوعات کے بارے میں ایک جیسی (یونیفارم) تدریسں مکمل کر سکیں۔ کورس (نصاب کے اَسباق) مکمل نہ ہونے اور ضائع ہونے والے تدریسی ہفتوں کا کچھ نہ کچھ نعم البدل مقرر ہونا چاہئے۔
تجویز ہے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کے تدریسی عملے اور ہر ایک طالب علم کا بیمہ (انشورنس) کرایا جائے‘ جس کے لئے ملک گیر سطح پر حکومتی انشورنس کے ادارے کی خدمات سے استفادہ بہتر رہے گا۔ اِس طرح نہ صرف قومی سطح پر طالبعلموں کو بچت کے بارے میں شعور ملے گا بلکہ تعلیمی عمل مکمل ہونے پر اُن کے ہاتھ ایک خطیر رقم بھی ہاتھ آ سکے گی‘ جس سے وہ اپنی پیشہ ورانہ عملی زندگی کا آغاز یا بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکیں گے۔
تجویز ہے کہ ’سانحۂ پشاور‘ کے شہدأ کی یاد میں ’آرمی سٹیڈیم (کرنل شیر خان شہید سٹیڈیم)‘ میں یادگار تعمیر کی جائے‘ جس سے متصل ’لائبریری‘ آڈیٹوریم اور کھیل‘ کے میدان میں نجی و سرکاری سکولوں کے طالبعلموں کے مابین مقابلوں کا انعقاد معمول کے مطابق ہم نصابی سرگرمیوں کا حصہ ہونا چاہئے‘ جن بچوں نے زندگی و موت کو قریب سے دیکھا‘ بم دھماکوں‘ گولیوں کی بوچھاڑ‘ سیکورٹی اہلکاروں کی یلغار‘ زخمیوں کی چیخ وپکار‘ خون آلودہ ہم جماعت و ہم سکول ساتھیوں کی لاشیں اور ٹیلی ویژن پر بار بار دکھائے جانے والے زیادہ دردناک مناظر کو شعوری آنکھوں سے دیکھا‘ اُنہیں شدید ذہنی صدمے اور خوف سے نکالنے میں اس سے زیادہ بہتر‘ مؤثر اُور متبادل طریقۂ علاج کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ماہرین نفسیات بھی اس بات کی تائید کریں گے بچوں کو تعطیلات دے کر مصروفیت سے الگ رکھنا اور انہیں گھروں تک محدود کردینے سے پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگا‘ جبکہ اُنہیں نارمل بچوں سے گھلنے ملنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ تعلیمی اداروں کی تعطیلات اور گھروں میں غم و صدمے کی کیفیات دیکھ دیکھ کر بچے زیادہ بڑی مصیبت اور ذہنی کوفت سے دوچار ہیں‘ گویا ہم بڑوں (فیصلہ سازوں) نے بچوں پر ’سولہ دسمبر‘ کا دن مسلط کردیا ہے‘ وہ ایک دن جسے گزر جانا چاہئے تھا‘ ٹھہر سا گیا ہے!
تجویز ہے کہ جس اَنداز میں ’سانحۂ پشاور‘ کی نمائش و فروخت سے پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ نے اَپنی اَپنی مقبولیت (ratings) میں اضافہ کیا اور بالخصوص ٹیلی ویژن چینلز نے جس اَنداز میں ’اپنے ناخنوں سے زخم کریدے‘ اُس کا ازالہ بھی ہونا چاہئے۔ متاثرہ بچوں کی دیگر شہروں کے بچوں کے ساتھ رابطہ کاری‘ انہیں نسبتاً پرسکون اَضلاع یا محفوظ ماحول میں سکول کے خوف سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ذہن میں سکول خوف کی علامت بن چکے ہیں اور یہ منفی تاثر ذرائع ابلاغ پر کارٹونوں یا پتلی تماشوں جیسے کرداروں کی مدد سے زائل کیا جاسکتا ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ تدریس کا عمل معطل کرنے کی بجائے اس کا اہتمام پہلے سے زیادہ اہتمام سے ہونا چاہئے۔ قومی ترانہ پہلے سے زیادہ جذبے اور بلند آواز سے پڑھا جائے۔ اِس سلسلے میں مخیر حضرات‘ صنعتی و مالیاتی اِدارے بھی اَپنا اَپنا کردار اَدا کر سکتے ہیں۔ سانحۂ پشاور کی یاد میں محض آنسو بہانا اُور سسکیاں بھرنا کافی نہیں بلکہ متاثرہ بچوں اور غم زدہ والدین کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کو خوف و دہشت پھیلانے والوں سے واپس لینے کے لئے قربانیوں کا جذبہ جوان رہنا چاہئے۔ حسب سابق پے در پے ہوئی دہشت گرد وارداتوں کے بعد ’رات گئی بات گئی‘ جیسے اَندیشے سر نہیں اُٹھانے چاہیءں۔ سانحۂ پشاور کے غم اور دُکھ کا احساس اپنی جگہ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’وہ میری میت پہ آئے‘ رو گئے‘ منہ دھو گئے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment