ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
قابل تقلید ترقیاتی عمل
قابل تقلید ترقیاتی عمل
خیبرپختونخوا میں ترقی کا عمل سیاسی و غیرسیاسی وجوہات کی بناء پر سست روی
کا شکار ہے اور یہ تعطل خود حکمراں اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے
اراکین صوبائی اسمبلی کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے‘ جنہیں اپنے
اپنے حلقۂ انتخاب میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ’کڑی تنقید‘ کا سامنا
ہے۔ خوشی ہو یا غم کی کوئی تقریب منتخب نمائندوں سے ملنے والے موقع جان کر
باتوں باتوں میں ’ترقیاتی عمل کے حوالے سے ضرور ایک نہ ایک سوال داغ ہی
دیتے ہیں۔‘ یاد رہے کہ مالی سال 2014-15ء کے دوران ترقیاتی کاموں کے لئے
صوبائی حکومت نے مجموعی طور پر 140.23 ارب روپے مختص کئے تھے جن میں سے دو
جنوری دوہزار پندرہ تک 64 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں!
پاکستان کی کوئی بھی دوسری جماعت ’تحریک انصاف‘ جیسی بصیرت‘ شعور اور اجتماعی مسائل کے حل سے متعلق واضح سوچ نہیں رکھتی۔ عام انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے اصلاحات کی تجویز ہو یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے خاتمے اور قومی وسائل لوٹنے والوں کا بلااِمتیاز اِحتساب یا پھر عالمی سطح پر پاکستان کے حقیقی تشخص‘ وقار اور ساکھ بحال کرنے جیسی ضرورت‘ تحریک انصاف کے پاس ’حیران کن اِعدادوشمار‘ پر مبنی ’تبدیلی‘ کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک منطقی جواز موجود ہیں تاہم ’نئے پاکستان‘ کی تشکیل بناء ترقیاتی عمل ممکن نہیں اور اِس سلسلے میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ جیسے ’نادر موقع‘ کا استعمال سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ’تعمیر و ترقی کی ایسی مثالیں‘ قائم کی جاسکتی ہیں‘ جو دوسروں کے لئے بھی قابل تقلید ہوں۔چودہ اگست سے اٹھارہ دسمبر (126 دن) تک جاری رہنے والے ’آزادی مارچ و دھرنے‘ نے تحریک کی مرکزی و صوبائی قیادت کو مصروف رکھا‘ جس کی وجہ سے اُنہیں ہزارہ ڈویژن میں ’ترقیاتی کاموں‘ کے حوالے کئے ہوئے وہ انتخابی وعدے بھی یاد نہ رہے‘ جن کی تعمیل خود ’تحریک انصاف‘ کے مستقبل کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’ہزارہ ڈویژن بالخصوص ایبٹ آباد اور سرکل بکوٹ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بالخصوص تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عوام کے منتخب نمائندوں شدید دباؤ میں ہیں۔ پانچ جون دو ہزار چودہ کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ پر ’ضمنی انتخابات‘ کا انعقاد ہوا‘ جس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف نے ہزارہ ڈویژن کے سرکل بکوٹ میں چار مقامات پر اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جن ترقیاتی کاموں کے اعلانات کئے اُن میں بڑے اور بنیادی کام چھ کالجوں کا قیام‘ بکوٹ کو تحصیل کا درجہ دینا شامل تھا جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے الگ سے ’گلیات‘ میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر ’ایک ارب روپے‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جنت نظیر وادیوں کی وجہ سے ’سرکل بکوٹ‘ میں سیاحت اور پن بجلی کی پیداوار کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جن سے استفادہ کرکے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں بلکہ جاری توانائی بحران کا پائیدار حل بھی اِس خطے میں ترقیاتی عمل کی توسیع سے باآسانی ممکن ہے۔
سرکل بکوٹ سے وعدے کرنے والوں کی کمی نہیں۔ کم و بیش تین عشروں سے سرکل بکوٹ پر حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ (نواز) کے مقابلے اگر قومی اسمبلی کے لئے ووٹ تحریک انصاف کو ملے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ اہل علاقہ تعمیروترقی چاہتے ہیں۔ اگر ’پی کے پینتالیس‘ کے ضمنی انتخاب کے لئے تحریک انصاف سرکل بکوٹ ہی سے تعلق رکھنے والے کسی مقامی رہنما (عبدالرحمن عباسی‘ راجہ مبین‘ نذیر عباسی‘ پیر اَظہر بکوٹی) کو پارٹی ٹکٹ دیتی تو تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کا بدلہ لے لیتی‘ بلکہ ایبٹ آباد سے کشمیر تک کی وادیوں پر پھیلے اِس وسیع انتخابی حلقے میں تحریک انصاف کے قدم زیادہ مستحکم ہوتے۔ بہرکیف ’سنجیدہ عملی کوششوں‘ کا وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں گیا اور اگر سرکل بکوٹ میں حسب وعدہ ’تین بنیادی ترقیاتی کام‘ یعنی ’’چھ کالجوں کا قیام‘ تحصیل کا درجہ اور ایک ارب روپے کے تعمیراتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کر دیئے جاتے ہیں تو اِس سے تحریک انصاف سے سیاسی و دلی وابستگی رکھنے والے عوامی حلقے اطمینان محسوس کریں گے۔
تحریک انصاف سے زیادہ اِس حقیقت سے کون آشنا ہے کہ رہنما وہ کہلاتا ہے جسے نہ صرف منزل کا پتہ ہو بلکہ وہ جانب منزل درست سمت میں سفر بھی کر رہا ہو اور منزل تک رسائی کے لئے دوسروں کی رہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔ تحریک انصاف قیادت سے جڑی اِن تینوں ذمہ داریوں سے آگاہ اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اُمیدوں کا مرکز ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے وہ سبھی اضلاع بشمول ایبٹ آباد خاطرخواہ تعمیروترقی چاہتا ہے‘ جنہیں سیاسی بغض و عناد اور تعصبات و امتیازات جیسے محرکات کے سبب دانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا تاکہ ایک خاص طبقہ اور استحصالی سوچ حکمراں رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں وزیراعلیٰ کا تعلق جس ضلع سے ہوتا‘ اُس کی قسمت بدل جاتی۔ مثال کے طور بنوں اور مردان میں ہوئی تیزرفتار تعمیر و ترقی کے عمل کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اِس رجحان و ترجیح کے ثمرات 1969 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ’ضلع ایبٹ آباد‘ تک نہیں پہنچ سکے‘ جس میں 51 یونین کونسلیں اور دو تحصلیں ہیں اُور تحریک انصاف سے اُمیدیں وابستہ کرنے والوں کی نظریں پشاور پر لگی ہوئی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی کوئی بھی دوسری جماعت ’تحریک انصاف‘ جیسی بصیرت‘ شعور اور اجتماعی مسائل کے حل سے متعلق واضح سوچ نہیں رکھتی۔ عام انتخابات کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے اصلاحات کی تجویز ہو یا مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے خاتمے اور قومی وسائل لوٹنے والوں کا بلااِمتیاز اِحتساب یا پھر عالمی سطح پر پاکستان کے حقیقی تشخص‘ وقار اور ساکھ بحال کرنے جیسی ضرورت‘ تحریک انصاف کے پاس ’حیران کن اِعدادوشمار‘ پر مبنی ’تبدیلی‘ کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک منطقی جواز موجود ہیں تاہم ’نئے پاکستان‘ کی تشکیل بناء ترقیاتی عمل ممکن نہیں اور اِس سلسلے میں ’خیبرپختونخوا حکومت‘ جیسے ’نادر موقع‘ کا استعمال سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے ’تعمیر و ترقی کی ایسی مثالیں‘ قائم کی جاسکتی ہیں‘ جو دوسروں کے لئے بھی قابل تقلید ہوں۔چودہ اگست سے اٹھارہ دسمبر (126 دن) تک جاری رہنے والے ’آزادی مارچ و دھرنے‘ نے تحریک کی مرکزی و صوبائی قیادت کو مصروف رکھا‘ جس کی وجہ سے اُنہیں ہزارہ ڈویژن میں ’ترقیاتی کاموں‘ کے حوالے کئے ہوئے وہ انتخابی وعدے بھی یاد نہ رہے‘ جن کی تعمیل خود ’تحریک انصاف‘ کے مستقبل کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ’ہزارہ ڈویژن بالخصوص ایبٹ آباد اور سرکل بکوٹ سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بالخصوص تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عوام کے منتخب نمائندوں شدید دباؤ میں ہیں۔ پانچ جون دو ہزار چودہ کے روز خیبرپختونخوا اسمبلی کی نشست ’پی کے پینتالیس‘ پر ’ضمنی انتخابات‘ کا انعقاد ہوا‘ جس سے قبل چیئرمین تحریک انصاف نے ہزارہ ڈویژن کے سرکل بکوٹ میں چار مقامات پر اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جن ترقیاتی کاموں کے اعلانات کئے اُن میں بڑے اور بنیادی کام چھ کالجوں کا قیام‘ بکوٹ کو تحصیل کا درجہ دینا شامل تھا جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے الگ سے ’گلیات‘ میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پر ’ایک ارب روپے‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جنت نظیر وادیوں کی وجہ سے ’سرکل بکوٹ‘ میں سیاحت اور پن بجلی کی پیداوار کے وسیع امکانات موجود ہیں‘ جن سے استفادہ کرکے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں بلکہ جاری توانائی بحران کا پائیدار حل بھی اِس خطے میں ترقیاتی عمل کی توسیع سے باآسانی ممکن ہے۔
سرکل بکوٹ سے وعدے کرنے والوں کی کمی نہیں۔ کم و بیش تین عشروں سے سرکل بکوٹ پر حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ (نواز) کے مقابلے اگر قومی اسمبلی کے لئے ووٹ تحریک انصاف کو ملے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ اہل علاقہ تعمیروترقی چاہتے ہیں۔ اگر ’پی کے پینتالیس‘ کے ضمنی انتخاب کے لئے تحریک انصاف سرکل بکوٹ ہی سے تعلق رکھنے والے کسی مقامی رہنما (عبدالرحمن عباسی‘ راجہ مبین‘ نذیر عباسی‘ پیر اَظہر بکوٹی) کو پارٹی ٹکٹ دیتی تو تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ مئی دو ہزار تیرہ کے عام انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کا بدلہ لے لیتی‘ بلکہ ایبٹ آباد سے کشمیر تک کی وادیوں پر پھیلے اِس وسیع انتخابی حلقے میں تحریک انصاف کے قدم زیادہ مستحکم ہوتے۔ بہرکیف ’سنجیدہ عملی کوششوں‘ کا وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں گیا اور اگر سرکل بکوٹ میں حسب وعدہ ’تین بنیادی ترقیاتی کام‘ یعنی ’’چھ کالجوں کا قیام‘ تحصیل کا درجہ اور ایک ارب روپے کے تعمیراتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کر دیئے جاتے ہیں تو اِس سے تحریک انصاف سے سیاسی و دلی وابستگی رکھنے والے عوامی حلقے اطمینان محسوس کریں گے۔
تحریک انصاف سے زیادہ اِس حقیقت سے کون آشنا ہے کہ رہنما وہ کہلاتا ہے جسے نہ صرف منزل کا پتہ ہو بلکہ وہ جانب منزل درست سمت میں سفر بھی کر رہا ہو اور منزل تک رسائی کے لئے دوسروں کی رہنمائی کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو۔ تحریک انصاف قیادت سے جڑی اِن تینوں ذمہ داریوں سے آگاہ اور انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اُمیدوں کا مرکز ہے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے وہ سبھی اضلاع بشمول ایبٹ آباد خاطرخواہ تعمیروترقی چاہتا ہے‘ جنہیں سیاسی بغض و عناد اور تعصبات و امتیازات جیسے محرکات کے سبب دانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا تاکہ ایک خاص طبقہ اور استحصالی سوچ حکمراں رہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں وزیراعلیٰ کا تعلق جس ضلع سے ہوتا‘ اُس کی قسمت بدل جاتی۔ مثال کے طور بنوں اور مردان میں ہوئی تیزرفتار تعمیر و ترقی کے عمل کو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اِس رجحان و ترجیح کے ثمرات 1969 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ’ضلع ایبٹ آباد‘ تک نہیں پہنچ سکے‘ جس میں 51 یونین کونسلیں اور دو تحصلیں ہیں اُور تحریک انصاف سے اُمیدیں وابستہ کرنے والوں کی نظریں پشاور پر لگی ہوئی ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment